بیٹیاں، محسن انسانیتﷺ كی نظر ميں

تاریخ کے جس عہد میں پیغمبر اسلام، محسن انسانیت (صلیﷲ علیہ وسلم) خاکدان گیتی پر تشریف لائے اس دور میں عورتوں کا مقام بہت ہی بدتر تھا - دنیا کے گوشے گوشے میں عورتیں محکومیت کی زندگی بسر کر رہی تھیں - انہیں تمام انسانی حقوق ومراعات سے نہ صرف محروم کردیا گیا تھا بلکہ ان کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کیا جاتا تھا - اس وقت جس قدر مذاہب موجود تھے یا قومیں آباد تھیں ان کے نزدیک عورت گناہوں کا سر چشمہ سمجھی جاتی تھی یہاں تک کہ وہ مردوں کے ظلم وزیادتی کے سامنے نہ زبان کھول سکتی تھی اور نہ مذہبی امور میں حصہ لے سکتی تھی - وہ دنیا کے بازاروں میں حقیر سامان کی طرح بیچی اور خریدی جاتی تھی، اس مظلومی نے خود اس کے ذہن سے عزت نفس کا احساس مٹا ڈالا تھا - وہ خود بھی اس بات کو بھول بیٹھی تھی کہ دنیا میں وہ کوئی حق لے کر آئی ہے یا صرف مردوں کے ہوس کا کھلونا بن کر پیدا ہوئی ہے - مرد اس پر ظلم وستم ڈھانا اپنا پیدائشی حق سمجھتا تھا وہ اس کے ہر ظلم کو سہتے رہنا اپنا فرض جانتی تھی -

سارے عالم کے لئے رحمت بن کر تشریف لانے والے محمد عربی (صلیﷲ علیہ وسلم) نے عورتوں کو عزت وعظمت کے اس بلند مقام پر پہونچا دیا جہاں پہنچ کر انسانی عقلی حیران رہ جاتی ہے - انہوں نے عورت کو فرش سے اٹھا کر عرش تک پہونچا دیا - عورت کے حقوق، والدین، شوہر اور اولاد پر عائد کئے تاکہ وہ کسی موقع پر بے یارو مددگار نہ رہے - مردوں کو ان کی عزت وعصمت اور جان ومال کا محافظ بنایا اور عورتوں کی عزت وآبرو کے لئے ان تمام دروازوں کو بند کردیا جہاں سے کوئی خطرہ پیدا ہونے کا امکان ہوسکتا ہے - اتنا ہی نہیں بلکہ انہوں نے لوگوں کو عورتوں سے بہترین سلوک کی تلقین کے ساتھ ساتھ خود بھی اپنی ازواج مطہرات، پاکیزہ بیٹیوں اور دیگر عورتوں کے ساتھ حسن معاشرت کا برتاؤ کیا - عورتوں کے حقوق کے سلسلے میں حضور (صلیﷲ علیہ وسلم) کی خاص دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ نے صرف گھریلو اور خاندانی عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید ہی نہیں فرمائی بلکہ خاد ماؤں اور دبی کچلی مزدور عورتوں کو بھی عزت وشرف کا مقام عطا کیا اور فرمایا : جس شخص کے پاس باندی ہو اور اسکی تعلیم وتربیت کا بہتر بدوبست کرے نیز اسے تہذیب وشائستگی اور فنون وآداب کے زیور سے آراستہ کرے تو اسکو دوہرا اجر وثواب ملے گا - حضور اکرم (صلیﷲ علیہ وسلم) نے عورتوں کو عزت واحترام کے عظیم مرتبہ پر فائز کیا اور اتنا بلند مقام بخشا جس کی مثال دنیا کے کسی مذہب یا قوم میں نہیں ملتی خواہ عورت بیٹی کی شکل میں ہو یا بیوی یا ماں کی شکل میں - اسلام سے قبل بیٹیوں کو ایک بڑا بوجھ سمجھا جاتا تھا وہ خاندان میں ہر شفقت ومحبت سے محروم تھیں - ان کے حقوق کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا - ان خوفناک حالات میں جس نے سب سے پہلے ان کے حقوق کا نعرہ بلند کیا اور زمانے کے لوگوں کا ذہن وفکر بدل ڈالا وہ آمنہ کے لال محمد رسولﷲ (صلیﷲ علیہ وسلم) کی ذات گرامی ہے جنہوں نے باپ کو بتایا کہ بیٹی کا وجود تیرے لئے ننگ وعار نہیں ہے بلکہ اس کی پرورش، تعلیم وتربیت اور حق رسانی تجھے جنت الفردوس کا مستحق بناتی ہے -

آپ (صلیﷲ علیہ وسلم) نے بیٹیوں کے ساتھ امتیازی سلوک سے منع فرمایا اور ان کے حقوق سے غفلت وچشم پوشی پر سخت وعید سنائی اور جو ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوشاں رہے ہیں انہیں بڑی بڑی خوشخبری سے نوازا - چنانچہ انہوں نے فرمایا : جس شخص کے یہاں بیٹی پیدا ہو اور وہ اسے تکلیف نہ دے، نہ اسکی توہین کرے اور نہ بیٹوں کو اس پر فوقیت دے تو ﷲ تعالیٰ اس کی وجہ سے اسے جنت میں داخل کرے گا - دوسرے مقام پر فرمایا : جس شخص کی تین بیٹیاں ہوں وہ ان کی پرورش کرے اور کفالت کا فریضہ انجام دے تو اس کے لئے جنت واجب ہے - کسی نے عرض کیا یا رسولﷲ ! کسی کی دو بیٹیاں ہوں ؟ آپ (صلیﷲ علیہ وسلم) فرمایا : دو بیٹی والوں کے لئے بھی یہی بشارت ہے پھر کسی نے  کہا یارسولﷲ ! اگر ایک ہی بیٹی ہو ؟ آپ نے فرمایا : ایک بیٹی والے کے لئے بھی یہی بشارت ہے -

اور حضور نبی رحمت (صلیﷲ علیہ وسلم) نے فرمایا : کہ جس کے پاس بیٹیاں ہوں اور وہ اچھی طرح ان کی پرورش وکفالت کرے تو یہی بیٹیاں ان کے لئے جہنم کی ڈھال بن جائیں گی حضور (صلیﷲ علیہ وسلم) کا بیٹیوں پر اس سے بڑھ کر احسان وکرم اور کیا ہوگا کہ جو زمانے میں مصیبت وبلا سمجھی جاتی تھیں انہیں آخرت کی نجات کا ذریعہ بنادیا - بات یہیں ختم نہیں جاتی بلکہ بیٹیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والے کو جنت میں اپنی رفاقت ودوستی کا حقدار قرار دیا - چنانچہ حدیث شریف میں ہے جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ جوان ہو جائیں تو قیامت کے دن میں اور وہ اس طرح آئیں گے جیسے میرے ہاتھ کی دو انگلیاں ساتھ ساتھ ہیں -

حضرت عائشہ صدیقہ (رضیﷲ عنہا) نے بیان فرمایا : کہ ایک مرتبہ ایک عورت میرے پاس آئی دو بچیاں اس کے ساتھ تھیں - اس نے مجھ سے سوال کیا - میرے پاس اس وقت صرف ایک کھجور تھی - میں نے وہی دیدی - اس نے کھجور کے دو ٹکڑے کئے اور دونوں بچیوں کو دے دیے، خود منھ میں کچھ نہ رکھی - حضور اکرم (صلیﷲ علیہ وسلم) تشریف لائے تو میں نے انہیں یہ واقعہ سنایا - آپ نے فرمایا ! ان بچیوں کی وجہ سے جو شخص تکلیف میں مبتلا ہو پھر بھی ان سے حسن سلوک کرے وہ بچیاں اس کے اور دوزخ کے درمیان دیوار بن جائیں گی - (بخاری و مسلم) - 

حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ نبی (صلیﷲ علیہ وسلم) نے فرمایا : جس کے پاس بیٹی ہو اور وہ اسے نہ زندہ در گور کرے اور نہ اسے حقیر سمجھے اور نہ اس پر بیٹوں کو ترجیح وفوقیت دے تو خدا اسے جنت میں داخل فرمائے گا - (ابوداؤد) -

حضرت سراقہ بن مالک سے روایت ہے کہ حضور نے فرمایا کہ : میں تم کو یہ نہ بتادوں کہ افضل صدقہ کیا ہے ؟ اس بیٹی پر صدقہ کرنا ہے جو تمہاری طرف مطلقہ یا بیوہ ہونے کے سبب واپس لوٹ آئی اور تمہارے سوا کوئی ان کا نہ ہو - (ابن ماجہ) -

مذکورہ بالا حدیث میں محسن انسانیت (صلیﷲ علیہ وسلم)  نے ان بیٹیوں کے حقوق کے بارے میں بتایا ہے جو آفات زمانہ یا کسی خاندانی مصیبت کے سبب شادی کے بعد والدین کے گھر لوٹتی ہیں اگرچہ ان کے سبب بوجھ میں اضافہ ہوتا ہے اور اقتصادی بہبودی کی کوئی امید بھی باقی نہیں پھر بھی ان سے شفقت ومحبت لازم ہے اور ان پر جو کچھ خرچ کیا جائے اور پرورش میں جو صرف کیا جائے سب کے سب افضل ترین صدقہ ہیں.

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter