ہماری سوچ وفکر ہی باعثِ خوشی و غم ہے
ہر چہار جانب انسانوں کا ہجوم ہے۔ محلہ، گاؤں، شہر، بازار، سڑک، اسٹیشن جدھر ہی دیکھو انسان ہی انسان نظر آتے ہیں۔ ہر انسان کی اپنی اپنی مصروفیت ہے: کوئی پڑھ رہا ہے تو کوئی پڑھا رہا ہے۔ کوئی کھیل رہا ہے تو کوئی دیکھ رہا ہے۔ کوئی بیچ رہا ہے تو کوئی خرید رہا ہے۔ نیز کوئی مصروف ہے تو کوئی عدم مصروف ہے۔ مگر ہر انسان کی چاہت اور جستجو میں یہ متفقہ طور پر شامل ہے کہ رنج والم کو دور کرنا ہے اور مسرت و شادمانی کو حاصل کرنا ہے۔
بسا اوقات حزن وملال، غم واندوہ کا منبع و سرچشمہ ہماری سوچ اور فکر ہوا کرتی ہے۔ بایں طور کہ اگر ہم قصورِ نظر کے حامل ہیں تو ہماری جانب آنکھ اور ہاتھ کے اشارے سے ہونے والی چند افراد کی آپسی گفتگو ہمیں حیران وپریشان کر دیتی ہے۔ اگر ہماری سوچ مثبت ہو اور حسن ظن سے کام لیں تو لوگوں کی آپسی گفتگو ہمارے سکون واطمینان نہیں چھین سکتی۔ گویا زوالِ چین وسکون کے پیچھے ہماری سوچ کا ایک بڑا کردار ہوتاہے۔ لہذا سوچ وفکر مثبت طریق پر ہو تو زندگی خوش حال اور خوش گوار ہوجائے گی ۔ کیوں کہ معاشرے میں بے شمار ایسے حیوان ناطق ہیں جو فقط فاسد خیالات کی وجہ سے اپنے آپ کو پریشانی میں مبتلا کرکے ہلاکت کی طرف لے جاتے ہیں۔ لہذا سوچ بدلو زندگی بدلو۔
علی سبیل المثال قد وقامت میں یکساں دو آدمی کو وزن میں برابر سرابر ایک جیسا بوجھ دیا جائے تو پہلا آدمی ہنستے مسکراتے گاتے گنگناتے بوجھ اٹھا لیتا ہے۔ دوسرا آدمی اول فول بکنا شروع کردیتا ہے گویا کہ اپنے سر پر پہاڑ اٹھا رکھا ہے۔ جب دونوں آدمی اور دونوں بوجھ یکساں ہیں تو پہلا خوش اور دوسرا ناخوش کیوں ہے؟ اگر باعثِ غم بوجھ ہے پھر تو پہلے آدمی کو بھی غمگین ہونا چاہیے۔
اگر مقدماتِ سوچ وفکر خطا سے محفوظ ہوں تو مکینِ جھوپڑ پٹی بھی خوش گوار زندگی گذار سکتا ہے۔ ورنہ فلک بوس محل میں بھی خوش حالی میسر نہیں ہوتی ہے۔ بلکہ اختلافِ مزاج کا عالم یہ ہے کہ ایک مفلوک الحال شخص جس کی ملکیت میں زیادہ کچھ نہیں ہے پھر بھی جو کچھ ہے اس پر وہ خوشی خوشی شکر الہی بجا لاتا ہے۔ وہیں پر دوسرا مغرور الحال شخص جو کثیر مال ودولت کا مالک ہے پھر بھی مزید کی چاہت میں روتا، بلبلاتا ہے۔ معلوم چلا کہ اگر مال باعث خوشی ہوتا تو ہر مالدار خوش اور ہر غریب ناخوش نظر آتا۔
اگر مال ومتاع ہی سب کچھ ہوتا تو وہ آدمی جو شدتِ پیاس کی وجہ سے جاں بلب ہو موت وحیات کی کشمکش میں ہو اگر اسے پتہ ہو کہ دو مختلف سمتوں میں ایک ایک کلو میٹر کی مسافت پر ایک سمت پانی موجود ہے اور دوسری سمت ہیرے جواہرات موجود ہیں تو پیاسا اپنے سوکھے حلق کو تَر کرنے کے لیے پانی کی طرف رخ کرےگا نہ کہ ہیرے جواہرات کی طرف۔
ذکر کردہ مثال میں ایک قابل غور نکتہ یہ بھی ہے کہ اگر وہ ابن آدم عقل و شعور سے عاری ہوگا تو بذریعۂ پانی حصولِ حیاتِ نو پر سجدۂ شکر ادا کرنے کے بجائے ہیرے جواہرات کے چھوٹ جانے پر کف افسوس ملتے ہوئے ماتم کناں ہوگا۔ اسی ٹینشن میں پرسکون زندگی کو پُرغم بنا لے گا۔ اور جو ذی شعور ہوگا شدتِ پیاس سے نجات پاتے ہی خدا کا شکر ادا کرے گا۔ اور ہمیشہ اپنی قسمت پر فرحاں ونازاں رہے گا کہ اللہ ربّ العزت نے ایسی نازک گھڑی میں پانی فراہم کرکے ہماری زندگی بچا لی۔
کبھی آدم زاد کا پریشان حال اور فکرمند رہنے کا باعث یہ ہوتا ہے کہ وہ سارا کچھ اپنی طبیعت ومزاج کے موافق چاہتا ہے حالانکہ ذرا سا وادئ خیال میں تغیر کرکے اپنی حالت بہتر کر سکتا ہے۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا؟! کہ ٹرین کا مسافر ٹرین میں چائے، اوڑا پاؤ فروشوں اور ٹرین کی کھڑکھڑاتی، بھڑبھڑاتی آواز کے ساتھ اپنی نیند پوری کرلیتا ہے مگر وہی بندہ گھر میں ہلکی سی سرسراہٹ سے اٹھ کر بیٹھ جاتا ہے۔ کیوں کہ مسافرِ ٹرین اچھی طرح جانتا ہے کہ اگر ماحول کو اپنے مزاج کے مطابق ڈھالنے کی فکر میں مبتلا ہوا تو ذلت ورسوائی اور تضیع اوقات کے سوا کچھ ہاتھ نہیں لگ سکتا یہی وجہ ہے کہ انسان خود کو ٹرین کے ماحول کے مطابق ڈھال کر چین واطمینان کے ساتھ اپنی نیند پوری کرتا ہے۔
لہذا بلا ضرورت ماحول کو اپنے مزاج کے مطابق ڈھالنے کی فکر میں ہلاکت مول لینے کے بجائے خود کو ماحول کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ مثلاً آپ کا دولت خانہ شاہراہ کے قریب ہے جس پر ہواؤں کو چیر کر سرپٹ چھوٹی بڑی گاڑیاں آتی جاتی ہیں۔ اب آپ یا تو گاڑیوں کی آواز اور سیٹیوں سے پریشان ہوکر ہر گاڑی والے کو سمجھائیں یہ مکمن نہیں ہے۔ یا تو اپنا گھر فروخت کرکے کہیں دوسری جگہ خرید لیں یہ بھی آسان نہیں ہے۔ ایسی نازک صورت حال میں خوش گوار زندگی جینے کے لیے آپ کے پاس واحد ذریعہ ہوگا کہ خود کو ماحول کے مطابق ڈھال لیں اور ان آوازوں کے ساتھ جینے کی عادت ڈال لیں۔ جیسا کہ مشاہدہ ہے کہ شارع عام کے قریب مکانوں کے مکیں کی نیندیں گاڑیوں کی صداؤں سے خلل انداز نہیں ہوتی ہے۔
یوں ہی زندگی کے تمام گوشوں میں اچھی سوچ درکار ہوتی ہے کیوں کہ اچھی سوچ اچھی زندگی فراہم کرتی ہے۔ بلکہ ترقیاں بھی اچھی سوچ میں مضمر ہیں۔ کیا آپ دیکھتے نہیں ؟ کہ بعض مریض خود کے بارے میں گمان کرتے ہیں ہے کہ وہ چل پھر نہیں سکتے، اٹھ بیٹھ نہیں سکتے مگر اسی مریض کو کسی بڑی کمپنی میں پروموشن کی خوش خبری ملے تو وہی مریض خوشی کے مارے اچھلنے کودنے لگے گا سب سے گلے ملنے لگے گا۔ یا اگر اسی مریض کے روم میں اژدہا آئے تو تندرست آدمی کی طرح اچھل کود کر راہ فرار اختیار کرے گا۔ ذرا سوچئے اگر حالت مرض میں آپ کے اندر اتنی طاقت وقوت ہے تو حالتِ صحت کا عالم کیا ہوگا۔ مشہور مقولہ ہے : "جو ڈر گیا وہ مر گیا جو ڈٹ گیا وہ جیت گیا." اور یہ ڈرنا اور ڈٹنا بھی ہماری سوچ پر منحصر ہوتا ہے۔ لہذا سوچ بدلو زندگی بدلو۔