خودکشی کسی بھی مسئلے کا حل نہیں!
زندگی قدرت کا حسین عطیہ ہے لیکن لوگ اس کی قدر نہیں کرتے۔ معاشی و معاشرتی ناہمواریوں، سماج میں مناسب مقام نہ ملنے اور گھریلو حالات کے باعث نوجوان اتنے دل گرفتہ ہوتے ہیں کہ وہ موت کو زندگی پر ترجیح دینے لگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف بھارت بلکہ دنیا کے مختلف ممالک میں خودکشیوں کی تعداد میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں تقریباً دس لاکھ افراد خودکشی کرتے ہیں جن میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ یہ صورتحال حقوقِ انسانی کی عالمی تنظیموں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
خودکشی سے بچاؤ کے لیے اس کے محرکات کا علم ہونا بے حد ضروری ہے کہ آخر وہ کون سی وجوہات ہیں جو ایک ہنستے کھیلتے شخص کو اتنا مایوس کر دیتی ہیں کہ وہ اپنی زندگی ختم کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ماہرینِ نفسیات کے مطابق نوجوانوں میں زندگی سے بیزاری کے متعدد اسباب ہیں۔ ان میں غربت، بے روزگاری، مایوسی، افسردگی، غصہ، سماجی ناانصافیاں، بنیادی حقوق کا نہ ملنا، اعتماد کی کمی اور امتحان میں کم نمبر آنا شامل ہیں جبکہ مالی اور خاندانی مسائل بھی اس کے اہم اسباب ہیں۔
اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگی ختم کرنے کا رجحان پندرہ سے چوبیس سال کے نوجوانوں میں زیادہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ممبئی کا ایک نوجوان ذہین طالب علم تھا، ہمیشہ اچھے نمبروں سے پاس ہوتا تھا۔ اس نے چند سال قبل صرف اس لیے خودکشی کر لی کہ وہ چارٹرڈ اکاؤنٹینسی کے امتحان میں اپنی خواہش کے مطابق نمبر حاصل نہ کر سکا۔ جس سے دل برداشتہ ہو کر اس نے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔ ایک اور نوجوان جو محکمہ پولیس میں ملازم تھا، نوکری ختم ہونے کے بعد اہلِ خانہ کی فاقہ کشی دیکھ کر ذہنی تناؤ میں مبتلا رہتا تھا۔ ایک دن گھریلو مسائل سے اتنا دل برداشتہ ہوا کہ اس نے اپنی پستول رکھ کر خود کو شوٹ کر لیا۔
قارئین غور فرمائیں کہ کوئی بھی شخص اتنا بڑا قدم اٹھانے سے پہلے ہزار بار سوچتا ہوگا، کشمکش میں مبتلا رہتا ہوگا اور وہ کسی کو بتائے بغیر اپنی پریشانیوں اور الجھنوں پر قابو پانے کے طریقے تلاش کرتا ہوگا۔ اس کے دل میں بھی جینے کی امنگ ہوتی ہوگی لیکن جب اسے زندہ رہنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا تو اپنی زندگی کے خاتمے کے بارے میں غور کرنا شروع کر دیتا ہے۔ نفسیاتی ماہرین کے مطابق ہر نفسیاتی بیماری کی طرح خودکشی کرنے والے شخص میں موت کو گلے لگانے سے قبل چند علامتیں ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ ایسا شخص یا تو ضرورت سے زیادہ پُرجوش نظر آتا ہے یا پھر خطرناک حد تک مایوسی کا شکار۔ لیکن ہر شخص اپنی ذات میں اس قدر مگن رہتا ہے کہ وہ یہ جاننے کی کوشش بھی نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ بیٹھا ہوا شخص کن مسائل و پریشانیوں سے دوچار ہے، اس کے ذہنی خلفشار نے اس کی زندگی کو کس نہج پر پہنچا دیا ہے۔
بیشتر نوجوان خودداری یا شرم کی وجہ سے اپنی پریشانیاں اپنے ساتھیوں کو بتانے سے گریز کرتے ہیں۔ وہ اندر ہی اندر گھٹتے رہتے ہیں۔ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ ان پریشانیوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے زندگی سے ہی چھٹکارا حاصل کر لیتے ہیں۔ اپنے مقصد میں ناکامی نوجوانوں کے ذہن میں منفی جذبات پیدا کرتی ہے جو بعد میں خودکشی جیسے فیصلے کا سبب بن جاتے ہیں۔ کورونا جیسی بھیانک وبا کے باعث جب خود حفاظتی اقدامات اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے دنیا بھر میں کاروبارِ زندگی معطل ہو گیا تو لوگ معاشی بحران کا شکار ہونے لگے۔ اس صورتحال سے خودکشیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا جن میں بے روزگار نوجوانوں کی تعداد زیادہ منظرِ عام پر آئی۔
دنیا میں ہر شخص کو مسائل درپیش ہوتے ہیں۔ نوجوان اتنے باہمت ہوتے ہیں کہ جدوجہد کرکے ان پر قابو پا لیتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوانوں کے ذہنوں سے خودکشی کے رجحانات کے خاتمے کے لیے این جی اوز اور سماجی تنظیمیں اپنا کردار ادا کریں۔ وہ ان کے مسائل معلوم کر کے ان کا حل تلاش کریں۔ انہیں ذہنی خلفشار سے نکالنے کے لیے ذہنی تربیت کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ اگر وہ مالی پریشانیوں کا شکار ہیں تو ان کی مالی امداد کا بندوبست کیا جائے۔ روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں یا مالیاتی اداروں کے تعاون سے انہیں آسان اقساط پر قرضے دلوائے جائیں تاکہ وہ چھوٹا موٹا کاروبار کر کے اپنے اہلِ خانہ کا پیٹ پال سکیں۔ موبائل فون اور سوشل میڈیا نے بے شمار نوجوانوں کو سماجی برائیوں کا شکار بنا دیا ہے۔ بعض اوقات وہ بلیک میلروں کے ہتھے چڑھ کر نہ صرف اپنا بلکہ اپنے گھر والوں کا سکھ چین بھی برباد کر دیتے ہیں۔ انہیں اس گرداب سے نکالنے کی ضرورت ہے۔
خودکشی کے رجحان کے تدارک کے لیے والدین بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔ وہ اپنی اولاد کی سرگرمیوں پر گہری نگاہ رکھیں۔ اگر وہ کسی پریشانی یا الجھن کا شکار نظر آئیں تو وہ ان سے دوستانہ ماحول میں گفت و شنید کر کے ان کے مسائل معلوم کریں۔ اگر ان کا مسئلہ معاشی پریشانی ہے تو انہیں تسلی دیں، اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین دلائیں۔ اگر وہ غیر اخلاقی سرگرمیوں یا سماجی برائیوں میں پڑتے ہیں تو انہیں سیدھی راہ پر لانے کی کوشش کریں۔ اگر ان سے کوئی غلطی سرزد ہو گئی تو انہیں یقین دلائیں کہ اس غلطی کو سدھارنے میں وہ ان کی مدد کریں گے تاکہ وہ ذہنی اذیت کی انتہا تک پہنچنے یا خودکشی کے بارے میں سوچنے کے بجائے مسئلے کا حل ڈھونڈ سکیں۔
نسلِ نو میں خودکشی کی زیادہ وجوہات جو منظرِ عام پر آ رہی ہیں وہ ان کے نادرست لوگوں سے تعلقات، موبائل فون پر رانگ کالز جو بعد میں عشق و محبت میں بدل جاتی ہیں اور جو زیادہ تر صنفِ قوی کی جانب سے غریب اور دھوکا دہی پر مبنی ہوتی ہیں۔ بچوں سے عدم توجہی والا رویہ دوسرے سہارے تلاش کرنے کا سبب بنتا ہے۔ مفلوک الحالی اور مالی تنگ دستی کا شکار یا بے روزگار نوجوانوں کے ذہنوں میں خودکشی کے جراثیم بہت جلدی پرورش پاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانوں کے لیے کھیل کود اور مثبت سرگرمیوں کا ماحول بنایا جائے۔ ان میں جینے کا جذبہ اجاگر کیا جائے۔ یاد رہے کہ ذرا سی توجہ ان میں جینے کی امنگ پیدا کر کے خودکشی کے رجحانات میں کمی پیدا کر سکتی ہے۔
خودکشی کیا مسئلے کا حل دے گی
خودکشی خود ہی ایک مسئلہ ہے....!