خدارا ماهِ محرم الحرام کو تماشہ نہ بنائیں

اسلامی مہینوں میں محرم الحرام پہلا اور نہایت عظمت والا مہینہ ہے۔ اس کی قدر و منزلت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ قرآنِ مجید نے خصوصی طور پر اس کی حرمت کو بیان فرمایا۔ قرآن حکیم گویا ہے: "اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ"۔"بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک، اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہیں، جس دن سے اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا، ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں" (سورۃ التوبہ: 36) اور امام الانبیاء ﷺ نے فرمایا: "أفضل الصّیام بعد رمضان شہر اللّٰہ المحرم" "رمضان کے بعد سب سے افضل روزے اللہ کے مہینے محرم کے ہیں" (مسلم)۔ نبی کریم ﷺ نے اس مبارک مہینے کو "شہر اللہ المحرم" یعنی "اللہ کا مہینہ محرم الحرام" فرما کر، اس کی نسبت براہِ راست اللہ جل جلالہ و عمّ نوالہ کی طرف کی، جو اس کی عظمت کا مظہر ہے۔ احادیثِ نبویہ میں محرم کی فضیلت سے متعلق متعدد روایات موجود ہیں، جن کا بیان ایک تفصیلی موضوع ہے۔تاہم، ہم اس مضمون میں محرم کی عظمت سے زیادہ، اس مہینے میں سید الشہداء، امامِ عالی مقام حضرت امام حسین علیہ السلام اور اہلِ بیت اطہار سے عقیدت و محبت کے نام پر انجام دی جانے والی خرافات اور بے بنیاد رسم و رواج پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔

جیسے ہی یہ ماہِ مبارک جلوہ فگن ہوتا ہے، ہمارے گلی کوچوں اور محلّوں میں تعزیہ داری کے نام پر بعض غیر شرعی اور ناجائز رسومات انجام دی جاتی ہیں۔ حسینیت کے نام پر بعض افراد ایسے اعمال کرتے ہیں جو نہ صرف اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں بلکہ ان سے امامِ عالی مقام حضرت امام حسینؓ کی روحِ مبارک ضرور رنجیدہ ہوتی ہوگی۔ ان افراد کو یہ گمان ہوتا ہے کہ ان افعالِ ناروا سے امام حسینؓ کی روح خوش ہوتی ہے، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ امام حسینؓ نے دین اسلام کی سربلندی، نماز، توحید اور سنتِ رسول ﷺ کی حفاظت کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ اُن کی روح مبارک ان افعالِ قبیحہ و شنیعہ سے ضرور تڑپتی ہوگی۔ تعزیہ داری کے نام پر جو خرافات عام طور پر کی جاتی ہیں، ان کی ایک جھلک ملاحظہ ہو:

تعزیوں کو ماتم کرتے ہوئے گلیوں میں پھرانا

تعزیوں کے سامنے سجدہ کرنا

بچوں کو "محرم کا فقیر" بنا کر بھیک منگوانا

مال و دولت کا غیر ضروری ضیاع

جان بوجھ کر برتن توڑنا

دسویں محرم کو گھروں میں کھانا پکانے کو معیوب سمجھنا

خود کو فقیر ظاہر کرکے بھیک مانگنا

سینہ کوبی، کپڑے پھاڑنا، چیخ و پکار، اور نوحہ خوانی

سوگ کے طور پر سیاہ لباس پہننا، کالے دھاگے باندھنا

نئے لباس یا خوشی کے اظہار کو ممنوع سمجھنا

ناچ گانا، رقص و سرور کی محافل

مرد و عورت کا بے پردگی کے ساتھ ایک جگہ اجتماع

جھوٹے، من گھڑت واقعات سنانا

جھوٹی منتیں ماننا

"امام قاسم کی مہندی" جیسی رسمیں نکالنا

نمازوں میں غفلت برتنا

بزرگوں کی تصویریں بنا کر انہیں متبرک سمجھنا یا عقیدت میں مبالغہ کرنا وغیرہ وغیرہ —

یہ تمام امور نہ صرف دینِ اسلام کی روح کے خلاف ہیں بلکہ سید الشہداء امام حسینؓ کے پیغام کی صریح خلاف ورزی بھی ہیں۔

ستم بالائے ستم یہ کہ یومِ عاشورہ جیسے مقدس دن پر، جہاں نیک و صالح اعمال اور عبادات کی تلقین کی گئی ہے، وہاں کچھ ناعاقبت اندیش نوجوان ڈھول تاشے بجاتے ہوئے سڑکوں پر ناچتے گاتے نظر آتے ہیں۔خصوصاً کرناٹک اور جنوبی ہند کی بعض ریاستوں میں "پنجے" اور "حسینی علم" کے نام پر تعزیہ داری کی غیر شرعی صورتیں اختیار کی جاتی ہیں۔ ان پنجوں کو سبز کپڑوں میں لپیٹ کر، جلوس کی شکل میں گلیوں، بستیوں اور شہروں میں گھمایا جاتا ہے، اور آخر میں ایک مخصوص مقام پر جمع ہو کر مرد و عورت کا اختلاط، بدتمیزی، آگ میں کودنے، اور روحانی جذبات کے نام پر غیر اسلامی حرکات کی جاتی ہیں۔بعض افراد جنہیں نماز سے دوری، نشے، اور اخلاقی بگاڑ جیسے گناہوں سے بھی شرم نہیں آتی، ان محافل میں شرکت کرتے ہیں، اور ان کے رقص و شور شرابے کو "امام حسینؓ کی سواری" یا "روحِ امامؓ کا نزول" قرار دیتے ہیں— جوکہ جہالت، خرافات اور شیطانی وسوسوں کا نتیجہ ہے۔یہ بات سمجھنے کی ہے کہ کربلا کی عظیم قربانی، امام عالی مقام اور ان کے بہتر جاں نثار رفقا کی شہادت، کسی رسم یا تماشے کے لیے نہیں تھی۔ بلکہ یہ قربانی دینِ اسلام کی بقا، نماز کی حفاظت، اور شریعت کی سربلندی کے لیے تھی، تاکہ یہ دین صحیح اور محفوظ شکل میں قیامت تک آنے والے مسلمانوں تک پہنچے۔

افسوس کہ آج بعض نام نہاد مسلمان شہادتِ امام حسینؓ جیسے عظیم مقام کو تماشہ، رسم و رواج، اور خرافات میں بدل کر دین کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔یہ شعر اس تناظر میں بالکل بجا ہے:

یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے

لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

روافض اور خوارج کی ایجاد کردہ کئی خرافات اور بدعات آج افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ خود مسلمانوں میں رائج ہو چکی ہیں۔ ان میں تعزیہ داری، ماتم، نوحہ خوانی، اور دیگر غیر شرعی رسومات نمایاں ہیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کی نہ قرآن میں کوئی اصل ہے، نہ سنت سے کوئی ثبوت، بلکہ تاریخ کے اوراق میں انہیں روافض کی ایجادات کے طور پر واضح طور پر ذکر کیا گیا ہے۔جیسا کہ مشہور محدث و مؤرخ علامہ ابن کثیر الدمشقی الشافعی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ" :شیعوں نے آلِ بویہ کے دورِ حکومت میں اسلامی ممالک میں عاشورہ کے موقع پر بڑے پیمانے پر خرافات کا آغاز کیا۔ بغداد اور دیگر شہروں میں عاشورہ کے دن ڈھول تاشے بجائے جاتے، گلی کوچوں اور بازاروں میں دھول اڑتی، دکانیں بند ہوتیں، عورتیں چہرے کھول کر باہر نکلتی اور نوحہ و ماتم کرتیں، لوگ سینہ کوبی کرتے اور خود کو طمانچے مارتے۔ عاشورہ کے دن ان تمام ناجائز اور حرام کاموں کا رواج تھا"۔) البدایہ و النہایہ، جلد 8، صفحہ 196، مطبوعہ بیروت(

افسوس کا مقام ہے کہ اہلِ سنت والجماعت کے بعض افراد بھی اب انہی خرافات کو "محبت اہلِ بیت" کا نام دے کر انجام دے رہے ہیں، حالانکہ اہلِ بیت سے سچی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی تعلیمات، سیرت، اور تقویٰ پر عمل کیا جائے، نہ کہ ان کی نسبت سے ایسی رسومات کو فروغ دیا جائے جن کی نہ اسلام میں کوئی بنیاد ہے، نہ عقل و فطرت میں کوئی گنجائش۔علمائے اہلِ سنت ان بدعات و رسومات کے خلاف ہمیشہ سے آواز بلند کرتے رہے ہیں۔ خصوصاً اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمہ اللہ نے ان خرافات کے خلاف واضح اور دوٹوک موقف اختیار کیا۔ آپ نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ "اعلیٰ الإفادۃ فی تعزیۃ الہند و بیان الشہادۃ" تحریر فرمایا، اور "فتاویٰ رضویہ" میں کئی مقامات پر ان بدعات کا مدلل رد فرمایا۔ ایک مقام پر آپ تحریر فرماتے ہیں:     "علَم، تعزیہ، مہندی، ان کی منت، گشت، چڑھاوا، ڈھول تاشے، مجرے، مرثیے، ماتم، مصنوعی کربلا جانا، یہ سب ناجائز و گناہ کے کام ہیں"۔(فتاویٰ رضویہ جدید، جلد 24، صفحہ 496)

آپ کی تحریریں اس بات کی گواہ ہیں کہ آپ نے خالص دینی بنیاد پر، اخلاص و حکمت کے ساتھ ان رسومات کا رد فرمایا، تاکہ اہلِ سنت اپنی اصل پہچان پر قائم رہیں۔ لہٰذا ہم ہندوستان کے تمام مسلمانوں، بالخصوص نوجوانانِ ملت اسلامیہ سے مخلصانہ اور درد مندانہ اپیل کرتے ہیں کہ:

❖ محرم الحرام جیسے مقدس مہینے کو خرافات سے آلودہ نہ کریں۔

❖ حسینیت کے مقدس نام پر شرک، بدعت، اور ناجائز رسومات کو ہرگز نہ اپنائیں۔

❖ عاشورہ کے دن کو تماشہ یا رسم نہ بنائیں بلکہ اسے تقویٰ، نماز، صبر، اور قربانی کا دن بنائیں۔

❖ کربلا سے جو حسین پیغام ہمیں ملتا ہے — یعنی حق گوئی، باطل سے ٹکرا جانے کا حوصلہ، اور دین پر استقامت — اس کو اپنی عملی زندگی کا حصہ بنائیں۔

مسجدوں کو اپنی پیشانیوں سے سجائیے، قرآن کو اپنے سینوں سے لگائیے، نماز کو زندگی کا محور بنائیے، تب دیکھئے کہ کیسے امت میں روحانی انقلاب آتا ہے۔ آج بھی اگر امتِ مسلمہ بیجا رسم و رواج، فرقہ پرستی، اور نت نئی بدعات سے بلند ہو کر خالص دینی مفاد کے لیے متحد ہو جائے، تو طلوعِ سحر زیادہ دور نہیں۔ آئیے! ہم عہد کریں کہ:

???? خرافات سے دور رہیں گے

???? حسینیت کو سمجھ کر اپنائیں گے

???? یزیدیت اور باطل قوتوں کے خلاف کلمۂ حق بلند کریں گے

???? اسلام کے پرچم کو دنیا کے ہر کونے میں بلند کریں گے

اور اسی عزم کے ساتھ ہم اس مضمون کا اختتام مشہور شاعر ساحر لدھیانوی کے اس شعر پر کرتے ہیں:

کچھ اور بڑھ گئے ہیں اندھیرے تو کیا ہوا

مایوس تو نہیں ہیں طلوعِ سحر سے ہم۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter