موجودہ حالات میں مسلمان سرچشمہ عزم و استقلال غزوۂ بدر سے نصیحت حاصل کریں
اللہ تعالی کی وحدانیت کے فروغ، دنیا سے فتنہ و فساد کے سد باب اور اسلام کی شوکت و غلبہ کے لیے 2 ہجری سے 9 ہجری تک جاری رہنے والی جنگیں جس میں نبی پاکؐ نے بنفس نفیس شرکت فرمائی سیرت نگاروں کی اصطلاح میں اس کو غزوہ کہتے ہیں یہ وہ دور تھا جب آپ کی عمر شریف ضعف و اضمحلال کی طرف طبعی طور پر گامزن تھی۔ غزوات النبیﷺ تاریخ اسلام کا ایک ایسا روشن اور زریں باب ہے جو تاصبح قیامت غازیان و مجاہدین اسلام کی رہنمائی کرتا رہے گا۔ 27 غزوات نبویﷺ میں صرف 9 غزوات ایسے ہیں جس میں جنگ کی نوبت آئی جبکہ مابقی مہمات میں مختلف وجوہات کے باعث بغیر جنگ کے ہی مقصد حاصل کرلیا گیا۔ 624ء میں پیش آئے ایسے ہی غزوہ یعنی بدر العظمی کو خاص اہمیت حاصل ہے جو 17 رمضان المبارک سن 2 ہجری میں پیش آنے والا حق و باطل کا اولین معرکہ ہے جو زمانی تربیت کے اعتبار سے پانچواں غزوہ ہے۔ انسانی معاشرے کی فلاح و بہبود کا انحصار مستحکم معاشی نظام اور مضبوط دفاعی نظام پر منحصر ہے۔ محسن انسانیتؐ بغیر کسی جنگ کے ارادے سے محض معاشی پہلو کو مستحکم کرنے کے لیے جب تجارتی قافلہ کی تلاش میں نکلے تو مشرکین نے مسلمانوں پر جنگ مسلط کردی۔
دراصل یہ خدائی انتظام تھا کہ مسلمان معاشی نظام کو مستحکم کرنے سے پہلے دفاعی نظام کو مضبوط کریں۔ آج کا مسلمان جو ذلت و رسوائی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے اس کی ایک اہم وجہ یہی ہے کہ اس نے دفاعی نظام سے زیادہ معاشی حالات کو سدھارنے پر اپنی پوری توانائیاں صرف کررہا ہے جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ہمارا دفاعی نظام اس قدر کمزور ہوچکا ہے کہ قرآن مجید کے نسخوں کو نذر آتش کیا جارہا ہے، آئے دن شان رسالت میں گستاخیاں معمول بنتا جارہا ہے، شریعت مطہرہ پر اعتراضات کیے جارہے ہیں، عبادتگاہوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، مسلمانوں کا ناحق خون بہایا جارہا ہے، عبادت میں مصروف نہتے مسلمانوں پر مسلح افواج حملہ آور ہورہی ہیں، مسلمانوں کی عظیم تاریخ اور کارناموں کو حرف غلط کی طرح مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے، مسلمانوں کی تعلیمی و معاشی حالات کو کمزور کرنے کے لیے منصوبے تیار کیے جارہے ہیں جس پر نہ صرف اقوام متحدہ اور حقوق انسانی کی بات کرنے والی نام نہاد تنظیمیں خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے بلکہ خود مسلمان بھی اس کا عزم و استقلال کے ساتھ مقابلہ کرنے سے قاصر نظر آرہے ہیں۔
ایسے حالات میں عصر حاضر کے مسلمانوں کے لیے غزوہ بدر کا یہی پیغام ہے کہ معاشی حالات کو سدھارنے سے پہلے ہم اپنے دفاعی نظام کو فعال بنائیں۔ قرآن مجید غزوہ بدر پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے یوم الفرقان اور یوم التقی الجمعان کے ناموں سے یاد فرمایا ہے۔ معرکہ بدر میں اسلامی لشکر کے آگے دو سیاہ رنگ کے جھنڈے تھے۔ ایک پرچم خلیفہ چہارم امیر المومنین حضرت علیؓ کے ہاتھ میں تھا جس کا نام عقاب تھا اور یہ جھنڈا ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کی چادر میں سے بنایا گیا تھا۔ غزوہ بدر میں مسلمان کی تعداد بہت کم یعنی صرف 313 تھی جن میں صرف 6 زرہ پوش تھے جبکہ مشرکین کی تعداد 950 تھی جو ہر طرح کے اسلحہ سے پوری طرح مسلح تھے۔ مزید برآں مسلم لشکر میں 240 چالیس انصار صحابہ کرام ایسے تھے جن کے پاس پیشہ زراعت سے وابستہ ہونے کے سبب جنگی تجربہ نہ تھا اس کے برخلاف مشرکین مکہ میں سب ماہرین جنگ اور آلات حرب کے استعمال میں ید طولی رکھنے والے بڑے بڑے بہادر لوگ تھے۔ روایت میں آتا ہے کہ قباث ابن اشیم (جو بعد میں حلقہ اسلام میں داخل ہوگئے) مسلمانوں کی کم تعداد دیکھ کر اپنے دل میں خیال کرنے لگے کہ صرف قریش کی خواتین بھی نکل آئیں تو مسلمانوں کو آسانی سے پسپا کردیں گی۔
خلیفہ ثانی امیر المومنین حضرت عمر ابن الخطابؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی مکرمﷺ نے قبلہ کی طرف منہ کیا اور ہاتھ پھیلا کر مسلسل اللہ سے دعا کرتے رہے حتی کہ آپؐ کے شانوں سے رداء مبارک ڈھلک گئی، آپ دعا فرما رہے تھے اے اللہ تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے اس کو پورا کر، اے اللہ تو نے مجھ سے جس کا وعدہ فرمایا ہے وہ مجھ کو عطا کر، اے اللہ اگر تو نے مسلمانوں کی اس جماعت کو ہلاک کردیا تو زمین پر تیری عبادت نہیں کی جائے گی، حضرت ابو بکرؓ آئے انہوں نے آپؐ کے شانوں سے ڈھلکی ہوئی چادر کو پکڑ کر آپ کے کندھوں پر ڈالا پھر آپ سے لپٹ گئے اور کہا اے نبی اللہ آپؐ نے اپنے رب سے کافی دعا کرلی ہے وہ عنقریب آپؐ سے کئے ہوئے اپنے وعدہ کو پورا فرمائے گا سو اللہ عز و جل نے یہ آیت نازل فرمائی۔ ترجمہ: ’’یاد کرو جب تم فریاد کر رہے تھے اپنے رب سے تو سُن لی اس نے تمہاری فریاد (اور فرمایا) یقیناً میں مدد کرنے والا ہوں تمہاری ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ جو پے درپے آنے والے ہیں اور نہیں بنایا فرشتوں کے نزول کو اللہ نے مگر ایک خوشخبری اور تاکہ مطمئن ہوجائیں اس سے تمہارے دل‘‘ (سورۃ الانفال آیت 9-10) مٹھی بھر مسلمانوں نے بے سروسامانی کے باوجود 70 مشرکین بشمول سرداران قریش ابو جہل، عتبہ، شیبہ، ولید، امیہ بن خلف کو واصل جہنم کیا اور 70مشرکین کو گرفتار کیا اس طرح کفر کا زور توڑ کر رکھ دیا جو دراصل مسلمانوں کی دفاعی کامیابی اور مخالفین اسلام کی دفاعی ناکامی تھی۔ 70 گرفتار شدہ جنگی قیدیوں میں سے بیشتر کو مدینہ طیبہ مراجعت کے بعد رہا کردیا گیا جو تاریخ انسانیت کا پہلا اور انوکھا واقعہ تھا۔ اسلامی لشکر سے 6 مہاجرین اور 8 انصار یعنی 14 صحابہ کرام غزوہ بدر میں منزل شہادت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔حق کے جانثاروں کی اس شجاعت کو دنیا تاصبح قیامت فراموش نہ کرسکے گی۔ مومنین کی قلیل کمیت اور مشرکین کی کثیر تعداد اور ان کے جنگی ساز و سامان کے باوجود اللہ تعالی نے اپنی قدرت کاملہ سے خطرناک صورت حال میں نشیب کی طرف ٹہرے ہوئے جنگی ساز و سامان سے عاری لیکن مخلص مومنین کو اپنے حبیب مکرمﷺ کی سربراہی میں غیر متوقع معجزہ نما اور عظیم الشان نصرت و فتح سے سرفراز فرمایا اور عمرو بن ہشام المخزومی کی قیادت میں بلندی کی طرف سے لڑنے والے مسلح مشرکین کے لشکر جرار کو شکست دے کر ان لوگوں کے لیے درس عبرت بنادیا جو خالق کونین کی قدرت کی بجائے دنیاوی اسباب پر بھروسہ کرتے ہوئے ابلیس کے دام فریب میں پھنس جاتے ہیں۔
مسلمانوں کو اس عظیم معرکہ میں ثابت قدم رکھنے، ان کے عزم و حوصلے کو قوت بخشنے کے لیے حکمت خداوندی کی کرشمہ سازی تھی کہ مشرکین تعداد میں زیادہ ہونے کے باوجود مسلمانوں کو وہ کم نظر آرہے تھے جس نے مسلمانوں میں ایک نئی روح پھونک دی اس طرح انتہائی خوف و پریشانی کے حالات میں بھی مسلمانوں کے لیے امید افزاء حالات پیدا ہوگئے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ کہتے ہیں کہ ’’غزوہ بدر کے موقعہ پر مشرکین ہمیں اتنے کم نظر آرہے تھے کہ میں نے ایک شخص سے کہا شاید یہ سب ملاکر ساٹھ آدمی ہیں، اس پر اس نے کہا میں سمجھتا ہوں ان کی تعداد سو تک ہے‘‘ قرآن مجید کی یہ آیت پاک اسی حقیقت کو بیان کررہی ہے۔ ترجمہ:۔ ’’اور یاد کرو جب اللہ نے دکھایا تمہیں لشکر کفار جب تمہارا مقابلہ ہوا تمہاری نگاہوں میں قلیل اور قلیل کردیا تمہیں ان کی نظروں میں تاکہ کر دکھائے اللہ تعالی وہ کام جو ہوکر رہنا تھا‘‘ (سورۃ الانفال آیت 44)۔ اس طرح مشرکین کثیر تعداد میں ہونے کے باوجود مسلمانوں سے مرعوب اور خوف زدہ ہوگئے یہ دراصل مسلمانوں کی کامیابی کے لیے اللہ تعالی کی جانب سے غیبی امداد تھی۔ قوتِ ایمان اور تربیتِ اسلامی سے آراستہ مسلمانوں کو نہ صرف غزوہ بدر الکبری میں کامیابی و سرخروئی ملی بلکہ اس کے بعد اسلام مشرق سے مغرب تک پھیل گیا جس کا انہیں بھی گمان نہ تھا۔ مسلمانوں کو یہ فتح و کامرانی ان کے مضبوط و مستحکم جذبہ ایمانی، عشق رسولﷺ، توکل اور اخلاص کی وجہ سے حاصل ہوئی۔ یوم الفرقان کا عصر حاضر کے مسلمانوں کو یہی پیغام ہے کہ اغیار کی تعداد اور ان کی جنگی ساز و سامان اور صلاحیتوں کو خاطر میں لائے بغیر صرف اور صرف رب کائنات سے راہ و رسم رکھیں اور اپنے ایمان، عشق مصطفیﷺ، توکل اور اخلاص کو مضبوط و مستحکم کریں یقیناً اللہ تعالی ایسے ہی لوگوں کو کامیابی و کامرانی سے ہمکنار فرماتا ہے اور پوری کائنات کو اسلام کے نور سے روشن فرمادیتا ہے۔
اگر مسلمان ایمانی غیرت و حمیت، شجاعت و بسالت کو فراموش کرکے دنیاوی عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کو ترجیح دیں گے تو وہ تعداد میں زیادہ ہونے کے باوجود ذلت و رسوائی اور اہل کفر کے ہاتھوں تباہی و بربادی ان کا مقدر بن جائے گی جیسا کہ موجودہ دور میں عالمی سطح پر مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہے۔ باطل کے ناپاک عزائم اور ان کے سرِ غرور کو خم کرنے اور حق پر پڑے شکوک و شبہات اور بغض و عناد کے پردے اٹھانے اور حق سے پوری انسانیت کو روشناس کروانے کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان غزوہ بدر کو اپنی زندگی کا دستور اور نمونہ عمل بنالیں۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے۔ ترجمہ: ’’بے شک تھا تمہارے لیے (عبرت کا) نشان (ان) دو گروہوں میں جو مِلے تھے (میدانِ بدر میں) ایک گروہ لڑتا تھا اللہ کی راہ میں اور دُوسرا کافر تھا دیکھ رہے تھے (مُسلمان) اُنہیں اپنے سے دوچند (اپنی) آنکھوں سے اور اللہ مدد کرتا ہے اپنی نُصرت سے جس کی چاہتا ہے‘‘ (سورۃ آل عمران آیت 13)۔
اس آیت سے واضح ہوجاتا ہے غلبہ و کامیابی کا مدار تعداد و ساز و سامان پر نہیں بلکہ کامرانیوں کا اصل سرمایہ محض نصرت و رحمت خدا وندی ہے جو صرف صاحب ایمان کو حاصل ہوتی ہے۔ آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفی اس ماہ ِمبارک میں تمام مسلمانوں کو اپنی رحمت، مغفرت سے سرفراز فرمائے اور دوزخ سے نجات عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔