سرکاری دستاویزات اور مسلم قوم کی غفلت
بچے ماں باپ کے لیے عظیم نعمت ہیں۔ بچے کی پیدائش کے ساتھ والدین پر ان کی صحیح پرورش وپرداخت کی ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے۔ سماج میں زندگی گزارنے کے لیے بچے کو بہت ساری چیزوں کی ضرورت پیش آتی ہیں۔ ان میں سب سے اہم اس کی سرکاری شناخت سے جڑے ہوئے سرکاری کاغذات جیسے ہم دستاویزات بھی کہتے ہیں۔ ہر بچے کو سوسائٹی میں زندگی گزارتے وقت دو اہم شناخت حاصل ہوتی ہیں۔ ایک معاشرتی شناخت دوسری سرکاری شناخت۔معاشرتی شناخت اسے پیدا ہوتے ہی معاشرے سے مل جاتی ہے۔ اس معاشرتی شناخت کی حصول یابی میں پریوار اور خاندان کا بڑا دخل رہتا ہے۔ اگر خاندان شریف ہے تو اس کی شناخت شرافت ونجابت سے ہوتی ہے۔ اگر اس کے بر عکس خاندان اگر اخلاقی قدروں میں گرا ہوا ہو تو اس کی شناخت بھی ذلت و رسوائی سے ہوگی۔ اس روایتی و خاندانی داغ کو دھلنے میں لوگوں کی زندگیاں ختم ہو جاتی ہیں۔ یہ الگ ہی مسئلہ ہے جو آج ہمارے اس بزم کا موضوع سخن نہیں۔ پھر کبھی موقع میسر آئیں تو اس پر سیر حاصل معروضات پیش کرینگے۔ بر سر مطلب آمدم ہم کہہ رہے تھے سرکاری شناخت کی جو کافی اہمیت کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ ناگزیر بھی ہے اس کے بغیر کسی کی زندگی سنورتی بھی نہیں اور نہ نکھر کر ابھرتی ہے۔ اس لیے کہ سرکاری دستاویزات کے بغیر کوئی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اسکول سے لیکر یونیورسٹی تک سرکاری شناختی دستاویزات لگتے ہیں۔ آج اس کی بڑی اہمیت ہے۔
اگر ابتدائی دستاویز کی بات کریں تو برتھ سرٹیفکیٹ جیسے ہم اردو میں سند پیدائش ہندی میں جنم پتر کہتے ہیں اس کوکافی اہمیت حاصل ہے۔ برتھ سرٹیفکیٹ کی اگر ضرورت پر ہم روشنی ڈالے تو یہ مضمون کافی طویل ہو جائے گا۔اب ذرا جنم پتر کی ضرورت بھی سن لیجئے کہاں کہاں اس کی ضرورت پیش آتی ہے۔تعلیمی اداروں میں داخلے سے لے کر آدھار کارڈ بنانے تک ہر چیز کی بنیاد اب برتھ سرٹیفکیٹ بننے جا رہی ہے۔ مرکزی حکومت تمام قسم کے مقاصد کے لیے پیدائش کے سرٹیفکیٹ کو ایک دستاویز کے طور پر تسلیم کرے گی۔برتھ سرٹیفکیٹ کو اب تمام قسم کے کاموں کے لیے واحد تصدیقی دستاویز کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، بشمول اسکولوں اور کالجوں میں داخلہ، ڈرائیونگ لائسنس، آدھار کارڈ ، ووٹر کارڈ کے لیے درخواست، شادی کا رجسٹریشن۔ نیا ترمیم شدہ قانون یکم اکتوبر 2023 سے نافذ العمل ہوگا۔یہ نیا اپڈیٹ معلومات کے مطابق ہم نے بتایا ہے۔ چند دن پہلے اخبارات میں اس نئے ایکٹ کو لیکر گرما گرم بحثیں جاری تھیں۔ روزنامہ قومی تنظیم پٹنہ میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق پارلیمنٹ نے گزشتہ مانسون اجلاس میں پیدائش اور موت کے اندراج (ترمیمی) ایکٹ 2023 کو پاس کیا تھا۔رجسٹریشن آف برتھ اینڈ ڈیتھ (ترمیمی) ایکٹ2023 کی دفعہ 1 ذیلی دفعہ (2) کے ذریعے حاصل اختیارات کے استعمال میں، مرکزی حکومت یکم اکتوبر 2023 سے اسے نافذ کر رہی ہے،‘مرکزی وزارت داخلہ نے ایک بیان جاری کیا ہے۔رجسٹریشن آف برتھ اینڈ ڈیتھ (ترمیمی) ایکٹ 2023 ایکٹ کے نافذ ہونے کی تاریخ کو یا اس کے بعد پیدائش کے سرٹیفکیٹ کو تاریخ اور جائے پیدائش ثابت کرنے کے لیے ایک دستاویز کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
یہ ایک سرکاری دستاویز برتھ سرٹیفکیٹ کی بات ہے۔ ایسے ہی ہر سرکاری دستاویزات کی اس کی اپنی خاص اہمیت ہے۔ عموماً انگریزی میں ایک مقولہ مشہور ہے کہ۔ No documents No history اگر دستاویزات نہ ہوں تو انسان کی تاریخ بھی نہ ہوگی۔ اس مقولے کے معنوی حساب سے کئی سارے پہلو ہیں۔اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں ہم صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ دستاویز کو بڑی قدر ومنزلت کی نگاہوں سے دیکھیں اور اس کو حاصل کریں۔ بنواتے وقت بڑی سنجیدگی اور متانت کے ساتھ شعور و آگہی سے کام لیں۔ اس لیے کے اگر سرکاری دستاویز میں ایک بھی غلطی ہوگئی تو پھر اسے صحیح کرنے کے لیے بہت پاپڈ بیلنے پڑیں گے۔
فقیر کولاری بحمداللہ تعالیٰ پندرہ سال سے تدریس سے جڑا ہوا ہے۔ اس مدت میں میں نے کئی سارے لوگوں کو اس مسئلہ کو لیکر پریشان ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ کبھی سرکاری دستاویزات میں غلطیوں کی وجہ سے بچے کی اسکولی تعلیم میں کافی روکاوٹیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ ہم میں سے اکثر وبیشتر لوگوں کو سرکاری کاغذات کہاں سے بنوائے جاتے ہیں وہ تک معلوم نہیں۔ اگر معلوم کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں تو کباب میں ہڈی کی طرح دلال حضرات ادھر وادھر کی باتیں سناکر ڈرا دیتے ہیں پھر کیا ہم دلالوں کو پیسہ دیکر سرکاری کاغذات حاصل کر لیتے ہیں۔ یہ دلال حضرات جیسے چاہیں الٹا سیدھا بناکر ہمارے ہاتھ تھما دیتے ہیں۔ ہمیں یہ تک معلوم نہیں رہتا کہ یہ اصلی ہے یا نقلی۔ پھر جب اس سرکاری دستاویز کو لیکر ضرورت کی جگہ لے جاتے ہیں تو پتہ چلتا ہے یہ اصلی ہے یا نقلی۔ یہ تو بنانے کی بات تھی اب رہی غلطیوں کی تو پوچھئے مت مسلمانوں کے سرکاری کاغذات میں اتنی ساری غلطیاں رہتی ہیں کہ ایک ایک غلطی صحیح کرنے میں کافی وقت اور پیسہ بھی خرچ ہوتا ہے۔ مثلاً ایک بچے کا نام برتھ سرٹیفکیٹ میں صدیق شیخ رہتا ہے تو اسی بچے کا نام آدھار کارڈ میں شیخ صدیق رہتا ہے۔ کبھی دوسرے دستاویز میں بچے کے نام کے ساتھ اس کے والد کا نام رہتا ہے۔ مثلاً رفیق احمد عبد القادر تو دوسرے سرکاری کاغذ میں صرف بچے نام رفیق احمد رہتا ہے۔ کبھی نام کے آگے سرنام رہتا مثلاً انصاری، پٹیل وغیرہ وغیرہ کبھی یہ سرنام پیچھے رہتا ہے۔
مسلمانوں کو اس بارے میں معلوم ہی نہیں رہتا جب ان کا بچہ پڑھنے کہیں کالج یا یونیورسٹی داخلہ لیتا ہے تو اس وقت ان کی آنکھ کھلتی ہے۔ پھر کیا ان تمام کاغذات کو صحیح ودرست کرنے کے لیے سرکاری افسروں اور دفتروں کا چکر کاٹتے رہتے ہیں۔اس لئے جملہ مسلمانوں سے ہماری مخلصانہ اپیل ہے کہ اپنے بچوں کے تمام سرکاری کاغذات اور دستاویزات درست بنانے کی کوشش کریں۔ نام لکھتے وقت خود لکھ کر دیں کس طرح نام لکھنا ہے۔ بالخصوص انگریزی میں نام لکھتے وقت اسپیلنگ لکھ کر دیں۔ ورنہ سرکاری افسران مسلمانوں کے نام لکھتے وقت کافی فاش غلطیاں کرتے ہیں۔ جیسے محمد لکھتے وقت بعض mohammad بعضmohhamed بعض Muhammed بعض MD لکھ دیتے ہیں۔ پھر یہی غلطی بار بار دہرائی جاتی ہے۔ ایک ایک غلطیاں درست کرنے کے لیے الگ الگ کاغذات درکار ہیں۔ اس لیے ان تمام پریشانیوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کا ایک ہی طریقہ یہ ہے کہ شروع ہی میں بڑی ذمہ داری اورچوکسی کے ساتھ بنوائیں تاکہ آگے پریشانی اٹھانی نہ پڑیں۔
مسلم قوم کے رہنماؤں کی مذہبی اور ملی فریضہ ہے کہ ہر محلے کی مسجد میں سرکاری دستاویزات کے بارے بیداری مہم چلائے جائیں اور بنانے کا طریقہ بتلایا جائیں۔ اگر غلطیاں ہوتو کس طریقے سے اسے درست کیا جاتا ہے ۔ اس کے لئے کیا کیا ضروری ہیں ان تمام باتوں کی مکمل معلومات فراہم کی جائیں تاکہ انہیں کہیں بھی پریشانی کا سامنا کرنا نہ پڑیں۔ ابھی الیکشن بھی آنے والے اس سے پہلے ووٹر لسٹ میں کس طرح اپنے نام کا اندراج کراتے ہیں اس بارے میں بھی بیداری مہم چلانا بے حد ضروری ہے۔ کتنے ایسے مسلمان ہیں جن کو اپنے ووٹ تک کے بارے میں معلوم نہیں۔ اگر انکے پاس الیکشن آئی ڈی رہتے ہوئے بھی وہ انتخابات کے وقت ووٹ ڈالنے کا حق نہیں رکھتے وجہ صرف یہ کہ ان کا نام ووٹر لسٹ میں نہیں رہتا اس لئے ضروری ہے کہ ووٹر لسٹ میں نام کے اندراج کا طریقہ کار بھی بتایا جائیں تاکہ مسلمان الیکشن کا بھرپور فائدہ حاصل کرسکیں۔اس چھوٹے مضمون میں ہم نے سرکاری دستاویزات کی اہمیت پر اس لئے روشنی ڈالے تاکہ آئندہ کسی مسلمان کو اس طرح کی پریشانیاں اٹھانی نہ پڑیں۔ افادۂ عام کے خاطر اس مضمون میں پیش کئے گئے معروضات کو دوسروں تک پہنچا کر ثواب دارین حاصل کریں۔ اللہ تبارک وتعالی ہمیں مکمل شعور و آگہی کے ساتھ زندگی گزارنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے آمین