قلم کی طاقت .قلم کی سطوت

طلبہ مدارس اور ہمارے وہ بھائی جو ابھی تک قلم و قرطاس سے دور ہیں-ان کے لیے دست بستہ عرض ہے کہ وہ اس نئے سال2023 کے شروع ہی میں ایک پلاننگ بناۓ کہ اس ایک سال کے اندر اندر قلم و قرطاس سے میں اپنا رشتہ اس قدر استوار کرلوں گا کہ2024آتے آتے ایک نیا قلم کار بن کر ابھروں گا!
عزم، استقلال اور جذبہ شرط ہے 
باقی کوئی مشکل چیز نہیں ہے 

ذیل میں قلم و قرطاس کی اہمیت کے حوالے سے ایک مضمون ہے اسے پڑھیں اور اندازہ لگائیں کہ قلم کی کیا طاقت ہے!


__قلم کی طاقت قلم کی اہمیت اور قلم کی ضرورت کو ہم لوگ بیاں تو خوب  زور و شور کے ساتھ کرتے ہیں مگر زمینی سچ یہ ہے کہ ابھی تک ہم اس قلم کی طاقت,اہمیت اور ضرورت سے حقیقی طور پر آشنا نہیں ہو پاۓ ہیں....اس عدم شناسائی کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ہماری جماعت میں قلمکار علما کی بھی کمی ہے اور قلم و قرطاس کے قدردانوں کی بھی کمی ہے....-
 فرسودہ موضوعات پر مشتمل تقریریں بڑے شوق سے سنی جاتی ہیں اور ان پر داد و دہش بھی خوب دی جاتی ہے مگر آج کا رونا یہ ہے کہ خون و پسینہ ایک کرکے لکھی گئی تحریروں پر کسی کی توجہ نہیں ہوتی...
یاد رکھیے!....ابلاغ دین و اشاعت شریعت میں جتنا رول قلم و قرطاس کا ہے اس کا عشر عشیر بھی تقریر کا نہیں ہے....تقریر کی اہمیت مسلم ہے...اس سے کسی کو کویٔی انکار نہیں, فکری اور علمی تقریریں میں خود سنتا ہوں اور یقینا سننا بھی چاہیے....مگر بات افراط و تفریط کی ہے...یعنی جس کا جو ریل مقام ہے بہر حال اسے ملنا چاہیے اور بدقسمتی سے آج وہ قلم کو نہیں مل رہا ہے-
جس طرح آج کا محرر اس حوالے سے نالہ زن ہے اسی طرح ماضی کا محرر بھی اس درد کو رو کر خلد نشیں ہوا ہے...ہماری تو حیثیت بھی کچھ نہیں یہ وہ صاحب طرز  ادیب و محرر تھے کہ جو دنیاے علم و ادب میں  "رئیس التحریر " جیسے باوزن  لقب سے پہچانے گئے۔ وہ شخصیت کسی اور کی نہیں..نباض وقت,مفکر ملت حضرت علامہ ارشد القادری رحمہ اللہ تعالی کی ہے کہ جن کی نگارشات نے علمی اور ادبی حلقوں میں ایک انقلاب برپا کرکے رکھ دیا....آپ جب اس درد کو بیاں کرتے ہیں تو ہمیں قوم کا مستقبل نہایت تاریک نظر آتا ہے....علماء کرام سے آپ اس حوالے سے جس زور و شور کے ساتھ اپیل کرتے نظر آتے ہیں...اس کی نظیر ملنی مشکل ہے...-
علامہ ارشد القادری علیہ الرحمۃ کی نس نس میں ملت کا درد بھرا ہوا تھا...آپ ہمہ وقت ملت کی فکر میں کڑھتے رہتے تھے...اس کڑھن کا کچھ اندازہ ہم آپ کے اس مکتوب سے لگاسکتے ہیں جو آپ نے علامہ یسین اختر مصباحی کو لکھا تھا..
یہ مکتوب حضرت قائد اہلسنت علامہ ارشد القادری نے علامہ یٰسین اختر مصباحی صاحب کو اس وقت لکھا جب آپ کو معلوم ہوا کہ مصباحی صاحب کی ادارت میں نکلنے والا ماہ نامہ "حجاز جدید" خسارے میں چل رہا ہے۔ مکتوب ملاحظہ ہو:

رئیس التحریر حضرت مولانا یٰسین اختر مصباحی (مدیراعلیٰ حجاز جدید نئی دہلی)

 السلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ

 مزاج گرامی؟

 ۲۶جنوری کو اپنے غیر ملکی سفر سے واپسی پر جامعہ حضرت نظام الدین اولیاء دہلی کے دفتر میں آپ سے ملاقات کرکے خوشی ہوئی، لیکن یہ معلوم کر کے افسوس بھی ہوا کہ ماہ نامہ "حجاز جدید" خسارے میں چل رہا ہے۔ کسی بھی کاروبار کے کا خسارہ خطرے کا الارم ہوتا ہے۔ اگر مصنوعی تدبیروں سے اس کی تلافی نہیں ہوتی تو اس کا انجام بالکل وہی ہوتا ہے جو بجھتے بجھتے نبض کی تپش کا ہوا کرتا ہے۔ جرائد کو گور غریباں تک پہنچانے والا یہی راستہ ہوتا ہے۔

 اس خبر سے مجھے تشویش اس لیے بھی لاحق ہو گئی ہے کہ ہماری جماعت ہر معاملے میں حساس ہے، لیکن تحریر کے معاملے میں اس کے احساس کی ٹھنڈک نقطہ انجماد کے قریب تک پہنچ گئی ہے۔ مسجد، مدرسہ، درگاہ، عرس اور جلسہ و جلوس ان میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جسے ہماری جماعت نے مرنے سے نہ بچا لیا ہو۔ سالہاسال کے تجربات شاہد ہیں کہ جب بھی ان میں سے کسی پر نزع کا عالم طاری ہوا، بالیں کے کنارے مسیحاؤں کی بھیڑ جمع ہو گئی اور ہزار مشکلات کے باوجود جسے بچانا تھا بچا لیا گیا۔

  لیکن زندگی کی سرفرازیوں کا نقشہ تیار کرنے کے لیے جس نے بھی قلم ہاتھ میں لیا اسے اس خارزار وادی سے تنہا گزرنے کا گزرنا پڑا، کسی نے اس کا کرب تقسیم نہیں کیا۔ چوٹ کھا کر گرنے کا تماشہ سب نے دیکھا لیکن زخموں پر تسکین کا مرہم رکھنے کی کسی کو توفیق نہیں ہوئی۔ کسی نے محسوس نہیں کیا کہ جو خونِ جگر ہر ماہ تحریروں کے نقوش میں جذب ہو رہا ہے وہ سوکھ گیا تو قلم کے لیے روشنائی کہاں سے آئے گی؟ کون احساس کی نبض کو گرم رکھے گا؟ کون فکر کے دریچے کھولے گا؟ کون جذبے کو نئی توانائی عطا کرے گا؟ اور کون کاروانِ ہمت کو جادہ پیمائی کے لئے آمادہ کرے گا؟

 یہ ساری ضرورتیں چارہ گروں کو آواز دیتی رہیں اور وہ پتھرائی ہوئی آنکھوں اور اکھڑی ہوئی سانسوں کا تماشہ دیکھتے رہے، بالآخر فکر و آگہی کا ایک سفینہ اپنے ہی ناخداؤں کی نظروں کے سامنے ڈوب گیا۔ اس طرح کی بہت سی درد انگیز موتوں کا میں عینی شاہد ہوں بلکہ اس طرح کی موت سے خود بھی کئی بار مرا ہوں اور زندہ ہوا ہوں۔ غالباً آپ کو یاد ہوگا آج سے ایک سال پیشتر جب دہلی میں آپ نے ایک ماہ نامے کے اجرا کا ارادہ ظاہر کیا تھا، اسی دن میں نے اس راہ کی مشکلات سے آپ کو باخبر کردیا تھا۔ لیکن شوق آبلہ پائی کی عمر دراز ہو کہ جیسے بھی ہو اس خارزار وادی سے آپ کو گزرنا ہے۔ آپ اس یقین و اعتماد کے ساتھ اپنا سفر شوق جاری رکھیں کہ نعرہ لگانے والوں کی بھیڑ میں کچھ حقیقت پسند افراد بھی موجود ہیں۔

 تشویش کے باوجود میں ماہ نامہ "حجاز" کے لیے پرامید ہوں کہ وہ زندہ رہے گا، کیونکہ اہل سنت کا یہ پہلا ترجمان ہے جو فکری اور تنظیمی بیداریوں کی ایک انقلاب انگیز تحریک لے کر اٹھا ہے۔ ہر شمارے میں آپ کا اداریہ واضح طور پر اس منزل کی نشاندہی کرتا ہے، جدھر آپ اہل سنت کی نوجوان نسل کو لے جانا چاہتے ہیں، کسی بھی مدیر کی قلمی توانائیوں کا مظہر دراصل خود اس کا اداریہ ہوتا ہے۔ آپ نے اپنے فکر انگیز اور ذہن ساز اداریوں کے ذریعے جماعت کے سو پچاس افراد کو بھی قلمی توانائیوں سے مسلح کردیا تو آپ کا نام مذہبی زندگی کی ناقابل تسخیر قوتوں کے بانی کی حیثیت سے تاریخ میں محفوظ ہو جائے گا۔

 آپ ہرماہ اسی طرح احساس کی مردہ رگوں پر نشتر چلاتے رہیے، کہیں سے تو زندگی کا سوتا پھوٹے گا، کبھی تو جذبات کی سطح سے اوپر اٹھ کر سوچنے والے افراد پیدا ہوں گے۔ تحریر کی ساحری کا رنگ اگرچہ دیر میں نکھرتا ہے لیکن اگر نکھر گیا تو صدیوں تک وہ اسی آب وتاب کے ساتھ باقی رہتا ہے۔ اس کی زندہ مثال دیکھنا ہو تو اعلی حضرت امام اہلسنت فاضل بریلوی کی عبقری شخصیت کا مطالعہ کیجیے۔ ان کی زندگی میں "چند کتابےو دواتے و قلمے" کے سوا تقریر و خطابت کی کوئی گھن گرج آپ نے دیکھی ہے؟ راویوں کے بیان کے مطابق تین سو ساٹھ دنوں میں صرف تین دن مواعظ کے لیے مخصوص تھے، باقی سارے ایام کی مصروفیات قرطاس و قلم کے سوا اور کچھ نہیں تھیں۔

 اعلی حضرت فاضل بریلوی نے مجلدات کی صورت میں اپنے علوم ومعارف کے خزائن کا ہمیں وارث نہ بنایا ہوتا تو آج ہم پوری دنیا میں سر اٹھا کر کیسے چلتے؟ ان کی تحریروں کے گنجہائے گراں مایہ ہمارے پاس نہ ہوتے تو اپنے وقت کا ابو حنیفہ، غزالی اور رازی کہنے کے لیے ہمارے پاس کونسی دستاویز تھی؟ اور عقل بے مایہ کو انگشت بدنداں رہنے دیجیے کہ مسلک اہل سنت کے نام سے امتیاز حق و باطل کا ایک عالم گیر انقلاب جس کے مبارک و مسعود آثار سے آج بحروبر کی وسعتوں میں پھیلا ہوا ہے یہ تنہا ایک شخص کے قلم کا برپا کیا ہوا ہے۔

 اپنی تلخ نوائی کی معذرت چاہتے ہوئے اس مقام پر یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اعلی حضرت فاضل بریلوی نے ہمیں لوح و قلم کا وارث بنایا تھا اور ہم نصف صدی سے صرف منبر کی طرف دوڑ رہے ہیں، اس کا انجام یہ ہے کہ اب اہل قلم ہماری جماعت میں نہیں پیدا ہو رہے ہیں۔ کسی مفکر کو دیکھنے کے لیے ہماری آنکھیں ترس گئی ہیں۔ دنیا کا کوئی مذہب بھی ہوا میں تحلیل ہو جانے والے الفاظ کی بنیاد پر زندہ نہیں رہا ہے، جب تک اس کی پشت پر فکر انگیز لٹریچر نہ ہو، نہ اسے استحکام حاصل ہو سکتا ہے اور نہ وہ نسلوں میں منتقل ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں "حجاز" کے قارئین کو میں ایک نہایت افسوس ناک اطلاع دے رہا ہوں، اپنے اس طویل سفر میں یورپ، امریکہ اور مشرق وسطی کے بہت سارے ملکوں میں مختلف زبانوں کے مذہبی لٹریچر دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اسی ہندوستان میں جنم لینے والے فرقہائے باطلہ کے لٹریچر مختلف زبانوں میں ملے، لیکن اعلی حضرت فاضل بریلوی کے سوا اس انبار میں اہل سنت کے کسی اور مصنف کا نام ہمیں نہیں مل سکا اور ہم حیرت زدہ اس لیے نہیں ہوئے کہ جب ہم اپنی مادری زبان میں کوئی فکری اور علمی لٹریچر تیار نہیں کر سکے تو بین الاقوامی زبانوں میں اس کے تراجم کیوں کر وجود میں آ سکتے ہیں؟

 اگر ہماری جماعت کے اصحابِ فکر و قلم نے ان فروگزاشتوں کی تلافی نہیں کی تو ہندوستان کی سرحدوں کے اس پار موجودہ امتیاز و تشخص کے ساتھ ہمارا کوئی نام و نشان باقی نہیں رہے گا۔ ویسے ایران اور نجد کو چھوڑ کر دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں ہے جہاں مذہب اہل سنت انہی روایات کے ساتھ زندہ نہ ہو جن روایات کے ساتھ ہند و پاک میں زندہ ہے۔ اور یہ بات ہرگز تسلیم نہیں کی جاسکتی کہ مذہب زندہ ہو اور اس کے پیچھے اہل علم، اہل فکر، اہل قلم اور اہل ابلاغ کا وجود سرگرم عمل نہ ہو۔ لیکن ماتم اپنی اس تقصیرکا ہے کہ آفاقی سطح پر ہم اپنی تبلیغی ذمہ داریوں سے اب تک کیوں نہیں سبک دوش ہوئے؟

 اس کی وجہ سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ ہم نے اپنی ساری انرجی صرف تقریروں پر صرف کی ہے اور پہاڑ کے برابر غلطی یہ ہوئی کہ ہم نے اپنی عوام کو بھی تقریروں کا رسیا بنا دیا۔ اور ایسا رسیا بنا دیا کہ تقریروں کے علاوہ تحریروں کی پذیرائی کا جذبہ ہی ان کے اندر سے بالکل مفقود ہو گیا۔ ہم سجدہ سہو ادا کرنے کے لئے تیار ہو جائیں تو حالات اب بھی قابو سے باہر نہیں ہیں۔

 اس کے لیے دو بنیادی کام کرنے ہوں گے، پہلا کام تو یہ ہے کہ ترغیب وتشویق کے جتنے بھی ذرائع ممکن ہو سکتے ہیں، انہیں استعمال کرکے اہل سنت میں اصحاب قلم مفکرین کی ایک متحرک و فعال جماعت تیار کی جائے اور دوسرا کام یہ ہے کہ اپنے عوام میں قلمی خدمات کی پذیرائی اور قدردانی کا ایسا پر خلوص جذبہ پیدا کیا جائے کہ وہ تحریری کام کو زندہ رکھنے کے لیے ہر طرح کی معاونت کریں۔

 ہم اپنی انقلابی مہم کا آغاز ماہ نامہ "حجاز" سے کر رہے ہیں، جو ایک منظم فکری و تعمیری منصوبہ کے تحت منظر عام پر آیا ہے۔ اس کے مستقبل کو مالی اعتبار سے مستحکم اور بے خطر بنانے کے لیے پورے ملک سے کم از کم سو مخلصین کی ضرورت ہے جو پانچ پانچ سو کا ڈرافٹ "حجاز جدید" منتھلی کے نام سے آپ کے پتے پر بھیج دیں۔ اس طرح ایک خطیر رقم جمع ہوجانے کے بعد وہ آزمائش کے ابتدائی مراحل سے بخیر و عافیت گزر جائے گا انشاء اللہ۔

میں اپنے حصے کی رقم عزیزی فیض ربانی سلمہ کے ذریعے آپ کی خدمت میں حاضر کر چکا ہوں، اور امید کرتا ہوں کہ ماہنامہ "حجاز" کی اہمیت محسوس کرنے والے افراد اس تحریک کو آگے بڑھائیں گے۔

آپ کا قدر داں 
ارشدالقادری 
فیض العلوم، جمشید پور
 یکم فروری ۱۹۸۹ء

(برید مشرق، ڈاکٹر خوشتر نورانی،مکتوب نمبر ۱۴۸، ورلڈ ویو پبلیشرز لاہور)

تحریر میں مندرج حوالہ ہمارے ایک قلمی دوست مولانا سلیم قادری رضوی صاحب کی ایک تحریر سے لیا گیا ہے-

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter