فلم ادے پور فائلز: آئینی ڈھانچے پر کھلا وار ہے
دس بارہ سالوں سے ہمارے ہندوستان میں منافرت اور فرقہ واریت کی سیاست چل رہی ہے۔ ملک کے ایوان سے لے کر سینما ہال تک اسی فرقہ پرست عفریت کا جادو چل رہا ہے۔ ملک کا اکثریتی طبقہ اقلیتی طبقہ کو نشانہ بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتا بالخصوص مسلمان اس سیاسی منافرت اور فرقہ وارانہ تشدد کے شکار ہیں۔ مرکزی حکمران سے لے کر ریاستی وزراء تک اسی کام میں مصروف ہیں اور اس کی پشت پناہی کررہے ہیں۔ پرانے زمانے میں فلمیں اکثر سماجی مسائل پر بنتی تھیں۔ جس میں سماج اور سوسائٹی کے لیے ایک خاموش پیغام رہتا تھا۔ اکثر فلموں میں قومی یکجہتی اور ہم آہنگی کو دکھایا جاتا تھا۔ فلموں کا ایک مقصد تفریح entertainment بھی رہتا تھا۔ لیکن زمانے کے گردش کے ساتھ اس کے مقاصد اور اس کے محور بھی بدل گئے۔ جب سے ہندوستان میں بی جے پی کی حکومت برسر اقتدار ہوئی تب سے ملک بھر میں منافرت اور فرقہ پرستی کو فروغ دیا جارہا ہے۔ اسی کی ایک کڑی کہئے کہ پانچ چھ سالوں سے جو فلمیں بنائی جارہی ہیں اس کی بنیاد مسلم دشمنی پر رکھی جاتی ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسلام سے جڑے ہوئے مقدسات جیسے مساجد، مدارس دینیہ، مذہبی تنظیمں اور درگاہوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
آج ادے پور فائلز تو اس سے پہلے دی کشمیر فائلز، کیرالا اسٹوری، 72حوریں، اجمیر 92 جیسی نفرت آمیز فلمیں بنائی گئیں اور پورے ملک میں دکھائی بھی گئیں۔ ملک بھر سراپا احتجاج کے باوجود یہ فلمیں ریلیز بھی ہوئیں۔ غلطی صرف ان فلموں کے ھدایت کاروں یا پروڈیوسرس کی نہیں بلکہ ملک کے سنسر بورڈ کی بھی ہے جو ان جیسے فلموں کو سرٹیفکیٹ جاری کرتی ہے۔ بھارتیہ حکومت کی نگرانی میں یہاں کے عوامی امن کو برقرار رکھنے کے لیے سنٹرل بورڈ آف فلم سرٹیفیکیشن (Central Board of Film Certification) بھی قائم ہے۔ جو ایک قانونی فلموں کی زمرہ بندی کرنے والا بھارت کا واحد ادارہ ہے جو ملک کی اطلاعات اور نشریات کی وزارت کے تحت کام کرتا ہے۔ یہ ادارہ سنیما گھروں اور ٹی وی پر دکھائے جانے والے فلموں کو صداقت نامے جاری کرتا ہے۔ بورڈ فلموں کو صداقت نامے دینے سے انکار بھی کر سکتا ہے، اگر وہ فلمیں عوامی مفاد یا ملکی مفاد کے خلاف ہوں، ان سے نقض امن کا خطرہ ہو یا کوئی قانون کی کھلی ان دیکھی ہو۔ لیکن یہ سب باتیں اب کاغذی اصول اور ضوابط رہ گئے ہیں۔
جب سے اس متنازع فلم کا ٹریلر ریلیز ہوکر سوشیل میڈیا پر اپلوڈ ہونے لگا ہے تب سے ملک کے چاروں طرف سے صدائے احتجاج بلند ہونے لگیں ہیں اور جمعیت علماء ہند کی جانب سے اس فلم کی پابندی پر عدالت سے رجوع کرتے ہوئے عرضیاں بھی داخل کی گئی ہیں۔ اس متنازعہ فلم کا مختصر پس منظر یہ ہے کہ ادے پور کا ایک درزی کنیہا لال کمار نے خبیث ترین عورت نوپور شرما کے سید الکائنات محبوب رب العالمین سرکار دوعالمﷺ اور کائنات کی معزز ترین عورت ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ طاہرہ مرضی اللہ عنہا کے خلاف جو ہفوات اور دریدہ دہنی کی تھی اس کی سوشیل میڈیا پر کھل کر تائید کی اور اس سے متعلق پوسٹ وائرل کیا تو دو مسلمان پتہ نہیں ان کے پیچھے کیا عوامل کارفرما تھے اور ان کو کس نے اکسایا تھا کنہیا لال کی دکان پر پہونچ کر اس کو قتل کردیتے ہیں اور اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر ڈالتے ہیں۔ اسی کو بنیاد بناکر فلم بنائی گئی۔ مزید برآں یہ کہ فلم کے ٹریلر میں گستاخ رسول ﷺ بدنام زمانہ خاتون بی جے پی لیڈر نپور شرما کا وہ متنازع اور گستاخانہ بیان شامل کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ملک بھر میں فرقہ وارانہ ماحول خراب ہوا، بین الاقوامی سطح پر بھارت کی شبیہ متاثر ہوئی اور دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات پر بھی منفی اثر پڑا۔ ساتھ ہی ساتھ گیان واپی شاہی مسجد جیسے حساس مسئلہ کو بھی شامل کیا گیاہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ دارلعلوم دیوبند اور جمعیت العلماء ہند کو بھی بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔ ملک بھر کے کئی سارے نامور علماء ومسلم قائدین کے شخصیات کو مجروح کرنے کی سازش بھی رچی گئی ہے ۔ یہ پوری فلم مسلمانوں کے خلاف مبینہ سازش اور خفیہ ایجنڈہ ہے جس کے ذریعے سادہ لوح ہندو بھائیوں کے دل میں مسلمانوں کے تئیں نفرت کا بیج بویا جارہا ہے۔ بھلے یہ مسلمانوں کو بدنام کرنے کی سازش ضرور ہے لیکن ساتھ ہی یہ دستور ہند کے آرٹیکل اور دفعات کے عین مخالف عمل بھی ہے۔
جس طرح یہ فلم اسلام اور مسلمانوں کے خلاف گہری سازش کا نتیجہ ہے اسی طرح یہ فلم بھارت کے آئین و دستور کے عین مخالف بھی ہے۔ ہندوستانی آئین کے دفعہ 14 سب کو برابری کی ضمانت دیتا ہے۔ دفعہ 15 مذہب، نسل یا ذات کی بنیاد پر امتیاز کو سراسر غیر آئین قرار دیتا ہے۔ دفعہ 19 ہر شہری وباشندہ کو اظہارِ رائے کی آزادی فراہم کرتا لیکن اس شرط پر کہ اس اظہارِ رائے سے کسی کی عزت وناموس، قومی سالمیت یا مذہبی جذبات مجروح نہ ہوں، تاکہ ملک کی سالمیت، امن عام اور دوسرے افراد و باشندگان کی عزت وعصمت محفوظ ومامون رہے۔ اور یوں ہی دفعہ 21 ہر شخص کو وقار کے ساتھ جینے کا بنیادی حقوق فراہم کرتا ہے۔ جبکہ یہ دل آزار فلم ادے پور فائلز مذکورہ بالا تمام دفعات کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ اس گستاخ آمیز فلم کی حمایت کرنے والے فرقہ پرست گروہ آزادی اظہارِ رائے کے نام پر ایک خاص مذہبی طبقے کی عزت، وقار، مذہبی جذبات اور ان کی مذہبی شناخت وتشخص پر حملہ کررہے ہیں۔ یہ ایک مخصوص سماج کی عزت وناموس کو مجروح کرنے کے ساتھ ملک کے امن عامہ کو خطرے میں ڈالنے کی کھلی سازش بھی ہے۔ لہذا ہم مرکزی حکومت اور سنسر بورڈ کے ذمہ داروں سے درد مندانہ اپیل کرتے ہیں کہ ان جیسے نفرت آمیز اور فرقہ واریت کو فروغ دینے والی فلموں پر قدغن لگائے اور فرقہ پرست ھدایتکاروں اور فلم پروڈیوسروں پر سخت قانونی کاروائی کریں تاکہ آئندہ کوئی ایسی جرأت نہ کریں۔ خدا کرے کہ ہمارے ملک میں گنگا جمنی تہذیب قائم رہے اور قومی یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ دینے کے ہم سب کوشاں رہیں خدا ہمارے ملک کے امن عامہ ، سالمیت اور جمہوریت کی حفاظت فرمائے۔ آمین!