قبروں سے پوچھ اصل زمیں دار کون ہے؟
ہندوستان جیسے وسیع و عریض ملک میں درجنوں مذاہب کے لوگ بستے ہیں اور ہر مذہب خود کو اس سر زمین کا شیدائی اور اصل حقدار و وفادار گردانتا ہے بلکہ علی الاعلان اس کا دعوی کرتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ یہاں بسنے والے کسی بھی مذہب کو اپنی وفاداری جتانے یا دکھانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی بلکہ ہر ایک کا عمل نہایت آسانی اور خاموشی سے اس کی وطن پرستی کے جذبے کو ظاہر کر دیتا تھا۔ لوگ اس سے بے نیاز کہ کون کتنا ان کی وطن پرستی کی داد دیتا ہے ملک کے تئیں تعمیری اور ترقیاتی کاموں میں نہایت خلوص اور جانفشانی سے لگے رہتے تھے۔ انہیں نہ کسی کی ستائش کی خواہش تھی نہ کسی انعام یا تمغے کی لالچ۔ سادہ دل اور خود ستائشی کی تمنا سے عاری ہندوستانیوں نے اپنے خلوص اور محنت و لگن کے دم پہ بالآخر ہندوستان کو سونے کی چڑیا بنا ڈالا اور پوری دنیا میں اس کی ایک پہچان قائم کی۔ اور ایسی پہچان قائم کی کہ برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک نے بھی اس کی طرف للچائی نظروں سے دیکھا اور اس کو ہتھیانے کے لیے سمندر پار کر آئے۔ یقینا ہندوستان کے لیے خود کو ”سونے کی چڑیا“ ثابت کر نے کے لیے اس سے بڑی دلیل نہیں مل سکتی اور بلا شبہ یہ ایک ایسی سچائی اور حقیقت ہے جس پہ ہندوستان کی دھرتی بجا طور سے فخر و ناز کر سکتی ہے۔
مگر یہ تب کی بات تھی۔ آج حالات کچھ اور ہیں بلکہ بالکل برعکس ہیں۔ آج ہندوستان بین الاقوامی سطح پر فخر نہیں شرم محسوس کر رہا ہے۔ کیوں کہ آج کے ترقی یافتہ ممالک کو اس میں کوئی خوبی نظر نہیں آتی اور وہ اپنے مقابل اسے نہایت کمزور اور بے وقعت تصور کرتے ہیں۔ بعض ملک تو ہمارے وزیر اعظم کی حسب توقع عزت اور خاطر داری بھی نہیں کرتے۔ وجہ یہی ہے کہ آج ہندوستان سے محبت کا دعوی کرنے والوں کی دعویداری فقط زبان تک محدود ہے، عمل سے اس کا کوئی علاقہ نہیں۔ مگر نہایت حیرت کی بات یہ ہے کہ یہی نام نہاد وطن پرست جن کے قول و عمل میں غایت درجہ تضاد ہے، دوسروں کی وطن دوستی اور خلوص کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان میں کیڑے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب ہمیں بتائیں کہ جو خود عمل سے خالی ہو اسے دوسروں کے نامہئ اعمال میں جھانکنے کا کیا جواز بنتا ہے؟
صاف بات کی جائے تویہاں کی کٹرواد ہندوتو جو باعتبار مذہب اکثریت میں ہے مگر ملک دوستی اور وطن پرستی کے معاملے میں یہاں کے مسلمانوں سے آدھی بھی نہیں، مسلمانوں سے فقط اس لیے بیر رکھتی ہے کہ ان کی نظر میں وہ ملک مخالف اور دیش دروہی ہیں۔ مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ مسلمانوں ہی کے دور حکومت میں ہندوستان سونے کی چڑیاکہلاتا تھا۔ اس عظیم کامیابی کے پیچھے یہاں کے مسلم شہنشاہوں کی برسوں کی محنت و ریاضت کارفرما ہے۔ مسلمانوں نے یہاں کے ذرے ذرے کو اپنے ہاتھوں سے سنوارا ہے۔ یہاں کی مٹی کی آبیاری کی ہے۔ یہاں کی گرد آلود اور حبس زدہ فضا کو شفاف اور خوشگوار بنایا ہے۔ بلکہ میں تو کہوں گا کہ مسلمانوں نے ہی ہندوستان کو ہندوستان بنایا ہے۔ پھر سوال یہ ہے کہ وہ اپنے ہی ہاتھوں سے تعمیر کردہ اس خوبصورت، مضبوط اور قابل فخر عمارت کو برباد کیوں کریں گے؟ بغض و عناد میں چور اور تاریخی حقائق سے جاہل ہندوتو اگر ذرا بھی عقل مندی اور دیانت سے کام لیتی تو ملک کے ناقابل فراموش ورثہ یعنی مسلمانوں کے تعلق سے کبھی اس قسم کی تنگ ذہنیت کی شکار نہیں ہوتی اور ان پہ ایسے سخت اور بے بنیاد الزام نہیں لگتے۔ مسلمانوں پہ طنز اور انہیں غدار قرار دینے سے پہلے ان نفرت کے پرچارکوں اور ملک دشمن عناصر کو اپنی آنکھوں پہ انصاف اور دیانتداری کا چشمہ لگا کر ان کے ملکی مفاد میں انجام دیئے گئے بیش قیمت کاموں کو اپنے بے بنیاد اور کھوکھلے دعوؤں کے ساتھ موازنہ کر لینا چاہئے۔
کینہ پروری اور ہٹ دھرمی کی حد تو اس وقت ہو گئی جب یہ لوگ خود دیش کو بنانے والے مسلمانوں سے دیش بھکتی کا ثبوت مانگنے لگے اور جس میں کامیاب نہ ہونے کی صورت میں ان کی شہریت منسوخ کر کے انہیں بے گھر اور ملک بدر کر نے کے خواب دیکھنے لگے۔ اقتدار کے نشے میں دھت زعفرانی حکومت کی اس گھناؤنی سوچ اور خوفناک سازش سے ملک کے کروڑوں مسلمانوں کی روح مجروح ہوئی اور وہ خود کو اپنے ہی ملک میں اجنبی اور مکمل طور سے غیر محفوظ محسوس کرنے لگے۔ مگر شکر ہے کہ ابھی ملک میں سیکولرزم اور جمہوریت باقی ہے، ملک بھر کے لوگوں نے جس میں اکثریت طبقے کا ایک بڑا حصہ بھی شامل تھا حکومت کی من مانی کی بنیاد پہ تخلیق شدہ متنازع این آر سی اور سی اے اے قوانین کے خلاف سخت مظاہرہ کیا اور حکومت کو ان کالے قوانین کے مکمل نفاذ سے قبل نظر ثانی اور ان میں قدرے نرمی کرنے پہ مجبور کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل ان قوانین کے متعلق کچھ بڑی اور اہم خبر سننے کو نہیں مل رہی ہے۔ اور اب ممکن ہے اس تعلق سے کوئی سخت قدم نہ اٹھایا جائے۔ ورنہ حکومت کے باغیانہ تیور اور سخت رویے کو دیکھتے ہوئے تو یہی محسوس ہوتا تھا کہ وہ مسلمانوں کو چشم زدن میں ملک سے باہر کر دیں گے۔ مگر جب تک اس ملک میں جمہوریت کے متوالے اور شاہین باغ کے شاہینی جذبے والی اسلام کی شہزادیاں موجود ہیں حکومت کے لیے کسی بھی مسلمان کو ملک بدر کرنا تو دور اس کی شہریت پہ شک کرنا بھی آسان کام نہیں ہوگا۔
کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ حکومت کی طرف سے لائے گئے یہ قوانین در اصل مسلمانوں کو ہراساں کرنے اور ہندوؤں کو رجھا کر ان سے سیاسی فائیدہ بٹورنے کے شوشے ہیں۔ ان کو نافذ کر کے ان پہ عمل درامد کرانے حکومت کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ دلیل کے طور پر ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان جیسی کثیر آبادی والے ملک میں تمام لوگوں کی شہریت کے کاغذات کی شناخت اور حکومتی کارڈز کی تحقیق کرنا تو بذات خود ایک ناممکن فعل لگتا ہے۔پھر علی وجہ التقدیر اگر یہ ممکن ہو بھی جائے تو شہریت کھونے والے لوگوں کی اتنی بڑی تعداد کو بیک وقت ملک سے باہر کرنا تو اس سے بھی بڑی بات ہے جو کسی صورت ممکن نظر نہیں آتی۔ اس لیے یہ فقط ایک ڈھونگ ہے جس میں نیت تو مسلمانوں کو پریشان کرنے کی ہے جو اپنی جگہ درست بھی ہے مگر چاہت ہندوؤں کو ایک جٹ کر کے اپنے اقتدار کی کرسی کو مضبوط کرنے کی ہے۔ بہر حال حکومت کی سوچ جو بھی رہی ہو، اپنے ہی ملک میں اپنی شہریت کے ثبوت کے لیے دستاویزات کی فائل لیے قطار میں کھڑے ہونا نہ فقط یہاں کے مسلمانوں کے لیے شرم کی بات ہے بلکہ یہاں کی اکثریت یعنی ہندوؤں کے لیے بھی حد درجہ عار کا باعث ہے۔ لہذا زعفرانی پارٹی کے سوا ہندوستان کی تقریبا سبھی چھوٹی بڑی، سیاسی و غیر سیاسی پارٹیوں اورلاتعداد اداروں نے اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیا اورمجوزہ آئین مخالف قوانین کے تئیں اپنی عدم اتفاقی اور ناراضگی درج کرائی۔
مسلمانوں سے عداوت اور ان کی دوستی پہ شک کوئی نیا معاملہ یا فقط بھگوا حکومت کا خاصہ نہیں بلکہ آزادی ئ ہند کے بعد سے جتنی بھی پارٹیاں حکومت میں آئیں تمام نے ان کے ساتھ سوتیلا رویہ اپنایا اور انہیں ہراساں کرنے کے نت نئے طریقے ایجاد کرتے رہے۔ اور بات ہے کہ آج کی حکمراں پارٹی کھل کے مخالفت کر رہی ہے اور کل کی حکمراں جماعت نے ان سے اپنائیت و یگانگت جتا کر پیچھے سے وار کیا۔ بہر حال مسلمانوں کے جسموں میں خنجر دونوں نے اتارے ہیں۔ جب کہ دیکھا جائے تو سر زمین ہندوستان سے حقیقی محبت کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ صرف مسلمان ہیں۔ کیوں کہ تقسیم ہند کے وقت ان کے پاس بہتر متبادل اور پاکستانی شہریت کے اختیار کی موجودگی کے باوجود انہوں نے اپنے آبائی وطن میں رہنے کا فیصلہ کیا اور ہندوستان سے بے انتہا محبت اور وفاداری ظاہر کی۔ یقینا ہندوستانی مسلمانوں کا پاکستان جانے کے اختیار کو ٹھکرا کر ہندوستان کو گلے لگانا وطن دوستی اور ملک پرستی کی ایک ایسی مثال ہے جس کی نظیر یہاں کی نام نہاد زعفرانی پارٹی بلکہ کوئی بھی وطن پرستی کے بے جا راگ الاپنے والی پارٹی پیش کرنے سے قاصر ہے۔ کیوں کہ ملک سے اصل محبت اسی وقت ظاہر ہوتی ہے جب اس کے علاوہ دوسرا متبادل موجود ہو اور اسے اپنانے کا مکمل اختیار بھی ہو پھر بھی اپنے ملک کوئی کو سینے سے لگایا جائے۔ اور ہندوستانی مسلمانوں کے لیے تو پاکستان محض ایک ملکی متبادل ہی نہیں بلکہ بہترین آپشن تھا جو ایک محفوظ پناہ گا ہ اور خوبصورت آشیانے کی حیثیت رکھتا تھا کیوں کہ وہاں کی مسلم آبادی تقریبا سو فیصد تھی اور جو علی الاعلان ایک اسلامی ملک کہلانے والا تھا۔
اس کے بر عکس اگر ہندوستان کے ہندوؤں کا وطن پرستی کے تعلق سے جائزہ لیا جائے تو مسلمانوں سے ان کی برابری کسی طور ممکن نہیں۔ کیوں کہ تقسیم ہند کے وقت ہندوستان کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل ان کے پاس موجود ہی نہیں تھا۔ بلفظ دیگر یہ ہندوستان کو اپنا مسکن چننے کے لیے مجبور تھے۔اور جو کسی چیز کو مجبورا اپنائے اور اسے محبت کا نام دے تو اسے محبت نہیں ضرورت اور احتیاج سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ آپ نے بارہا فرقہ پرست پارٹیوں کے نام نہاد لیڈران اور کارکنان کو یہ کہتے ہوئے سنا ہوگا کہ ’پچپن چھپن اسلامی ملک ہیں، یہ کہیں بھی چلے جائیں گے۔ ہم کہاں جائیں گے؟‘ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ ہندوستان میں رہنے پہ مجبور ہیں اور ملک سے محبت جتانا ان کی مجبوری ہے اختیار نہیں۔اب انصاف کا تقاضا کیاہے؟ جس نے ملک کو اپنی خوشی اور اختیار سے اپنایا اسے اس سے محبت کی دعویداری کا حق زیادہ ہے یا اسے جس نے اس ملک کو فقط اپنی ضرورت اور مجبوری کے تحت اپنایا؟ بلا شبہ یہ مسلمانوں کی وطن دوستی اور اس سے بے پناہ محبت و وفاداری کی ایسی دلیل ہے جس کی تردید کسی صورت ممکن نہیں ساتھ ہی یہ ایک ایسا ظاہر اور کھلا سچ ہے جسے لاکھ کوشش کے باوجود جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ مگر خود سر اور عناد سے بھرے ہندوتو کو کون سمجھائے۔
مذکورہ بالا حقائق و براہین کی روشنی میں نہ صرف میرے بلکہ ہر انصاف پسند اور ملک دوست ہندوستانی کی رائے کے مطابق ملک کے مسلمانوں کو نہ صرف ہندوستانی شہریت کا مکمل طور سے حقدار سمجھنا چاہیئے بلکہ ماضی میں ان کے گراں مایہ خدمات کے اعتراف میں ان کی خاطر خواہ حوصلہ افزائی اور عزت و تکریم کرنی چاہیئے۔ کیوں کہ یہی اس سر زمین کے اصل حقدار و وفادار ہیں۔ ہندوستان کے عظیم شاعر ڈاکٹر بشیر بدر نے تو بعد مرگ بھی ان کی وفاداری ثابت کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
دریا سے مل کے وہ تو سمندر میں بہہ گیا!
قبروں سے پوچھ اصل زمیں دار کون ہے
صدام حسين پرواز
6204629852
saddamhusainparwaz@gmail.com