اب مزید لوٹ چھوٹ کو برداشت نہیں کیا جائے گا!

اسبملی الیکشن کی تیاریاں زوروشور پر ہیں۔ ہر سیاسی پارٹی اپنی کامیابی کا خواب دیکھ رہی ہے۔ ہر کوئی اپنا انتخابی منشور دکھاکر ووٹ مانگ رہا ہے۔ کوئی گارنٹی کی  بات کررہا ہے تو کوئی روزگاری اور مہنگائی ختم کرنے کی بات کررہا ہے۔ انڈیا والے کسانوں اور عورتوں کی فلاح وبہبود کے لیے خاص مہم جاری کرنے کا وعدہ کررہے ہیں۔ چلیے یہ سب الیکشن کا ایک بہاؤ ہے۔ اور ووٹ حاصل کرنےکا طریقہ کار ہے۔ جو انتخابات کی روایت بھی ہے۔ انہیں الیکشن ریلیوں میں ہمارے ملک کے وزیراعظم مسٹر مودی اپنی پرانی روش پر قائم ہیں۔ آج بھی وہ اپنی عادت کے مطابق ہندو مسلم، مسجد مندر اور اقلیت و اکثریت کی بات کررہے ہیں۔  بھڑکاؤ بھاشنوں کے ذریعے ہندوؤں کی ذہن سازی کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ سادہ لوح ہندوؤں کے دل میں خوف کا زہر بھر رہے ہیں۔ ہندو خطرے میں ہیں۔ ہندوؤں کی جائیداد وجاگیریں چھین کر اقلیتوں کو دے دیا جائے گا۔ یہاں تک کہ ہندو عورتوں کے منگل سوتر بھی چھین کر دے دیا جائے گا۔ پتہ نہیں مسٹر مودی کو کیا ہوگیا۔ کہیں ہار کا خوف یہ سب بلوا رہا ہے یا ہندو ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کی سازش رچی جارہی ہے۔
پتہ نہیں کہ دس سال سے وکاس کا جن کہاں غائب ہوگیا۔ نہ سب کا ساتھ، نہ سب کا وشواس، اور نہ وکاس۔ 2014 میں دو لاکھ سے زائد سرکاری نوکریوں کا وعدہ کیا گیا تھا۔ 2014 میں بے روزگاری کا شرح فیصد 5.44 تھا ابھی 2024 پہنچتے پہنچتے اضافہ ہوکر 7.4ہوگیا۔ بے شمار پڑھے لکھے نوجوان بے روزگار ہیں۔ ملک کی اقتصادی حالات دن بدن ابتر سے ابتر ہوتے جارہے ہیں۔ اس چیز کی کسی کو کوئی فکر نہیں۔ دس سال میں مسٹر مودی جی اور ان کی پارٹی کے نیتاؤں نے اتنا جھوٹ پھیلایا کہ 60 سال میں کوئی کر نہ سکا۔ جھوٹ اتنا پھیلایا گیا کہ لوگ سچ ماننے پر مجبور ہوگئے۔ فرقہ پرستی اور اشتعال انگیزی کو خوب موقع ملا۔ گودی میڈیا نے بھی جلے پر تیل چھڑکنے کا کام کیا اور آج بھی اسی میں لگے ہوئے ہیں۔ 
جھوٹ پر جھوٹ بول کر کرسی بچائی گئی۔ بھاجپا کو ملک کی سالمیت کی فکر سے زیادہ جیت اہم ہے۔ جمہوریت کے تحفظ سے کہیں زیادہ انہیں اپنی کرسی اور حکومت پیاری ہے۔ اقتصادی حالات کے بابت پوچھیے مت۔ ہندوستان قرض میں ڈوبا ہوا ہے۔ سرکاری اداریے ابھی نجی ادارے ہوچکے ہیں۔ ریلوے اسٹیشن سے لے کر ہوائی اڈے تک اڈانی کی جاگیر ہے۔ مہنگائی آسمان چھو رہی ہے 2014 میں رسوئی گیس سلنڈر 400 روپیہ تھا آج سن 2024 میں اس کی قیمت 1100 ہے۔ پٹرول 73روپیہ سے بڑھ کر 107 روپیہ ہوگیا۔ ڈیزل 55 سے 95 ہوگیا۔ اس مہنگائی کی کسی کو فکر نہیں کچھ اند بھگت کہہ رہے ہیں کہ رسوئی گیس اگر 5000 بھی ہوگیا تو پرواہ نہیں ہم ووٹ مودی جی ہی کو دیں گے۔ الیکٹورل بانڈ  کے ذریعے بھاجپا نے اپنا سیاسی پلاٹ فارم استوار کرلیا اور غریبوں کی زندگی سے کھیلا۔ الیکٹورل بانڈ سے  بڑا گھوٹالہ اور کیا ہوسکتا ہے۔؟؟؟ الیکٹورل بانڈ کے ذریعے پرائیویٹ کمپنیوں نے بی جے پی کو اتنی بڑی بڑی رقوم دی ہے تاکہ ای ڈی، سی بی ائی اور دیگر کمپنیوں سے انہیں  راحت ملے۔ اسی الیکٹورل بونڈ کی وجہ سے نوجوانوں کو نوکریاں نہیں مل رہی ہیں، مہنگائی بڑھ رہی ہے اور بانڈ نہ دینے والوں کو پریشان کیا جا رہا ہے۔
ملک کو لوٹا گیا۔ لوٹ کر ہندوتوا کا زہر بھردیا گیا تاکہ کسی کا ذہن اس طرف جائے بھی نہ۔ اتنا بڑا گھوٹالہ ہونے کے باوجود دیش واسیوں کی آنکھ نہیں کھلی۔ اس لیے اندھ بھگتوں اور دیش واسیوں سے ہماری اپیل ہے کہ آنکھ کھولیے۔ ہندوتوائی فکر سے باہر آکر ملک کے مستقبل کے بارے میں سوچیے۔ آئین اور دستور کو بچانے کی فکر کیجیے۔ بھارت کی گنگاجمنائی تہذیب وثقافت کی حفاظت کیجیے۔ جمہوریت پر تاناشاہی کی لٹکتی تلوار کو ہٹائے۔ آپ اپنی فکر کیجیے۔ بھاجپا کے جھوٹ کے بھول بھلیوں سے نکلنے کی کوشش کیجیے۔ لٹیروں سے ملک کی حفاظت کیجیے۔ ووٹ کا صحیح استعمال کیجیے۔ انڈیا کو پھر سے حکومت کی کرسی پر براجمان کیجیے۔ ہم نے عہد کیا ہے کہ اس بار تاناشاہی حکومت کو ختم کریں گے۔ اب مزید جھوٹ ولوٹ کو برداشت نہیں کریں گے۔ بھارت کے ناگرک ہونے کا حق نبھائیں گے۔ جمہوریت کا حق یعنی ووٹ کے ذریعے تبدیلی لائیں گے۔ مہنگائی اور بے روزگاری کو ختم کریں گے۔ ان سب کے لیے ضروری ہے کہ ہم متحد ہو کر ان تاناشاہیوں کو سبق سکھائیں۔ اگر اس بار بھی ووٹ کاٹنے والوں کو نہیں پہچانا تو پھر کبھی پہچان نہ پائیں گے۔ اس لیے ان سے بھی دوری بنا کے رکھیے اور انڈیا کو جتائے۔ ملک کو بچائے۔ خدا ہماری مدد کرے۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter