اس دور میں جینا ہے تو کہرام مچا دو

جیسے ہی کسی بھی ریاست میں الیکشن کی مہم شروع ہوتی ہے تو ہمارے بی جے پی لیڈران اپنے خرافاتی وشاطرانہ دماغ سے ہندوستانی پر امن فضا میں فرقہ واریت کا زہر گھولنے لگتے ہیں۔ اسی کی ایک کڑی کہیے کہ ریاست کرناٹک میں دو تین مہینے کے بعد اسمبلی انتخابات ہونے جارہے ہیں تو ہمارے ایم پی اور بی جے پی کے ریاستی صدر نلین کمار کٹیل نے ریاست بھر کو فرقہ پرستی کی آگ میں جھونک کر بھسم کرنا چاہتے ہیں۔اسی وجہ سے انہوں نے پتور میں ٹیپو سلطان کے حامیوں کو بر سر عام قتل کرنے بات کرتے ہوئے ہندوؤں کے سوئے ہوئے جذبات کو برانگیختہ کیا اور اشتعال انگیز تقریر کرکے ان کے اندر کے ہندوتوا عفریت کو جگایا۔ اگر یہی تقریر کوئی مسلمان نیتا کرتا تو فوراً اس کے خلاف فرقہ واریت وتشدد کے نام پر پرچی کٹ جاتی اور اسے عدالت کے چکر کاٹنے پڑتے۔ٹیپو سلطان ریاست کرناٹک کے ایک انصاف پسند حکمران ہونے کے ساتھ ساتھ وہ مذہبی رواداری کے عظیم علمبردار تھے۔ان کے عہد حکومت میں قومی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کو فروغ دیا گیا تھا اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ان کے فوج کے اعلی افسران اکثر وبیشتر ہندو تھے اور ریاست کے کئی علاقوں میں انہوں نے غیر مسلمانوں کو انکی عبادت گاہیں بنوا کر دیں اور امن وامان قائم فرمایا۔

اس سے بڑا اور کیا المیہ ہوسکتا ہے کہ اسی انصاف پسند حکمران کو لیکر ریاست بھر میں آئے دن فرقہ وارانہ کشیدگی جاری وساری ہے۔ یہ کشیدگی و تنازع پہلی مرتبہ نہیں بلکہ اس پہلے بھی جب ریاست کرناٹک کے سابق وزیر اعلیٰ سدھارامیا نے سن 2015 میں اپنے دور حکومت میں 10 نومبر کو رسمی و حکومتی طور پر ٹیپو سلطان کے یوم پیدائش کو ٹیپو جینتی کے نام سے منانے کا اعلان کیا تو شدت پسند ودہشت گرد ہندو تنظیموں نے سخت مخالفت کی تھی ریاست بھر احتجاجی نعرے بلند کئے گئے تھے لیکن سدھارامیا نے اپنی بلند ہمتی وجوانمردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑے جوش و خروش اور تمام تر سرکاری اعزاز واکرام کے ساتھ ٹیپو جینتی کا جشن منایا تھا ۔اور جیسے ہی 2019 میں بی جے پی بر سر اقتدار ہوئی تو بی جے پی کے وزیر اعلیٰ یڈیورپا نے ٹیپو جینتی کے تمام سرکاری تقریبات کو منسوخ کردیا ستم بالائے ستم یہ کہ اسی سال دسویں جماعت کی کنڑا زبان کی نصابی کتاب سے ٹیپو سلطان سے متعلق مکمل باب کو حذف کردیا گیا اور سلطان کو ایک ظالم وباغی اور خونخوار بادشاہ کے طور پر پیش کیا گیا۔آج بھی شدت پسند ہندو تنظیمیں سلطان کو ایک ظالم اور ہزاروں ہندوؤں کا قاتل اور زبردستی مذہب تبدیل کروانے والا حکمران باور کراتی ہیں۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ سلطان وہ عظیم مرد قلندر ہے جس نے ریاست بھر اخوت و بھائی چارگی کا علم بلند کیا اور سلطان کی رعایا پروری اور مذہبی رواداری کی مثالیں آج بھی پیش کی جاتی ہیں۔

سلطان کے نام پر ایک تنازع  اسوقت  سامنے آیا جب اپوزیشن کانگریس کے رکن اسمبلی عالی جناب تنویر سیٹھ نے شیر میسور کا 100 فٹ بلند مجسمہ سلطنت خداداد کی دارالحکومت سرنگاپٹم میں نصب کرنے کا اعلان کیا۔ اس اعلان کا بہت لوگوں نے خیر مقدم بھی کیا جن میں بی جے پی کے رکن اسمبلی اے ایچ وشوناتھ قابل ذکر ہیں جنہوں نے پریس کانفرنس کے نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے یہاں تک کہا تھا کہ ٹیپو سلطان کنڑ دھرتی کے لئے قابلِ فخر سپوت ہیں۔ اور مزید کہا کہ یہی وہ عظیم مجاہد آزادی ومحب وطن ہیں جس سے پورا انگلستان ڈرتا تھا۔ جب سلطان شہید ہوئے تو انگریزوں نے فتح عظیم کا جشن منایا اور کہا کہ ''آج سے ہندوستان ہمارا ہے ''
اس وقت شدت پسند ہندو تنظیموں نے اس اعلان کا برملا مخالفت کرتے ہوئے بعض دہی علاقوں میں تنویر سیٹھ کے پتلے کو نذر آتش کیا تھا۔ اشتعال انگیز بیان بازیاں بھی خوب ہوئیں۔ پتہ نہیں ان کے ذہنوں میں کیا خناس بھرا ہوا ہے۔ اب اک نیا ایشو ابھر کر سامنے آیا ہوا ہے کہ ضلع یادگیر میں ایک چوراہے کا نام ٹیپو سلطان سرکل رکھنے کی تجویز پیش کی گئی تو فورا ہندو تنظیمیں علم احتجاج بلند کرتے ہوئے فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنے کی کوشش میں لگ گئے۔ ہندوتوا کو فروغ دینے والی تنظیم جئے چھتر پتی شیواجی سینا نے اس تجویز کی خوب مذمت کرتے ہوئے اس کو ناجائز قرار دیا۔

اس وقت بھی جب ٹیپو سلطان کے مجسمہ کی نصب کرنے کی جب بات ہورہی تھی تو سری رام سینا کے سربراہ پرمود متالک نے کہا تھا اگر ٹیپو کا مجسمہ نصب کیا گیا تو میں ہی اس کو منہدم کردونگا۔ اس خباثت بھری ذہنیت کا جواب نہیں۔ اگر یہی باتیں کسی ہندو حکمران کے خلاف کوئی کرتا تو فورا حکومت اس کے خلاف سخت نوٹس لیتی اور قانونی کاروائی کی جاتی اور اسے سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا جاتا۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ جمہوریت کا بڑے دھوم دھام سے جنازہ نکالا جا رہا اور سیکولر کا تانا بانا ادھیڑ دیا جارہا اور اربابِ حکومت پر چپی طاری ہے۔

ایک سرکل کا نام ٹیپو سلطان کے نام سے موسوم کرنے پر اتنا بڑا احتجاج اور بیان بازیوں کے ساتھ ساتھ دھمکیاں بھی۔ معترضین میں ہندوتوا تنظیموں کے لیڈران و کارکنان شامل ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ اس کا نام بدل کر ساورکر سرکل رکھا جائے۔ انھوں نے ایسا نہ ہونے پر احتجاج کرنے کی دھمکی  بھی دی ہے جس کے بعد علاقے میں کشیدگی والے حالات پیدا ہو گئے ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق دو فرقوں میں کشیدگی جیسے حالات پیدا ہوتے دیکھ کر ایڈیشنل کمشنر شالوم حسین نے پورے ضلع میں دفعہ 144 نافذ کر دی ہے۔
ایک طرف مسلم حکمران کا امیج وشبیہ بگاڑا جارہا ہے اور غیر معتبر ومن گھڑت افسانے سنائے جارہے اور حالات کو بگاڑنے کی کوششیں جاری ہیں۔ ان سب کے ساتھ ساتھ مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرنے کی سازشیں رچی جا رہی ہیں اور ہم ہیں کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے خاموش منتظر فردا بیٹھے ہوئے ہیں۔ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ تیغ وتلوار لیکر احتجاج کرو نہ اسلام ہمیں اس بات کی اجازت دیتا ہے جیسے کہ علامہ اقبال نے کہا 


مذہب نہیں سِکھاتا آپس میں بَیر رکھنا
ہندی ہیں ہم، وطن ہے ہندوستاں ہمارا

۔ بلکہ  تم اپنا حق حاصل کرنے کی جدوجہد کرو اور قانونی جارہ جوئی سے  انصاف حاصل کرنے کی کوشش تو کرو اور ہاتھ میں قلم و قرطاس لیکر اپنے وجود کا احساس تو دلاؤ ورنہ شاعر نے جو کہا تھا وہی ہوگیا 

یہ خاموش مزاجی تمہے جینے نہیں دے گی
اس دور میں جینا ہے تو کہرام مچا دو

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter