صدقۃ الفطرمیں گیہوں کا نصاب:ایک تجزیاتی مطالعہ

عید الفطر کی آمدآمد ہے۔حالاں کہ کرونا کی وجہ سے ملک کے مختلف حصوں میں لاک ڈاون ہے اور زندگی کے ہنگامے جیسے تھم سے گئے ہیں۔موت کے مہیب سائے درو دیوار پر بلند ہورہے ہیں اور ان کے خوف سے لوگ اپنے دروازے اور کھڑکیاں بند کرکے  گھروں کے نہاں خانوں میں جا چھپے ہیں۔پھر بھی عید تو عید ہے، نئے کپڑے،خوشبومیں بسا ہوا سماں،سویاں، مزعفر،شیراور دیگر لوازمات کا انتظار ہر چہرے پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ویسے یہ  انتظار صحیح بھی ہے اس لیے کہ عید روز روز تو آتی نہیں سال میں ایک مرتبہ آتی ہے۔ تو اس کا انتظار ہو نا فطری بات ہے۔

عید کی خوشیاں تو احتیاط کے ساتھ ضرور منائیں لیکن عید کی خوشیوں میں یہ ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ  کرونا کی اس عالمی وبا نے اور اس کے نتیجے میں لگنے والے لاک ڈاون نے ہمارے بہت سے بھائیوں کے لیے شدید قسم کے مسائل پیدا کردیے ہیں۔  ہم کو چاہیے کہ ہم ان کی آسانی کے لیے دعا بھی کریں اورجتنا ہوسکے ان کی مدد بھی کریں۔

اللہ رب العزت نے  عید کے طفیل ہمارے نادار بھائیوں کی امداد کے لیے صدقۃ الفطر کی مشروعت تو پہلے ہی کر رکھی ہے۔صدقۃ الفطر کامقصد ہی یہ ہے کہ عید کی خوشیوں سے کوئی فردِ بشر محروم نہ رہے۔حدیث شریف میں بھی صدقۃ الفطر کا ایک مقصد یہی بتایا گیا ہے کہ یہ  صدقہ  غرباومساکین کی ضروریات کی تکمیل کے لیے ہے۔اس لیے اس موقع پر زیادہ سے زیادہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہیے۔ہمارا رب چاہتا ہے کہ کوئی مسکین عید کی خوشیوں سے محروم نہ رہے۔تو ہم کو چاہیے کہ اس کام میں ایک دوسرے سے سبقت کرنے کی کوشش کریں۔

اس وقت کی گفت گو کا اصل مقصد یہ ہے کہ  ہمارے اوپرجتنا  صدقۃ الفطر واجب ہے اس کی پوری مقدار ادا ہو نی چاہیے۔اس میں کسی طرح کی کمی نہ رہ جائے۔چوں کہ اس میں کمی رہ گئی تو ہمارے ثواب میں بھی کمی رہ جائے گی۔

جیساکہ سب جانتے ہیں کہ ہمارے ملک بلکہ پورے بر صغیر میں صدقۃ الفطر بالعموم گیہوں سے ادا کیا جاتا ہے۔یعنی نصف صاع گیہو ں یا اس کی قیمت ادا  کی جاتی ہے۔ایک صاع تقریبا ۳ کلو پانسو گرام  ہوتا ہےاس لیے نصف صاع تقریبا  ایک کلو ساڑھے سات سو گرام ہوا(غالبا ایک کلو سات سو بانوے گرام)۔

ہم صدقۃ الفطر گیہوں کے حساب سے نکالتے تو ہیں لیکن کسی  صحیح حدیث میں گیہوں سے صدقۃ الفطر نکالنے کا حکم  نہیں آیا ہے۔بعض ضعیف روایات میں ہے لیکن صحیح احادیث کی موجودگی میں ان کی تاویل کی جائے گی۔صحیح احادیث میں صدقۃ الفطر کا نصاب دیگر اجناس جیسے جو ،کھجور،کشمش اور پنیر سے ایک صاع متعین کیا گیا ہے۔بخاری مسلم اور دیگر کتابوں کی صحیح روایات سے ثابت ہے کہ  گیہوں سےصدقۃ الفطرنکالنے کا اضافہ صحابہ کرام نے اپنے اجتہاد سے کیا تھا۔ اس کی بنیادیہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں گیہوں کا چلن عام نہیں تھا۔جب گیہوں کا چلن عام ہوا تو چوں کہ گیہوں اُس دور میں  دوسرے غلوں کے مقابلے میں مہنگا تھا۔اس لیے  قیمت کا اعتبار کرکےدیگر غلوں کے ایک صاع کو گیہو ں کے نصف صاع کے مساوی قرار دیا گیاتھا۔اس لیے گیہوں سے صدقۃ الفطر نصف صاع نکالنا طے ہوا۔ ذیل کی سطورمیں اسی مسئلے کا جائزہ لینے کی سعی کی گئی ہے۔

 بخاری ،مسلم اور حدیث کی تمام کتابوں میں ایسی کئی احادیث مروی ہیں جن میں صدقۃ الفطر کی مقدارمختلف اجناس سے ایک صاع بتائی گئی ہے۔ صحیح بخاری کی حدیث نمبر ۱۵۰۳میں ہے:

‘‘حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرہ کی زکوۃ ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو فرض قرار دی تھی۔غلام، آزاد، مرد، عورت، چھوٹے اور بڑے تمام مسلمانوں پر۔ آپ کا حکم تھا کہ نماز عید کے لیے نکلنے سے پہلے اس کو ادا کر دو۔’’

اس حدیث میں ایک صاع کھجور اور ایک صاع جوصدقہ الفطر کی مقداربتائی گئی ہے۔

 بخاری شریف کی دوسری احادیث جیسےحدیث نمبر۱۵۰۶ اور ۱۵۰۸ میں ایک صاع اناج،یاایک صاع جو،یاایک صاع کھجور،یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع کشمش کا تذکرہ ہے۔

ان دونوں حدیثوں میں مجموعی طور چار چیزوں کا ذکر ہے۔دوسری حدیث میں  سب سے پہلے ’’صاعاًمن طعام‘‘ یعنی کھانے میں سے ایک صاع کا تذکرہ ہے ۔باقی چیزیں بعد میں نام کی صراحت کے ساتھ بیان کی گئی ہیں۔اس حدیث میں لفظ طعام کی تعیین میں اختلاف ہے۔حافظ ابن حجر نے طعام سے متعلق جو گفتگو فرمائی ہے اس میں ایک قول تو یہ ہے کہ طعام سے مرادگیہوں ہے(اگر گیہوں مراد لیا جائے تو پھر نصاب نصف صاع نہیں بلکہ ایک صاع بنتا ہے)۔دوسری رائے یہ ہے کہ لفظ طعام مجمل ہے اور بعد میں آنے والےالفاظ اس کی تفسیر ہیں۔یعنی ہر طعام سے ایک صاع نکالنا ہے چاہے جو ہو یا کھجور وغیرہ اس ضمن میں  حافظ ابن حجر نےاور تفصیلات بھی  بیان کی ہیں۔جو فتح الباری میں دیکھی جا سکتی ہیں۔(فتح الباری حدیث نمبر ۱۵۰۸ کی شرح)

صدقۃ الفطر میں گیہوں کے استعمال سے متعلق سب سے مستند حوالہ خلافت راشدہ کے بعد امیر معاویہ کے عہد خلافت کا ہے۔بخاری شریف کی حدیث نمبر ۱۵۰۸ میں ہے کہ

"حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صدقہ فطر ایک صاع طعام یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو یا ایک صاع کشمش نکالتے تھے۔ پھر جب معاویہ آئے اور گیہوں کاچلن عام ہوگیا تو انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اس کایعنی گیہوں کا ایک مددوسرے اناج کے دو مدکے برابر ہے۔

یہ حدیث مسلم شریف میں نمبر ۹۸۵پر بھی مروی ہے۔اس میں یہ وضاحت بھی ہے کہ امیر معاویہ حج یا عمرہ کرنے آئے تھے۔

اگرچہ حضرت ابو سعید خدری کی روایت میں واضح طور اس کا ذکر ہے کہ گیہوں سے صدقہ فطر کی مقدار نصف صاع امیر معاویہ نے  متعین کی تھی۔ تاہم حافظ ابن حجر نے اس حدیث کی شرح میں ایسے اقوال بھی نقل کیے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہےکہ یہ کام امیر معاویہ کی اولیت نہیں ہے۔ بلکہ ان سے پہلے بھی صحابہ کرام اسی طرح کا فیصلہ کر چکے تھے۔ چناں چہ حضرت عمرکے زمانے میں جب گیہوں  کا چلن عام ہواتو انھوں نے بھی یہی فیصلہ کیا تھا کہ گیہوں کا ایک مد دوسرے اجناس کے دو مدکے برابر ہے اور یہی فیصلہ حضرت عثمان نے بھی اپنے عہد خلافت میں کیا تھا۔حافظ ابن حجر نے کئی دوسرےصحابہ کی رائے بھی اسی کی موافقت میں نقل کی ہے۔

ان تمام روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ صدقۃ الفطر میں مقدار کے تعین کے لیےاصل حیثیت جنس کی نہیں ہے، بلکہ مالیت کی ہے۔یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں ایک صاع کھجور، ایک صاع جویا ایک صاع کشمش وغیرہ جن چیزوں کا ذکر حدیث شریف میں ہے ان کی مالیت مساوی تھی اسی لیے تمام اجناس میں سے ایک صاع صدقۃ الفطر مشروع کیا گیا اور اسی پر قیاس کرکے صدقۃ الفطر کو نقدی کی شکل میں دیا جا سکتا ہے۔بعد میں اسی پرقیاس کر کے گیہوں سے صدقۃ الفطر کی مقداردیگر اجناس کے مقابلے میں نصف مقرر کی گئی تھی اور مقدار کا یہ تعین چاہے حضرت عمر کے دور میں ہوا ہو یا حضرت عثمان یا پھر امیرمعاویہ،بہر حال صحابہ کرام کا اجتہاد تھا اوروجہ اجتہادگیہوں کا ان اجناس کے مقابلے میں مہنگا ہو نا تھا۔اس پوری گفتگو کو درج ذیل تین نکات میں ملخص کیا جاسکتاہے۔

۱۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اغلبا گیہوں سے صدقہ فطر نہیں نکالا گیا۔بلکہ اس وقت جو کھانے مدینہ میں معروف تھے ان کا ہی ذکر حدیث میں ہے اوران سب سے ایک صاع نکالا گیا۔

۲۔ صحابہ کرام کے دور میں گیہوں کا چلن عام ہوا تو حضرت عمریا حضرت عثمان یا امیر معاویہ کے دور میں گیہوں کو بھی صدقہ فطر میں شامل کیا گیا اور مقدار کا تعین قیمت کی بنیاد پر کرکے گیہوں سے نصف صاع صدقہ مقرر ہوا۔۔

۳۔نصف صاع گیہوں نکالنا ایک اجتہادی مسئلہ تھا۔صحابہ کرام نے  گیہوں کی قیمت کو  اجتہادکی وجہ بناکر گیہوں سے صدقہ فطر کی مقدار نصف صاع مقرر کی۔

 

موجودہ صورت حال:

جیسا کہ اوپر کی گفتگو سے واضح ہوا کہ گیہوں سےصدقہ فطر کی مقدار کا تعین قیمت کے اعتبار سے تھا۔اس زمانے میں ایک صاع جو نصف صاع گیہوں کے مساوی مانا جاتا تھا۔مقدار کا یہ تعین ایک اجتہادی مسئلہ تھا۔منصوص مسئلہ نہیں تھا۔

موجودہ زمانے میں صورت حال میں بڑی تبدیلی یہ آئی ہے کہ جو اور گیہوں کی قیمت تقریباً مساوی ہو گئی ہے۔بلکہ عام طور پر گیہوں سستا ملتا ہے اور جو مہنگا ملتا ہے۔آج کل دکانیں بند ہیں انٹرنیٹ پرجو اور گیہوں کی قیمتیں تلاش کیں تو دیکھ کر ہوش اُڑ گئے۔اللہ تعالی سے دعا کی کہ یہ قیمتیں کبھی بھی کمپیوٹر سے باہر نہ نکلیں ورنہ غریب آدمی کے لیے تو گیہوں اور جو  کا دیدار ہی مشکل ہو جائے گا۔بہر حال اپنے وطن قصبہ تجارہ،ضلع الور،راجستھان  کے بازار میں ان دونوں اجناس کی قیمت دریافت کی تو معلوم ہوا کہ گیہوں اٹھارہ روپیے کلو اور جو انیس روپیے کلو ہے۔یعنی بازار میں جو کی قیمت زیادہ ہے۔

جو اور گیہوں کی قیمتوں کا یہ تفاوت بہت پرانا نہیں ہے بلکہ یہ تبدیلی گزشتہ دو عشروں میں آئی ہے۔اس سے پہلے گیہوں ہی مہنگا تھا۔اس لیے صدقۃ الفطر کے روایتی حساب میں کوئی مسئلہ ہی نہیں پیدا ہوا۔

 لیکن آج کے دور میں جو بھی مہنگا ہو گیاہے اوردونوں کی قیمت مساوی ہو گئی ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ عہد صحابہ کا اجتہادی مسئلہ جس کی بنیاد دونوں اجناس کی قیمتوں کے فرق پر تھی اسی طرح رہے گایا اس میں کچھ تبدیلی آئے گی۔اصلا یہ مضمون ایک سوال  ہے۔اس کا مقصد اس مسئلے کو سمجھنا ہے اگرمسئلہ ایسا ہے جیسا کہ اس مضمون میں ذکر کیا گیا تو اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔یعنی موجودہ دور میں گیہوں سے صدقہ فطر کے نصاب پر نظر ثانی ہو نی چاہیے اور صحابہ کرام کے طرزعمل  کا اتباع کرتے ہوئے  جب دونوں  اجناس یعنی گیہوں اور جوکی قیمت مساوی ہو گئی ہے تو دونوں سے مساوی مقدارکو ہی صدقۃ الفطر کی مقدار تسلیم کیا جانا چاہیے۔یا پھر کم سے کم مقدار کے لیے  گیہوں کی جگہ جو کو ہی معیار بنالیں اور تین کلو پانسو گرام جو یا اس کی قیمت کو صدقہ فطر کی مقدار قرار دیں۔اگر گیہوں سے نکالیں تو مذکورہ جو کی مقدار کی قیمت   کو نصاب مقرر کرلیں۔

اتفاق یہ ہے کہ آج کے دور میں نہ صرف جو کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے بلکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم کے  دور کی تمام غذائی اجناس کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ بھی ہوا ہے اور قیمتوں کے تناسب میں بھی بڑا فرق آیا ہے۔کھجور کی قیمت کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں کشمش بھی تین سو روپیے فی کلو کے پار ہی رہتی ہے ۔پنیر بھی دوسو روپیے کے ارد گرد رہتا ہے۔ اس لیےمعاشرے کے اصحاب وسعت لوگوں کے لیے پنیر،کشمش اور کھجورسے صدقہ فطر نکالنے کا موقع ہے۔ان کو چاہیے کہ وہ معاشرے کے فقرائ کی رعایت کرتے ہوئے کھجور و کشمش وغیرہ اجناس سے صدقۃ الفطرنکالیں اور گیہوں یا جوسے صدقہ نکالنے کی سہولت عام آدمی کے لیے رہنے دیں ۔ لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتے تب بھی کم از کم یہ کوشش ضرورکریں کہ ایک صاع یعنی تین کلو پانسو گرام  صدقہ نکالیں تاکہ پورا اطمنان رہے کہ  مقدار پوری ادا کردی گئی۔ اگرواجب سے زیادہ بھی  ادا کردیاتو اس کا بھی ثواب ملے گا، ضائع نہیں جائے گا اور جو شخص 50روپیے دے سکتا ہے اس کے لیے سو روپیے دینا بھی مشکل نہیں ہوگا۔

لاک ڈاؤن کے اس دور میں ضرورت مندوں کی ضروریات کا زیادہ  سے زیادہ خیال رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ صدقۃ الفطردراصل لینے والے کی تو امداد ہے لیکن دینے والے کے لیے اللہ کاانعام ہے کہ اس طرح اس کے روزے میں جو کمیاں رہ گئیں تھیں وہ دور ہو جائیں گی۔اس انعام کو اسی جذبے سے لینا چاہیے۔ رب العالمین کو دلوں کے حال کی پوری خبر ہے۔ ہم اس  نعمت کو انعام کی طرح لیں گے تو وہ انعام کی طرح عطا کرے گا اور اگر ہم اس کو صرف ایک ذمہ داری کی طرح لیں گے تو وہ بھی ذمہ داری ادا کرادے گا۔

(پس نوشت:ترمذی شریف  میں حضرت ابو سعید خدری کی روایت جس میں امیر معاویہ کے ذریعے گیہو ں سے صدقۃ الفطر کی مقدار نصف صاع مقرر کرنے کا تذکرہ ہے اس کے بعد ایک روایت میں  ہے کہ عمرو بن شعیب نے اپنے والد اور ان کے والد نے اپنے والد سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینے میں منادی کرائی تھی کہ جس میں یہ اعلان تھا کہ گیہوں سے نصف صاع صدقۃ الفطر دیاجائے۔ابو داؤد میں بھی اسی طرح کی راوایت حضرت ابن عباس سے بھی مروی ہے لیکن ابوداودکی روایت میں نصف صاع کی نسبت واضح طور پر رسول اللہ کے زمانے کی طرف نہیں کی گئی ہے اور ابوداؤد میں کئی دوسری روایات ہیں جن سے اندازہ ہو تا ہے کہ حدیث میں گیہوں کے تذکرے کو محدثین نے راوی کے وہم سے تعبیر کیا ہے۔سنن نسائی میں بھی حضرت ابن عباس کی روایت موجود ہے اور اس میں الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وسلم نے نصف صاع گیہوں مقرر کیا۔لیکن امام نسائی نے اسی روایت کو اپنی دوسری کتاب السنن الکبری میں تین  اسناد سے نقل کیا ہے ایک میں گیہوں سے نصف صاع کی بات ہے، ایک میں گیہوں سے بھی ایک صاع کی بات ہے اور ایک سند میں گیہوں کا ذکر ہی نہیں ہے۔ایک بات یہ بھی ہے کہ ان تمام کتابوں میں بہت واضح طور پر وہ روایات بھی آئی ہیں جن میں گیہوں سے صدقہ فطر کی مقدار صحابہ کرام کے ذریعے مقرر ہونے کا ذکر ہے۔جو اوپر بخاری و مسلم کے حوالے سے بیان کی جا چکی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں نصف صاع گیہوں کا تذکرہ صرف چند ضعیف احادیث میں ہے جب کہ صحابہ کرام کے ذریعے نصف صاع کی تعین کیے جانے کی بات صحیح احادیث سے ثابت ہے اور صحیح حدیث کو چھوڑ کر ضعیف پر عمل کرنا کسی طرح بھی موزوں نہیں۔ اس لیے اب بدلے ہوئے حالات میں اس  نصاب پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔(صدقۃ الفطر کے حوالے سے یہ  نکتہ در اصل سیرت طیبہ کے متبحر عالم اور عالم اسلام کی ایک نمایاں علمی شخصیت پروفیسر یسین مظہر صدیقی کا پیش کردہ ہے۔راقم الحروف نے اسی نکتے  ان الفاظ میں پیش کرنے کی کوشش ہے۔)

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter