آقائے دو جہاں ﷺ مفکرین کی نظر میں

اللہ رب العزت نے اپنی تجلئ خاص سے ایک ایسے مقدس نور کو پیدا کیا جس کی روشنی سے آج پورا عالم منور و مجلی ہے۔ وہ ایک ایسی ہستی ہے جوسارے عالم کے لئے رحمت ہیں اور ہماری زندگی کے لئے بہترین نمونہ ہیں۔ وہ اخلاق و شمائل کے بحر بیکراں ہیں۔ ان کی پرواز سدرۃ المنتہیٰ سے بھی آگے ہے، اور ان کا لقب خیر الوری وشمس الضحیٰ بدر الدجیٰ ہیں۔ اس نور کا نام نامی اسم گرامی حضرت محمد مصطفیٰﷺ ہے۔ جس عظیم ہستی پر بیشمار محققین، مفکرین ومدبرین نے خراج عقیدت پیش کیے ہیں۔ وہ سب آپ کے پیشِ نظر عیاں وبیاں ہیں۔

ایڈورڈ گبن طرز تحریر ہے "آقائے دو جہاں ﷺ کی زندگی کی سب سے بڑی کامیابییہ ہے کہ تلوار کو استعمال کیئے بغیر سراسر اخلاقی طاقت و قوت پر مبنی ہے۔ میں صرف خدائے وحدہ اور اس کے حبیبﷺ پر ہی اعتماد رکھتا ہوں۔ خدائے پاک کے رسول اسلام کا ایک آسان اور غیر متزلزل مسلک ہے۔ ان کی اچھے احساس نے شاہی دُلدُل کو ذلت وخوار سمجھی۔ انہوں نے ایوؤں کو دودھ پلائے، اپنے ہاتھوں سے کپڑے صاف کئے"۔ اور مزید بتایا کہ "اسلام کے ذریعہ انہوں نے دس سالوں کے اندر ہی عرب کی سخت دلی، انتقام، انتشار، خواتین کی تنزلی، دشمنی، لاقانونیت، سود، شرابی، قاتلانہ جھگڑا اور انسانی قربانی کے ساتھ ساتھ تمام احمقانہ توہمات اور افواہوں کو ختم کردیئے"۔ ('ہسٹری آف دی سرانس ایمپائر' لندن ١٨٧۰، ص ۵۴،۴۸)

واشنگٹن ارونگ تحریر فرماتا ہے "نبی کریمﷺ خالق کل کے ایسے نبی ہیں جو اپنی خوش اخلاقی کی باعث لوگوں کے دل میں بس گئے تھے۔ انہوں نے دوستوں اور اجنبیوں کا دائمی طور پر خیال رکھے۔ امیر و غریب، خاص وعام، لاغر وعاجز سب انکی نظر میں برابر تھے۔ وہ لوگوں کی تعاون میں ہمہ وقت مشغول رہتے، اور ان کی شکایات کو حل فرمایا کرتے تھے۔ انکے صحابہ کرام جنگی کامیابیوں سے کوئی فخر و ناز نہ کرتے، وہ اپنی عظیم الشان اقتدار کو ایک سادگی سی شکل میں اول تا آخر برقرار رکھے"۔ (لائف آف محمد)

جاہن میڈوس روڈویل (مترجم قرآن) نے لکھا ہے "سرکار دوعالم ﷺ کا کیریئر اور انکی زندگی صبر و تحمل کا بہترین نمونہ ہے، جن کو پورے عالم اسلام میں مثال دی جاتی ہے۔ وہ خدائے وحدہ لاشریکہ کا پیروی کار ہے۔ وہ ان لوگوں کی فہرست میں اول منصب پر فائز ہے جو حق عقیدے اور اچھی اخلاقیات کا پیروی کار ہیں۔ وہ ابتدائی زندگی سے آخری دم تک ایک معمولی سی زندگی بسر کی، پوری عمر میں خداۓ مجازی کی خواہش نہ کی۔ انہوں نے مردہ دل کو روحانیت کی جان بخشی ہے"۔

جاہن ولیم ڈریپر رسم الخط ہے "آسٹینین اول کی موت کے چار سال بعد ۵۹۶ء سر زمین مکہ مکرمہ میں ایک شخص پیدا ہوا جس نے تمام شخصیات پر فوقیت حاصل کی اور بنی آدم کے لئے پیغام وحدانیت کا اثر جھوڑا ہے تو وہ باوقار رسول خدا حضرت محمد ﷺ ہے"۔ ('اے ہسٹری آف دی انٹلکچول ڈیویلپمنٹ آف یورپ' لندن ۱۸۵۷، ص ۳۲۹)

الفاونس ڈی لامارٹائن آپ ﷺ کے بارے یوں رطب اللسان ہے "آقائے نامدار ﷺ ایک فلسفی، داعی، مبلغ، قانون ساز، سپہ سلار، فاتح نظریات، اور ایک روحانی سلطان ہے۔ انہوں نے دنیا کی کل آبادی کے ایک تہائی کو یکجا کردیا، ہم تمام معیارات کے لحاظ سے لوگوں سے پوچھ سکتے ہیں کہ کیا کوئی انسانی عظمت کی پیمائش ان سے کی جاسکتی ہے؟ کیا ان سے بڑا دوسرا کوئی ہے؟" ('ہسٹری دی لا ٹورق' پیرس۱۸۵۴، ص ۲۷۶)

عظیم جرمنی شاعر اور مفکر جاہن وولف گینگ گوئٹ قلمبند کیا ہے "خدائے پاک کے حبیبﷺ شاعر نہیں ہے وہ ایک پیغمبر اسلام ہیں۔ اور جو مقدس آسمانی کتاب (قرآن کریم) ہمارے پاس لائے ہیں وہ خدائی احکام و قوانین کا مجموعہ ہے۔ یہ وہ کتاب نہیں جسے کسی انسان نے لطف لینے کیخاطریا مجموعی علم کو یکجا کرنے کی خاطر لکھا ہو"۔

برطانوی ادیب جارج برنارڈ قلم دراز ہے "میں نے حبیب خدا ﷺ کے مذہب کی حیران کن استقامت کی بنا پر ہمیشہ تعظیم کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ وہ واحد مذہب ہے جس میں ایمان کی گہرائی پائی جاتی ہے اور یہی چیز لوگوں کے لئے دلکش ثابت ہوئی ہے۔ قرون وسطٰی میں نفرت کی بنا پر اسلام کو روشنی سے اندھیرے میں دھکیلنے کی کوشش کی گئی تھی۔ انہیں انسانیت کے لئے نجات دہندہ کہا جا سکتا ہے۔ مجھے یقین ہےکہ اگر آج کی دنیا کی قیادت کرنے کے لئے کوئی ایسا شخص ہوتا جیسے وہ تھے تو وہ تمام عالمی مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہو جاتا۔ اور ہم بالآخر خوش وخرم کے ساتھ آفاقی فضا میں زندگی بسر کر رہے ہوتے۔ میں سید الثقلینﷺ کے مذہب کے بارے میں پیشین گوئی کرنا چاہتا ہوں کہ آج جسے یورپ کہتے ہیں وہاں یہ پھیل جائیگا"۔ اور آج یہیورپ کے لئے قابل قبول ہونا شروع ہوگیا ہے اور انکی معاشرے پر اسلام کے غلبے کا آغاز ہو چکا ہے۔ ('د جینین اسلام' جلد ۱، نمبر۸۱۹۳۶)

دیوان چندشرما کا کہنا ہے "حضور پر نور ﷺ انسانیت کی روح ہے اور ان کے احساسات ناقابلِ فراموش ہے۔ وہ ایک عام مشن کے حامل شخص ہے، جو اللہ وحدہ کی عبادت پر انسانوں کو اتحاد کرتا ہے، اور اسی کی عبادت پر قائم رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ علاوہ ازیں اس ذات باری کی عزت و آبرو کا طور وطریقہ سیکھاتا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ لوگوں میں خدا کے خدمت گار اور رسول خدا کی توثیق کی، اس لئے ہمیں ضرورت ہے کہ اس کے دعوے پر ہم عمل کریں"۔ ('د پروفیٹ آف ایسٹ' ۱۹۳۵، ص ٢٢)

جولس مسرمان کا نظریہ ہے "لوگ پہلے احساسات میں 'لوئس پاسٹر' اور 'جوناس سالک' کو قائد کی حیثیت سے متعارف تھے۔ بعد ازاں ایک طرف 'گاندھی' اور دوسری طرف 'کنفیوشس' جیسی ہستیوں کو لوگ رہنما سمجھ بیٹھے۔ اور تیسرے احساسات میں سکندر کسریٰ کو رہبر انسانیت ماننتے تھے۔ مگر ہمہ وقت کے سب سے بڑے رہنما شاہ جود و سخا ﷺ ہیں۔ جنہوں نے تمام قائدین پر فوقیت حاصل کی ہے"۔

ریجنالڈ بوسورتھ اسمِتھ کا غور وخوض ہے "رسول خدا شاہ امم ﷺ کے مستقل فوج تھی، نہ اس کا کوئی محافظ، نہ عیش و عشرت کے لئے محل، نہ مقرر محصول، وہ حکم الہٰی کے ذریعہ حکمرانی کرتا تھا تو وہ ساقئ کوثر ﷺ کی بابرکت ذات ہے، کیونکہ ان کے پاس ساری طاقت آلات کے بغیر تھی۔ انہوں نے طاقت کے لباس کی پرواہ نہ کی۔ ان کی نجی زندگی سادگی سی عوامی زندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے تھی"۔ ('محمد اینڈ محمدانزم' لندن ۱۸۷۴، ص ۹۲)

میجر اے لیونارڈ شاہ بحر وبر ﷺ کے بارے میںیوں روداد بیان کیا ہے "کسی نے اس مقدس زمین پر خدا کو پایا اور اس کی خوشنودی کے لئے اپنی پوری زندگی وقف کی ہے تو بلا شبہ وہ ہستی عرب کے نبی پاکﷺ ہے"۔ ('اسلام، اٹس مورال اینڈ اسپریچول والوز' لندن ۱۹۰۹، ص ۹)

مورس بوکیلیوں قائل ہے "نور پر نور ﷺ کی باتیں متاثر کن ہوا کرتی تھی جس کی باعث سامعین کا دل بغض و کینہ سے پاک و صاف ہو جاتی تھی۔ صرف اسی وجہ سے انہوں نے وحشی عربی قبائل سے ایک مہذب قوم کی تشکیل دی، جو آج دین اسلام کے نام سے مشہور ہے"۔ ('د بائبل، د قرآن اینڈ سائنس' ١٩٧٨، ص ١٢٥)

تھامس کارلائل کا خیال ہے "یہ الزام بڑی شرم کی بات ہے کہ اسلام ایک جھوٹ ہے، اور سلطان عرب ﷺ ایک (نعوذباللہ) من گھڑت اور دھوکہ باز ہے۔ میں نے دیکھا کہ وہ اپنے اصولوں پر ثابت قدم ہے۔ وہ ایک مہربان، سخی، ہمدرد، متقی، نیک، محنتی اور مخلص ہے۔ ان تمام خوبیوں کے علاوہ وہ دوسروں کے ساتھ نرمی، بردباری، نرم مزاج، خوش طبعی سے پیش آیا کرتے ہیں۔ وہ اپنے دوستوں احباب سے بہت کم ہنسی مذاق کرتے ہیں۔ وہ انصاف پسند اور سچائی کے قائل ہیں۔ ان کا چہرہ چمکدار ہے۔ وہ فطرت کے لحاظ سے غیر محتاج ہستی ہے جن کو کبھی اسکول، نہ استاد کی ضرورت پڑی، وہ کسی بھی کام میں کسی انسان کی تعاون و امداد سے بےنیاز ہیں"۔ (آن ہیروس، ہیرو ورشپ اینڈ د ہرایک ان ہسٹری)

ولیم مونٹگمری واٹ یوں لب کشائی ہے "سرکار دو عالم ﷺ اپنے اعتقادات مقدس پر اعتصامیت کے ساتھ اول تا آخر قائم رہے۔ وہ ایک اخلاق و شمائل کے بہترین نمونہ ہے۔ لوگوں میں ایک لیڈر کی حیثیت سے پسند کیے جاتے ہیں، ان کو بہت اذیت دی گئی پھر بھی اپنے کاموں کو آگے جاری و ساری رکھیں۔ تاریخ کے عظیم اعداد وشمار میں آج تک یورپ میں ان جیسا نہیں آیا، ان کی تعریفیں ہر سوں کی جاتی ہے اس کے علاوہ ہم ایمانداری اور مقصد کے استحکام کے ساتھ شہ کون ومکاں ﷺ کو کریڈٹ کرتے ہیں"۔ ('محمد اٹ مکہ' آکسفورڈ ۱۹۵۳، ص ۵۲)

ایس. پی. سکاٹ کا تفکر ہے "اگر مذہب کا مقصد اخلاقیات کی آمیزش، برائی کا خاتمہ، انسانی خوشی کو فروغ دینا، انسانی عقل کی وسعت دینا ہے، تو سب سے پہلے ہمیں اچھے کاموں کا انجام دینا ہوگا کیونکہ اس کا ایک دین حساب و کتاب لیا جائے گا۔ اور اس بات میں کوئی اعتراض نہیں ہے، حضرت محمد ﷺ حقیقتاً خدا تعالیٰ کا رسول ہیں"۔ ('ہسٹری آف د مورش ایمپائر ان یورپ' ص ۱۲۶)

جے. ایچ. ڈینیسن کا خراج تحسین ہے "پانچویں کی آخر اور چھٹی صدیوں کی ابتدائی میںیہ مہذب تمدن انتشار کی دہلیز پر قدم رکھ چکی تھی۔ وہ پرانی اسرائیلی جذباتی ثقافتوں نے اسے دفن کرنے پر آمادہ ہوگئی تھی۔ تب ایسا معلوم ہورہا تھا کہ اب نوع انسانیت بربریت کے جال میں جکڑ جائیگا جہاں ہر قبیلہ اور فرقہ ایک دوسرے کی خلاف ورزی کر کے اپنا اپنا دم گھٹ دینگے۔ اور عیسائیت کے ذریعہ جو نئی پابندیاں عائد کی گئی تھی وہ اتحاد وامان کے بجائے تقسیم اور تباہی پیدا کررہی تھی۔ اس وقت قبیلہ بنی ہاشم میں مکی مدنیﷺ کی پیدائش ہوئی جو مشرق و مغرب کے لوگوں کو راہ راست پر لاکر روحِ انسانیت کی جان بخشی"۔ ('ایموشنس اث د باسيس آف سویلیزیشن' ص ١٦٥)

ڈاکٹر کیتھ ایل. مور کی کتابت ہے "اللہ رب العزت جو مقدس آسمانی کتاب شاہ کونین، فخر کائیناتﷺ پر نازل کی ہے وہ نوع انسانیت کی فلاح و بہبودی کے لئے ہے۔ اسی کے احکام و مسائل کو نبی کریمﷺ خلوصِ قلب لوگوں تک پہنچائی اور وہ ایک خدا کے رسول تھے"۔

سر ولیم مایر ایک مستشرق ہے جس نے آپ ﷺ کی ذات بابرکات کے حوالے سے کافی مخالفت کی باتیں بھی کہی ہے۔ وہ رسول مآب ﷺ کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کچھ ایسے الفاظ میں کرتا ہے "تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ مختار کل ﷺ کے اندر ایک قابل حکمران کی تمام صلاحتیں موجود تھی"۔ ('د لائف آف محمد' جلد ۴ لندن ۱۸۶۱، ص ۵۱۳)

پرنگل کینیڈی نے مشاہدہ کیا ہے "دافع رنج و الم ﷺ کی حیرت آفرین کامراروں و کامیابیوں کو سمجھنے کے لئے ہمیں ان کی کارہائے خیر کو مطالعہ کرنا ہوگا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساڑھے پانچ سو صدی بعد ان کی پیدائش ہوئی۔ اس وقت یونان اور بحیرہ روم کی اطراف ایک سو ریاستوں میں کئی معبود کو لوگ عبادت کر رہے تھے۔ مشرقی مذاہب اور توہم پرستی نے رومن دنیا میں فتنہ وفساد برپا رہی تھی، اس پرفتن دور میں نبی حرمینﷺ کی آمد ہوئی اور تمام خلفشاری کو ختم کی اور عربوں کے لئے ایک ازلی آفتاب طلوع ہوئی"۔ ('عربین سويلیزیشن اٹ د ٹائم آف محمد' ص ۸,۱۰)

گاندھی جی کا خراج عقیدت ملاحظہ کیجئے "مجھے پہلے سے زیادہ اس بات کا یقین ہوگیا کہ زندگی کی سازش میں وہ تلوار نہیں تھی، جس کی باعث اسلام نے ایک مستقل مقام حاصل کیا ہے۔ یہ سیاح لامکاں ﷺ کی سخت سادگی، ان کی خودمختاری، ان کے لئے رفقاء کا غیر متزلزل احترام، اپنے دوستوں اور پیروکاروں کے ساتھ ان کی شدید عقیدت ومحبت، ان کی خوبیاں، اور بیباکیاں، خدائے پاک اور اپنے مشن پر پیغمبر اسلام ﷺ کو مکمل اعتماد و بھروسہ تھا"۔ (آنگ انڈیا۱۹۲۴)

مشہور مصنف مائیکل ایچ ہارٹ رقمطراز ہے "ممکن ہے کہ انتہائی متاثر کن شخصیات میں رؤف الرحیمﷺ کا شمار سب سے پہلے کرنے پر کچھ لوگ حیران ہونگے اور کچھ اعتراض کریں، لیکنیہ وہ واحد تاریخی ہستی ہیں جو کہ مذہبی اور دنیاوی دونوں محاذوں پر یکساں طور پر کامیاب رہے ہیں"۔ ('١٠٠ اے رانکینگ آف ماسٹ انفلینجیل پرسنز ان ہسٹری)

پروفیسر کرشنا راؤ نے اللہ کے رسول ﷺ سے متعلق متعدد الزامات کی تردید کی ہے، مثلا یہ الزام کہ محمد ﷺ نے اسلام کو شمشیر کے ذریعہ پھیلا۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسے الزامات کی حیثیت ادبی اعجوبہ کاری سے زیادہ کچھ نہیں۔ انہوں نے شافع روز محشر ﷺ کی تعلیمات میں جمہوریت اور مساوات کو خوب سراہا ہے۔ بارہ صدی کے بعد انگلینڈ نے (جو جمہوریت کا مرکز کہلاتا ہے) عورتوں کے حقوق میراث میں قانونی شکل دی، جب کہ سینکڑوں سال قبل سردار دو عالم ﷺ نے عورتوں کو مردوں سے ثلث حق میراث دلوایا تھا"۔ ('محمد: د پروفیٹ آف اسلام' ص ۱۱)

ڈاکٹر این. کے. سنگھ کی نوشت ہے "حضرت محمد ﷺ پیغمبر کا نام ایک جدید عہد کی تعمیر کے لئے جانا جاتا ہے۔ مذہبی حلقوں کے درمیان اس غیر معمولی شخص کا کردار بالکل صاف و شفاف ہے۔ شہ ابرار ﷺ بہ حیثیت انسان فوت ہو چکے ہیں، لیکن بہ حیثیت پیغمبر انہوں نے اپنے پیچھے قرآن و سنت کی شکل میں اثاثہ چھوڑے ہیں۔ جو تعلیمات انہوں نے ہمارے واسطے چھوڑی ہیں اگر ان پر صدق دل کے ساتھ عمل کیا جائے تو اس دنیا میں ایک خوش گوار زندگی حاصل ہو سکتی ہے۔ اسلام اس دنیا کا ایک عملی مذہب ہے جو انسانیت کے دنیاوی مسائل سے دل چسپی لیتا ہے اور حل پیش کرتا ہے"۔ ('پروفیٹ محمد اینڈ حس کمپینس' مقدمہ ص۵،۶)

سرولیم میود بلا تکلف اس حقیقت کا اعتراف کر رہا ہے "تعلیم نبویﷺ نے ان تاریکی توہمات کو ہمیشہ کے لئے جزیرہ نمائے عرب سے باہر نکال دیا جو صدیوں سے اس ملک پر چھائی ہوئی تھی۔ بت پرستی نیست و نابود ہوگئی، توحید اور اللہ کی بے پناہ رحمت کا تصور سید کونینﷺ کے متبعین کے دلوں میں گہرائیوں اور زندگی کے اعماق میں جا گزیں ہوگئی، معاشرتی اصلاحات کی بھی کوئی کمی نہ رہی۔ ایمان کے دائرہ میں برادرانہ محبت، یتیموں کی پرورش، غلاموں سے احسان ومروت جیسے جوہر نمودار ہوگئ۔ امتناع شراب میں جو کامیابی اسلام نے حاصل کی اور کسی مذہب کو نصیب نہیں ہوئی"۔ (لائف آف محمد)

 

کیرن آرمسٹرانگ طغر الخط ہے "جب رسول اکرم ﷺ نے اپنے مشن کا آغاز کیا تو ناممکن تھا کہ کوئی آپ ﷺ کو اپنے مشن پر کام کرنے کا موقع فراہم کرینگے۔ عرب قوم توحید کے لئے با لکل تیار نہ تھی در حقیقت اس تشدد اور خوف ناک معاشرہ میں اس نظریہ کو متعارف کروانا انتہائی خطرناک تھا، حقیقتاً سرور کائنات ﷺ کی جان خطرہ میں گھری رہی اور ان کا بچ جانا واقعتا ایک معجزہ تھا"۔ ('اے باگرافی آف دی پروفیٹ محمد' ص۵۳، ۵۳)

راجیندر نارائن لال تحریر فرمایا ہے "رحمت انسانیتﷺ نے اپنی ساری زندگی انتہائی سادگی کے ساتھ گزاری، آپ کسی امتیاز کے بغیر سبھی مذاہب اور طبقات کے لوگوں کے خیر خواہ تھے۔ وہ اس قدر سخی تھے کہ قرض لے کر بھی دوسروں کی ضرورتیں پوری کر دیتے تھے۔ آپ کے اندر کسی طرح کی بھی اخلاقی برائی نہیں پائی جاتی تھی۔ آپ سراپا صداقت، امانت، پاکیزگی، رحم وکرم اور امن و سلامتی کے پیامبر اور سخاوت و رحمت کا مظہر جمیل تھے۔ صرف دوسروں کی بھلائی اور خیر خواہی کے لئے زندہ رہے۔ آپ کی نیکی کی کوئی حدنہ تھی محنت و مشقت کی عظمت کے لئے دوسروں میں مساوات، بھائی چارہ اور ہمدردی کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے، آپ نے جنگ اور امن کسی بھی حالت میں ایسا کام نہ کیا جس کی وجہ سے لوگ آپ کو دوسروں سے ممتاز سمجھیں۔ آپ جنگ اور امن میں حیرت انگیز طور پر رحم دل اور درگزر کرنے والے تھے"۔ ('اسلام: ایک سویم سدھ ایشوریہ جیون ویوستھا' ص ۳۲)

ڈاکٹر ڈی. رائٹ یوں رسم الخط ہے "سرور کائنات ﷺ صرف اپنی ذات و قوم ہی کے لئے نہیں بلکہ دنیائے اسلام کے لئے ابر و رحمت تھے۔ تاریخ میں کسی ایسے شخص کی مثال موجود نہیں جس نے احکام خداوندی کو اس قدر مستحسن طریقے سے انجام دیا ہوں"۔ ('اسلامیک ریویو اینڈ مسلم انڈیا' فروری۱۹۲۰ء)

ایس. ٹی. پال جو نظریۂ عیسائیت کے بانی اور بنیادی مبلغ ہیں وہ لکھتا ہے "نور مجسم ﷺ نے نظریۂ اسلام اور اس کے آداب و اخلاقی اصولوں کی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشرہ میں نئی روح پھونکنے اور اپنے عمل کے ذریعہ دین قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا"۔ (نیو ٹیسٹا منٹ)

نپولین بونا پارٹ اس طرح سے اظہار خیال کرتا ہے "تاجدارِ انبیاءﷺ نے اہل عرب کو اتحاد کا درس دیا۔ ان کے باہمی جھگڑے ختم کئے، تھوڑی سی مدت میں ان کی امت نے نصف صدی سے زیادہ دنیا کو فتح کی۔ پندرہ برس کے مختصر عرصے میں عرب کے لوگوں نے بتوں اور جھوٹے خداؤں کی پرستش سے توبہ کر لی۔ مٹی کے بت مٹی میں ملا دیئے گئے ۔یہ حیرت انگیز کارنامہ محمد ﷺ کی تعلیمات اور ان پر عمل کرنے کے سبب انجام پایا ہے"۔ ('کرسچن چرفیلس: بونا پارٹ اینڈ اسلام' فرانس ۱۹۱۴، ص ۱۰۵، ۱۲۵)

مصنفہ اینی بسنت اپنی عقیدتیو اظہار کرتی ہے "جو کوئی بھی باوقار نبی کریمﷺ کی زندگی اور کردار کا مطالعہ کرتا ہے، وہ جانتا ہے کہ اس نے کس طرح ہمیں تعلیم دی اور وہ کس طرح کی زندگی بسر کی ہے۔ وہ معصومین رسول خدا میں سے ایک ہے۔ اور میں جو باتیں آپ کو اوپر بتائی ہوں شاید اسے بہت سے لوگ جانتے ہونگے، لیکن جب بھی میں ان کی زندگی کے کارہائے خیر کو دوسری مرتبہ پڑھتی ہوں تو ان کی تعریف وتوصیف کی ایک نئ طریقہ اور اس عبقریت معلم کے لئے ایک انوکھی حرمت وعزت کا احساس کرتی ہوں"۔ ('د لائف اینڈ ٹیچنگ آف محمد' مدراس ۱۹۳۲، ص ۴)

معزز قارئین آپ لوگوں کو معلوم ہو گیا ہوگا کہ جب غیر اللہ بھی سید المرسلینﷺ کی ذات بابرکات کو پڑی جوش وخروش کے ساتھ اعتراف کر رہے ہیں۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم محبوب ربِ کریمﷺ کی تعلیمات پر دل وجان سے عمل کریں تاکہ دنیاوی و اخروی دونوں محاذوں مین کامیاب و کامران ہوسکیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عاشق رسول بنائیں، آمین بجاہ سید المرسلین۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter