سونے چاندی کی زکوٰت

            ارکان اسلام کا تیسرا مال و سال سے مربوط اہم فریضہ جس سے کئی اہل ایمان غافل اور بے پرواہ ہیں، شہادتِ وحدانیت کے علاوہ شریعت کا مشروع کردہ  عملی ارکان میں مالی عبادت زکوٰت ہی وہ رکن واحد ہے جسے غیر ممتدہونے کا شرف حاصل ہے ان کے علاوہ بقیہ تینوں عملی ارکان نماز،روزہ، حج ممتد ہیں۔ اس کا غیرممتد ہونا اس کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے ساتھ ہی اس کی نزاکت کی دلیل ہے۔ شریعت مطہرہ نے نماز اور زکوٰت پر خصوصی توجہ دلائی ہے کہ نماز بارگاہ ایزدی سے حصول رزق کا طریقہ ہے اور زکوٰت حاصل شدہ رزق زائد کو دوسرے حاجت مندوں تک پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ بایں معنی زکوٰت ادا کرنے والے رزق تقسیم کرنے والے فرشتوں کے مثل ہیں۔جس اہل ایمان کے قبضے میں درجہئ فقر سے زائد رزق ہوں ان پر لازمی ہے کہ وہ خدا او ربندے کا حق ادا کرے یعنی زکوٰت ادا کرے۔ اس کی فرضیت دلیل قطعی قرآن سے ثابت ہے۔ رب کائنات کا فرمان ہے   (وآتوا الزکاۃ)   (البقرۃ:43)  ترجمہ: ’اور تم زکوٰت ادا کرو‘۔ لہذا ہر عاقل بالغ آزاد صاحب نصاب مسلم کے مال پر کلی ملکیت کے ساتھ مکمل ایک سال گزر جانے پر زکوٰت فرض ہو جاتی ہے۔خواہ درمیان سال نصاب میں کمی یا بیشی واقع ہوئی ہو۔یعنی وجود نصاب کے وقت سے لے کر ادائیگی زکوٰت کے مابین مکمل ایک سال کا عرصہ ہو خواہ اس ایک سال کے دوران نصاب میں کمی واقع ہوئی ہو یازیادتی۔ بایں معنی فرضیت زکوٰت کے لئے یہ شرط ہے کہ سال کی ابتداء اور انتہاء میں نصاب کامل ہو۔فرضیت زکوٰت کا سال وجود نصاب سے شروع ہوتا ہے، نا کہ کسی شمسی یا قمری جنتری کے ماہ اول کی ابتدا سے۔ مثلا شمسی جنتری کے مطابق اگر کوئی شخص ماہ جون 2018؁ء کے ایک تاریخ کو مالک نصاب بن گیا تو اس مال پر مکمل ایک سال کا عرصہ گزرنے تک زکوٰت فرض نہیں ہوگی یعنی اگلے سال ماہ جون 2019؁ء  کے ایک تاریخ ہی کو اس پر زکوٰت فرض ہوگی اس کے بعد زندگی میں کبھی بھی ادائیگی زکوٰت ممکن ہے۔ وجوب زکوٰت کا حساب کسی بھی شمسی یا قمری ماہ و سال سے کیا جا سکتاہے۔

            شریعت مطہرہ نے چاندی کو نقدی رقم درہم متصور کیا ہے مگر سونے کو نقدی رقم دینارکے ساتھ ساتھ وزنی ثمن بھی قرار دیا ہے اس لئے اس کا نصاب بیس مثقال مقرر فرمایا جو کہ ایک وزن ہے۔مگر دور حاضر میں دنیا کے کسی بھی ملک میں موجودہ رائج نقد بعینہ سونا چاندی نہ ہونے کی وجہ سے خواہ درہم و دینار کے نام سے موسوم ہوں دراصل حقیقی چاندی کے درہم یا سونے کے دینار کی ثمنیت کا حامل نہیں لہذا موجودہ رائج غیر حقیقی ثمن کی مالیت سونا چاندی کے نصاب کو پہنچ جانے پر ہی زکوٰت فرض ہوگی۔ مزید یہ کہ اس زمانے میں سونے اور چاندی کے حقیقی درہم و دینار کا چلن مفقود ہونے کے سبب رائج الوقت کاغذی نقد درہم و دینار کو حقیقی درہم و دینار کا نائب اور مساوی ثمن قرار نہیں دیا جا سکتا۔  ایک تو یہ کہ وہ حقیقی ثمن نہیں ہے دوسرا یہ کہ کاغذی نقد کی ثمنیت ہر آن مساوی او ر یکساں نہیں ہوتی بلکہ چڑھتی اترتی رہتی ہے۔ بایں سبب ضروری ہے کہ چاندی کے نصاب کی پیمائش مقدار درہم کے بجائے میزان نصاب میں پھیر دیا جائے۔ اس کے لئے یہ پتا ہونا ضروری ہے کہ درہم کا وزن کتنا ہوتا ہے تاکہ چاندی کا نصاب بحیثیت وزن با آسانی معلوم کیا جاسکے۔ نبوی دور میں چاندی کے درہم وزن کے اعتبار سے تین طرح کے ہوتے تھے:

(قسم   اول)             دس درہم دس مثقال کے برابر              (ایک درہم مساوی  ایک مثقال)

(قسم   ثانی)           دس درہم چھ مثقال کے برابر           (ایک درہم مساوی تین خمس مثقال)

(قسم ثالث)            دس درہم پانچ مثقال کے برابر              (ایک درہم مساوی  نصف مثقال)

لوگ انہی سے اپنے تجارتی معاملات انجام دیا کرتے تھے لیکن جب عمر فاروق رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو انہوں نے لگان کی وصولی اکثریت یعنی قسم اول سے کرنے کا ارادہ فرمایا تب لوگوں نے ان سے تخفیف کی مانگ کی۔اس وقت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانے کے پیمائشی اوزان کو جمع فرمایا تاکہ تمام دراہم،عمر فاروق کی منشا اور رعایا کی عرضی کے مابین توسط اور توافق پیدا کیا جاسکے۔تب لوگوں نے ان کے لئے ایک نیا وزن مناسب پایادس درہم مساوی سات مثقال بطور لگان۔ (باب زکوٰت المال: فصل فی الفضۃ:حاشیۃ الہدایۃ بحوالہ العنایۃ)

درحقیقت درہم و دینار کا تعلق ثمن حقیقی سونا اور چاندی سے ہے جو کہ شریعت کی مراد بھی ہے نا کہ محض درہم و دینار کا نام ہے مقصود۔ فی زمانہ اصل نقدین کا تصور مفقود ہونے کی بنا پر چاندی کے نصاب کی پیمائش قدر کے بجائے وزن سے کیا جائے گا جیسا کہ سونے کے نصاب کی پیمائش بیس مثقال سے کی جاتی ہے۔ لہذا مذکورہ بالا سطور کے مطابق درہم وزن کے اعتبار سے تین اقسام کے ہوتے تھے ان میں سے اکثر اور وزنی کو مقدار نصاب تعین کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں لوگوں کے لئے آسانی اور زیادہ مالداری ثابت ہوتی ہے اور شریعت کی مراد اس سے بڑھ کر دوسری نہیں ہوسکتی جبکہ بقیہ دوقسموں میں خط غنی کی شرح میں کمی پائی جاتی ہے جس سے کم مال رکھنے والے لوگوں کو کسی طرح کی دقت کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے اور ان کا یقینی ہونا اضطراب سے خالی نہیں۔ اس کے ساتھ ہی شریعت کا مقصود اس سے بڑھ کربھی ہو سکتاہے۔ لہذا ان دونوں ا قسام کووزنی نصاب سے خارج کردیا گیا اوردو سو چاندی کے درہم کا وزن دو سو مثقال کے برابر قرار پایا۔ دو سو مثقال تعین قرار پانے کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ جس طرح بیس مثقال سونے پر اس کا چالیسواں حصہ نصف مثقال فرض ہوتا ہے۔ اسی طرح نصاب چاندی کے دو سو درہم کے ہرچالیس پر اس کا چالیسواں حصہ یعنی ایک درہم فرض ہوتا ہے۔اگر ایک درہم کو ایک مثقال فرض کی جائے تو دو سو درہم مساوی دو سو مثقال کے ہر چالیس درہم مساوی چالیس مثقال پر ایک درہم مساوی ایک مثقال فرض ہوتایعنی دوسو مثقال پر پانچ مثقال فرض ہوتا جیسا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا منشابھی تھا مگر درہم کا وزن مخصوص نہ ہونے کی وجہ سے جیساکہ اوپر بیان کیا گیا ہے شریعت نے اکثریت کو یعنی ایک درہم ایک مثقال کے وزن پردوسو درہم کے مقابلے چاندی کا نصاب دو سو مثقال متعین فرمایا اور ادائیگی میں رخصت دیتے ہوئے دس درہم کے مقابلے سات مثقال مقرر فرمایا۔ اس حساب سے دوسودرہم پر پانچ درہم کے مطابق دو سو مثقال پر ساڑھے تین مثقال کی زکوٰت فرض ہوگی۔چنانچہ دو سو مثقال ہندوستانی پیمائش کے مطابق ساڑھے باون تولہ چاندی جوکہ بین الاقوامی وزن  ۵۹۵ /گرام کے برابر ہوتے ہیں۔اس حساب سے دوسو مثقال کو ۵۹۵ /گرام سے تقسیم کرنے سے ایک مثقال کا وزن975ء۲ /گرام اور ساڑھے تین مثقال کا وزن 4125ء10/ گرام ہوتے ہیں۔

            لہذاصاحب نصاب ہر وہ مسلم ہوتاہے جومطلق سونا: بیس مثقال (ساڑھے سات تولہ ہندوستانی یا بین الاقوامی وزن ۵۹۵/  گرام) یا اس کی مالیت کاحامل ہو، تب اس پر نصف مثقال مساوی 4875ء۱ / گرام یا اس کی مالیت وجوب الادا ہوگی۔  یا مطلق چاندی: کے دوسو درہم جو وزن کے اعتبار سے دوسو مثقال (ساڑھے باون تولہ ہندوستانی یا بین الاقوامی وزن۵۹۵ /گرام)  یااس کی مالیت کا حامل ہو، اس وقت چاندی کے پانچ درہم جس کا وزن ساڑھے تین مثقال چاندی مساوی 4125ء10 /گرام یا اس کی مالیت بطور زکوٰت واجب الادا ہوگی۔  یا سونا،چاندی اور رائج الوقت نقد کی مجموعی مالیت یا کسی مجازی ثمن کی انفرادی مالیت کم از کم چاندی کے نصاب کا درجہ رکھتی ہو۔ خدائے بزرگ و برتر نے سونا اور چاندی کو بحیثیت ثمن حقیقی یعنی عین متبادل نقد بنا کر پیدا فرمایا تاکہ انسانوں کو تجارتی معاملات میں دقت نہ ہوں۔البتہ سونا ثمنیت کے اعلی مقام پر جبکہ چاندی ادنی مقام پر ہے۔ لہذا کسی دوسری چیز کو ثمن متصور کی جانے کی صورت میں اس شئے کی ثمنیت ثمن حقیقی ادنی چاندی کی قائم مقام ہوگی اعلی کی نہیں۔چنانچہ ہندوپاک میں موجودہ سکہ رائج الوقت کی مالیت کا موازنہ اولا چاندی سے کیا جائے گا۔ لہذا دستیاب نقد میں چاندی ہی کے نصاب سے زکوٰت ادا کی جائے گی۔اس عہد جاری میں چاندی کا نصاب دوسو مثقال (ساڑھے باون تولہ ہندوستانی یا بین الاقوامی وزن  ۵۹۵/ گرام)  یا اس کی مالیت کے مالک پر بیان ما سبق کے مطابق ادائیگی زکوت میں قدر کے بجائے وزن معتبر ہوگا۔ اور وہ اس طرح کہ دو سو درہم مساوی دو سو مثقال چاندی پرپانچ درہم مساوی ساڑھے تین مثقال چاندی یعنی 4125ء10 /گرام بطور زکوٰت ادا کرنا ہوگا یا دو سو مثقال چاندی کی مالیت پر ساڑھے تین مثقال چاندی کی مالیت کے برابر رائج الوقت نقد بطور متبادل ِزکوٰت ادا کرنا ہوگا۔فی زمانہ سہولت کے اعتبار سے سونا اور چاندی کے نصاب میں بین الاقوامی وزن گرام یا اس کی مالیت کا اعتبار کرنا زیادہ مناسب اور ادائیگی زکوٰت میں مزید احتیاط متصور ہوگاکہ یہ عین وجوب کے مطابق ہے۔

            ثمنیت میں اصل سونا اور چاندی ہیں باقی مجازی یا مفروضہ ہیں۔ اسی کے ساتھ سونا ثمن اعلی جبکہ چاندی ثمن ادنی ہے۔لہذا ہر ثمن مفروضہ ثمن ادنی چاندی کا متبادل اول متصور ہوگا۔ چنانچہ اگر کسی کے پاس ثمن مفروضہ ہندوستانی نقد کی مالیت نصابِ سونا سے تجاوز ہوجائے تو اس پر ضروری نہیں کہ وہ زکوٰت کی ادائیگی سونے کے نصاب ہی سے کرے بلکہ اسے اختیار ہوگا۔ چاہے تو سونے کے نصاب سے زکوٰت ادا کرے یا چاندی کے نصاب سے۔کیونکہ سونے کے نصاب کی مالیت نصابِ چاندی کی مالیت کو شامل کرتی ہے۔ یہ اس صورت میں ہے جب نصاب مطلق نہ ہو یعنی صرف سونا اس قدرنہ ہوکہ نصاب کو پہنچ جائے ورنہ نصاب سوناکی زکوٰت ادا کرنی ہوگی یا اس کی قیمت۔ عرفی یا مجازی ثمن کے نصاب کا اعتبار موجودہ وقت کی مسلم مالیت کے حساب سے ہوگا۔ مثلا  10/10/2018ء کو دو سو مثقال چاندی کی قیمت چوبیس ہزار پانچ سو چودہ روپے (24514) جس کے پاس ہو وہ صاحب نصاب مالدار شمارہوگا مگر آئندہ سال اسی تاریخ  10/10/2019ء کو ہندوستانی نقد کی مالیت میں زوال واقع ہونے کی وجہ سے دوسو مثقال چاندی کی قیمت بڑھ کر چالیس ہزار پانچ سو روپے  (40500) ہوگئی۔ تو اس صورت میں اس شخص پر جس کے پاس گذشتہ سال نصاب کی مالیت تھی مگر آج موجودہ نقد کی مالیت نصاب کے برابر نہیں خواہ انچالیس ہزار (39000) کا مالک ہو، زکوٰت فرض نہ ہو گی۔ بالفرض کسی کے پاس دو سو رائج الوقت کاغذی نقد جیسے روپیہ، سکہ، ڈالر، یورو وغیرہ ہو پھر بھی اس پر اس وقت تک زکوٰت فرض نہیں ہوگی جب تک دوسو مثقال (ساڑھے باون تولہ ہندوستانی یا بین الاقوامی وزن  ۵۹۵/ گرام) چاندی کی مالیت کے مساوی ثمن نہ ہو کیونکہ یہ کاغذی نقد چاندی کے درہم کے برابر نہیں۔ اس کی چند وجوہات ہیں

   (یکم)       چاندی کے درہم ثمن اصلی ہے جبکہ کاغذی نقد ثمن مجازی (غیر اصلی) ہے۔ 

   (دوم)     چاندی کے درہم بین الاقوامی ثمن مسلم ہے جبکہ کاغذی نقدیک قومی ثمن ہے۔

   (سوم)    چاندی کے درہم کی مالیت معین اور سالم ہے جبکہ کاغذی نقد کی مالیت غیر معین اور غیر سالم ہے اس لئے اس کی قیمت چڑھتی اترتی رہتی ہے۔ 

  (چہارم)  چاندی کے درہم کی ثمنیت شرعی ہے جبکہ کاغذی  نقدکی ثمنیت عرفی ہے۔ اس لئے اگر کسی وجہ سے نوٹ بندی ہوجائے تو اس کاغذی  نقدکی حیثیت کسی

                 کوڑے کرکٹ سے بڑھ کر نہ ہوگی۔ ان سب عرفی اور مجازی ثمن کی حیثیت ایسی ہی ہوگی جن پر بین الاقوامی بازار کا اثر ہوتا ہے۔

            موجودہ اسباب مانعہ کی بنا پر رائج الوقت نقدکو ادائیگی زکوٰت میں بعینہ درہم کے مساوی قرار دینا کہ جس طرح ہر چالیس پر ایک درہم اور ہر دو سو پر پانچ درہم اداکیا جاتا ہے اسی طرح موجودہ نقد کی مالیت نصاب زکوٰت کو پہنچ جانے پردرہم کے حساب سے ہر چالیس روپے پر ایک روپیہ ادا کرنا درست نہ ہوگا۔ مثلا  (www.bankbazaar.com)  ویب سائٹ کے مطابق  ۵۹۵/ گرام چاندی کے نصاب کی مالیت آج بروز بدھ 10/ اکتوبر  2018 ؁ء کو ہندوستانی نقدمیں چوبیس ہزار پانچ سو چودہ روپے (24514)  ہوتے ہیں۔  لہذا ہر چالیس درہم پر ایک درہم کے حساب سے ہر چالیس روپے پر ایک روپیہ کے مطابق چوبیس ہزار پانچ سو چودہ روپے (24514)  پر چھے سو بارہ روپے پچاسی پیسے(85ء612)  صورتِ دہائی میں چھے سو بیس روپے (620)  ہوتے ہیں۔ جبکہ زکوٰت کی ادائیگی کے وقت دس درہم کا وزن سات مثقال کے برابر ہونا ضروری ہے اس لحاظ سے دوسو حقیقی درہم مساوی دو سو مثقال پر پانچ درہم کا وزن ساڑھے تین مثقال ہونا لازمی ہے جو بین الاقوامی میزان میں 4125ء10/ گرام کے برابر ہوگاجس کی مالیت آج کی تاریخ میں چار سو اٹھائیس روپے چند پیسے (995ء428)  صورتِ دہائی میں چار سو تیس روپے (430)  ہوتے ہیں۔

             قابل غور بات یہ ہے کہ عصر حاضرمیں بعینہ درہم کا وجود نہیں پھربھی مقدار درہم کا اعتبار کرتے ہوئے زکوٰت ادا کرنے میں واجب الادا سے زیادہ کی ادائیگی ہے جوکہ فرضیت میں شامل نہیں اور عوام پرگراں گزر سکتی ہے مگر وزن کے اعتبار سے اس کی مالیت ادا کرنے میں عوام کے لئے سہولت اورکشش نظر آتی ہے۔کیونکہ اس میں بعینہ نصاب کی مالیت کا ادا کرنا پایا جاتا ہے جو نا تو نصاب سے زیادہ ہے اور نا ہی وجوبِ ادائیگی سے کم ہے۔ الغرض سونے اور چاندی کی زکوٰت بعینہ یا اس کی مالیت کو درہم کے مقدار سے ادا کرنے سے زیادہ مناسب ہوگا کہ اس کی رقم کی ادائیگی نصابی وزن سے کی جائے کہ فی زمانہ یہ رقم ہر چیز کا متبادل مسلم ہے۔ درہم و دینار سونا اور چاندی ہونے کی وجہ سے انہیں عالمی معیشت کا درجہ حاصل تھا مگر اب وہ کاغذ کے نوٹ میں تبدیل ہو کر یک قومی سرکاری نقد بن کر رہ گیا ہے یعنی اب وہ بیرونی ممالک میں عوامی سطح پر کسی کاغذ کے رنگین ٹکڑے سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ مثلا متحدہ عرب امارات   ((United Arab Emirates. U.A.E.کی کرنسی کاغذی نوٹ ایک درہم کی مالیت آج کی تاریخ بروزبدھ  10/10/2018ء کو ہندوستانی کرنسی بیس روپے اٹھارہ پیسے (18ء 20) کے برابر ہے۔ جس کی قیمت وقت کے ساتھ چڑھتی اترتی رہتی ہے۔ اس حساب سے اگر کسی کے پاس دو سو UAEدرہم ہوئے جس کی مالیت ہندوستانی نقد میں چار ہزار چھتیس روپے(4036) کے برابر ہوتی ہے۔ یہ دو سو درہم دو سو مثقال چاندی کی مالیت کا حامل نہیں ہے اس لئے زکوٰت فرض نہیں ہوگی کہ شریعت نے چاندی کے درہم کا مقدار دوسو قرار دیا ہے نہ کہ کاغذی درہم کا مقدار۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter