بی بی سی کی دستاویزی فلم : پانچ ضروری باتیں
جرمنی میں نازیوں کی حکومت کے دوران ان کا ماننا تھا کہ "Repat a lie often enough and it becomes the truth"کہ ایک جھوٹ کو تب تک دہراتے رہو جب تک یہ سچ نہ بن جائے۔ یہ بات اگرچہ سچ ہے اور تاریخ میں ایسی درجنوں مثالیں ہیں جن میں جھوٹ کے سہارے سچ کو دبانے،چھپانے اور مٹانے کی کوشش کسی حد تک کامیاب تو ہوئی لیکن ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب یہی سچ ان جھوٹوں کے گلے کا ناسور بن جاتا ہے۔ سچ اگرچہ کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو، اس میں اتنا دم خم تو ہوتا ہی ہے کہ ہٹلر جیسے تاناشاہ کو خودکشی کرنے پر مجبور کر سکے۔
بی بی سی کی دستاویزی فلم نے بالخصوص بھارت اور دنیا بھر کے لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے ملک میں عدالتیں تو ہیں لیکن کیا انصاف بھی ہے؟ ۲۰۰۲/کو گزرے ہوئے بیس سال ہو گئے لیکن اب بی بی سی کو ایسی کیا ضرورت آپڑی جب اس دستاویزی فلم کو منظر ِعام پر لانا اتنا ضروری ہو گیا؟ بہر حال، اس فلم کے منظر ِ عام پر آتے ہی پہلے تو بی جے پی نے اسے محض ”پروپگینڈا پھیلانے والی فلم“کہہ کر نظر انداز کیا۔ پھر سپریم کورٹ کا حوالہ دے کر اسے یوٹوب اور دیگر آن لائن ویب سائٹ سے ہٹوایا۔ پھر جامعہ ملیہ،جے این یو اور اس جیسی یونیورسٹیوں پر پابندی لگائی، بجلی اور انٹرنیٹ کی خدمات معطل کی تا کہ گجرات فسادات میں مودی کے کارناموں کی خبر نہ ہو۔ نوبت یہاں تک آ چکی ہے کہ پولیس دفعہ 144نافذ کرنے سے پہلے بھی نہیں سوچتی۔ مقصد صرف یہ ہے کہ اس فلم میں کچھ باتیں ایسی ہیں جو مودی ”جی“ کے خلاف ہیں اور عام لوگوں تک اس بات کو پہنچنے سے ہر قیمت پر روکا جائے تاکہ ”سپریم لیڈر“ کے بارے میں کوئی غلط خیال لوگوں کے دلوں میں نہ پیدا ہو۔ اب بی بی سی کے دفتروں کا سروے کیا جا رہا ہے۔ واضح لفظوں میں چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ لیکن آنکھیں بند کر لینے سے رات تو نہیں ہو جاتی؟ دنیا دیکھ رہی اور ہماری حکومت کی اوٹ پٹانگ حرکتوں کو سراہا جا رہا ہے۔
گجرات فسادات کا پس منظر:
۲۷ فروری کو سابرمتی ٹرین کے دو ڈبوں میں آگ لگ گئی،جس میں ۸۵ مسافروں کی جان گئی۔ یہ وہ مسافر تھے جو آیودھیا کی یاترا سے واپس لوٹ رہے تھے۔اس رات کے بعد اگلے سات دنوں تک گجرات کے مختلف حصوں میں یک طرفہ فسادات کا سلسلہ چلتا رہا۔ یک طرفہ اس لیے کہ شہید ہونے والے زیادہ تر مسلمان تھے اورحملہ ور ہندو تھے۔ پولیس اور حکومت نے پوری طرح خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔ اگر چہ پولیس ہر جگہ موجود ضرور تھی لیکن ان کا کام تھا صرف مسلمانوں کو روکنا یا نہتے مسلمانوں پر گولیاں چلانا۔ تین دن تک یہ سلسلہ چلتا رہا چوتھے دن پولیس کچھ حرکت میں آئی اور ایک ہفتہ بعد فسادات کا یہ سلسلہ رکا۔ اس دوران ایک ہزار مسلمان شہید ہوئے،کئی زخمی اور ایک لاکھ سے زیادہ بے گھر۔ گجرات فسادات کے بعد کچھ ایسے مناظر سامنے آئے جو انسانیت کو شرمسار کر دیتے ہیں۔ جہاں حاملہ عورتوں کے پیٹ چیرے گئے، کہیں معصوم بچیوں کے ساتھ زبردستی کر کے ان کے جسم پر چھری سے ”اوم“ کا ”مقدس“ نشان بنا کر اپنی حیوانیت کا ثبوت دیا گیا۔ گھر،دکانوں اور گاڑیوں میں آگ لگائی گئی۔ اور یہ سب کچھ ہوا دھرم کے ٹھیکے داروں کی نگرانی میں۔
بی بی سی کی دستاویزی فلم میں ایسی پانچ باتیں قابل ِ غور ہیں جو ہمیں نہ صرف مسلمان بلکہ انسان اور انسانیت سے محبت کرنے والے کی حیثیت سے بھی جاننا ضروری ہیں۔
۱ فسادات کے پیچھے ”بلا واسطہ“ مودی ہی ذمہ دار ہیں۔:
فسادات کے فورا بعد برطانوی وزیر خارجہ جیک اسٹرو نے جانچ کا حکم دیا اور ایک رپورٹ بنوائی جسے اب تک شائع نہیں کیا گیا ہے۔ بی بی سی کے مطابق اس رپورٹ میں صاف لکھا گیا ہے کہ اگر مودی ”بلا واسطہ“ ریاست میں فسادیوں کی پشت پناہی نہیں کررہے ہوتے تو وہ سب کچھ نہیں ہوتا جو ہوا۔ مودی نے گودھرا کا ملزم مسلمانوں کو ٹہرایا اور ہندو وادی تنظیموں کو اس کا انتقام لینے کے لیے پوری چھوٹ دینے کا یقین دلایا۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ”فساد اس سے کافی بڑا تھا جتنا بتایا جا رہا تھا۔ اس کا مقصد مسلم علاقوں سے پوری طرح مسلمانوں کا وجود ختم کرنا تھا۔ اسی لیے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی پوری تیاری بہت پہلے ہی ہو چکی تھی۔
مکمل تیاری کے ساتھ مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی، جس میں مسلم عورتوں کے ساتھ زبردستی کرنااور انہیں قتل کرنا بھی شامل ہے۔“ رپورٹ کے مطابق ”فساد کا مقصد مذہبی درندگی تو تھا ہی لیکن بی جے پی کے لیے یہ پوری طرح سیاسی پروپگینڈا تھا،اسی لیے بلا شبہ اس فساد کا حکم خود مودی نے دیا تھا۔“
اگر بی بی سی کی یہ سبھی باتیں سچ ہیں اور تمام تر فسادات بی جے پی کی سوچی سمجھی سازش تھی تو یہ بات کتنی بعید از قیاس ہے کہ گودھرا میں سابرمتی ایکسپرس میں آگ لگانا بھی مودی کی سازش میں شامل نہیں تھی؟ اگر مودی خود ۸۵ ہندوؤں کو زندہ جلا سکتا ہے تو ہندؤوں اور ہندو مذہب کے لیے ان کے دل میں کتنی ہمدردی ہو گی؟
۲ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی ایک سوچی سمجھی سازش:
دستاویزی فلم میں ایک برطانوی سفیر کا بیان موجود ہے جس کا نام اور شخصیت اب تک منظر ِ عام پر نہیں آئی ہے۔ فساد کے بعد سے اب تک برطانوی حکومت نے بھی اسے گمنام ہی رکھا ہے۔ اس سفیر نے اپنی خصوصی جانچ کا خلاصہ کرتے ہوئے یہ دعوی کیا ہے کہ ”دو ہزار لوگ جو اس دن شہید ہوئے ان میں زیادہ تر مسلمان تھے، بغیر حکومت کی اجازت اور مدد کہ ایسا بالکل ممکن نہیں تھا۔“ وشو ہندو پریشد،آر ایس ایس کا ایک اور کٹر واد گروہ پہلے علاقے میں پوری کامیابی سے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلاتا ہے، انہیں ملک اور ہندوتوا کے لیے خطرہ بتاتا ہے اور پھر ریاست میں یک طرفہ قتل ِ عام میں حکومت کی فرمائشوں پر کھرا اترتا ہے۔
یہ حال ابھی بھی ملک بھر میں برپا ہے۔ میڈیا ہمیں روز یہ سکھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ اس ملک میں جاہل، لالچی اور احمقوں کا بول بالا ہونا کتنا ضروری ہے۔
۳۔ پولیس کی خاموشی اور غیر جانبداری:
رپورٹ کے مطابق کئی جگہوں پر پولیس موجود تو تھی لیکن انہیں کسی بھی طرح لوگوں کو روکتے ہوئے یا ملزموں کو گرفتار کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ ایک موقع پ بی بی سی کی ایک صحافیہ آس پاس کے فسادات کے منظر دکھا رہی ہیں اور کچھ پولیس والے وہیں کھڑے ہو کر دیکھ رہے ہیں۔ جب صحافیہ ان کے پاس آتی ہیں اور ان سے لوگوں کو بچانے کے لیے کہتی ہیں تو سارے اہلکاری خاموشی سے یہاں وہاں ہٹ جاتے ہیں اور کوئی رد ِ عمل نہیں کرتے۔ رپورٹ کے مطابق انہیں کچھ بھروسے مند فارغ ِ خدمت پولیس والوں نے بتایا ہے کہ انہیں کسی بھی طرح کی دخل اندازی کی اجازت نہیں تھی۔
یوروپی یونین کی ۲۰۱۲ کی ایک رپورٹ کے مطابق ”کچھ منسٹر خود فسادات میں شامل تھے اور اسی لیے یہ سب کچھ شروع ہونے سے قبل ایک میٹنگ رکھی گئی جس میں پولیس کو سختی سے دخل اندازی کرنے سے منع کیا گیا۔“ جن فارغ شدہ افسران نے اس میٹنگ کی گواہی عدالت میں دی تھی انہیں فی الحال کسی نہ کسی کیس میں ملزم ٹھہرا کر جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ اسے سچ بولنے کا انعام سمجھئے، یہی تو نیا بھارت ہے جہاں آپ ملزم اس لیے نہیں ہو کیوں کہ آپ نے چوری کی یا کسی کا قتل کیاہے،بلکہ آپ مجرم اس لیے ہو کیونکہ آپ کے نام میں خان،محمد یا اسلام ہے۔
۴۔ مودی کا یہ دعوہ کرنا کہ انہوں نے ”میڈیا کو ٹھیک سے نہیں سنبھالا“۔:
دستاویزی فلم میں فسادات کے بعد کا ایک انٹرویو دکھایا گیاہے جس میں بی بی سی کی ایک صحافیہ نریندر مودی سے پوچھتی ہیں کہ”دو ہزار سے زائد لوگ اس فساد میں مر چکے ہیں کیا آپ کو نہیں لگتا کہ آپ کچھ چیزوں پر قابو رکھنے میں ناکام ہوئے ہیں؟“ اس سوال پر مودی بر جستہ یہ کہتے ہیں کہ ”میڈیا صرف ایک چیز ہے جسے وہ اپنے قابو میں رکھنے سے ناکام رہے۔“ کیا اس بات کا یہ مطلب ہے کہ اگر مودی نے مکمل طور پرپولیس کی طرح میڈیا کو بھی اپنے قبضے میں رکھاہوتا تو یہ بات بھی شاید کسی کو پتہ نہیں چلتی کہ گجرات میں کیا کچھ گل کھلائے جا رہے ہیں۔
۲۰۱۴ میں حکومت سنبھالتے ہی مودی سرکار نے شاید اسی لیے اپنی اس غلطی کو پوری طرح سے سدھار لیا۔اب ہمارا میڈیا اپنے مالکوں سے وفاداری کی ساری حدیں پار کر رہا ہے۔
۵۔ مودی کے شہرت پر ایک دب نما داغ:
گجرات فسادات کے بعد برطانیہ نے مودی پر ۲۰۰۵ کے دوران برطانیہ سفر کرنے پر پابندی لگا دی۔ اسی طرح امریکہ نے بھی مودی کا ویزہ رد کر دیا تھا تا کہ وہ دوبارہ اامریکہ میں قدم نہ رکھ سکیں۔ امریکہ ایسا ان بد نام ِ زمانہ شخصیات کے ساتھ کرتا ہے جو دہشت گردی اور قتل جیسی وارداتوں میں شامل ہوں یا اس کے ماسٹر مائنڈ ہوں۔ ۲۰۱۲ میں جب مودی کو عدالت سے ’با عزت‘ بری کیا گیا اور ان کے اوپر لگے سبھی الزام ہٹا لئے تو برطانیہ اور امریکہ نے بھی اپنی پابندی ختم کر دی۔ اس بات پر اینڈرو نے کہا کہ وہ بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن گجرات فسادات مودی کی شخصیت کے لیے ایک بد نما داغ ضرور ہے۔
دنیا کا یہی دستور رہا ہے۔ جس کے ہاتھوں میں طاقت اور پیسہ ہو دنیا اسی کے آگے سر جھکاتی ہے۔ پھر چاہے آپ نے کتنے ہی معصوموں کا خون بہایا ہو، فسادات کروائے ہوں یا قتل عام، لوگ آ پ کی اچھائیوں پر اندھے ہو کر یقین کرتے رہیں گے۔
جس وقت بی بی سی کی یہ دستاویزی فلم منظر عام پر آئی تھی اس وقت کچھ جانے مانے مسلم مفکرین حضرات اپنی تحریروں میں یہ شوشہ ثابت کرنے پر تلے تھے کہ گجرات فسادات کی وجہ سے مودی کو شہرت ملی اور وہ آنے والے دنوں میں وزیر اعظم بنے اگر ہم اس فلم کی تشہیر کریں گے تو اس سے صرف مودی کی ہی تشہیر ہو گی۔ آج بیس سالوں بعد جب کسی نے اس فسادات کی حقیقت کی کچھ جھلکیاں بتانے کی کوشش کی ہے تو کیا کسی مسلمان کو یہ بھی جاننا نہیں چاہیے کہ ہماری قوم کے ساتھ جو بہیمانہ جرائم ہوئے ہیں ان کا ذمہ دار کون تھا؟
ایک طرف تو یہ مفکر ٹھہرے دوسرے ہیں وہ علما جنہیں امت سے زیادہ اپنی دکانوں کی پرواہ ہے۔ اگر اہل ِ سنت اور تبلیغی جماعت کو ان کی شاندار تقریروں سے نکال دیں تو محض چند جملے ہی رہ جائیں گے۔ یہ بات صلح کلیت کی نہیں ہے، ضروری یہ ہے کہ دنیا جہان کے فتنے ہماری دہلیز پر دستک دے رہے ہیں اور ہم اب تک اسی بات میں الجھے ہوئے ہیں کہ ہم میں سے اصلی مسلمان کون ہے؟ یا کون سا فرقہ کس حد تک غلط ہے۔ اب کوئی نبی اور رسول نہیں آئیں گے، جو امت کو پھر سے ایک ڈگر پر لا کر کھڑے کرنے کا کارنامہ انجام دیں۔ اب یہ ہماری ہی ذمہ داری ہے کہ ہماری آنے والی نسلوں کو بہترین مستقبل جینے کا موقعہ دیں۔