نماز کی پابندی ، اہمیت وفضیلت

  نماز تمام تر عبادتوں میں سب سے اہم درجہ رکھتی ہے- اس کی ادائیگی کے لیے خود خلاق کائنات نے بار بار تاکید فرمائی ہے- اور نماز ادا کرنے کا حکم دیا- نیز اس کے ترک پر وعیدیں بھی سنائیں تاکہ خوف خدا کی بنیاد پر آدمی عبادت کی جانب رجوع کرے اور اپنے رب کی سب سے محبوب اور اہم عبادت کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرے- اگر آدمی اس کی پابندی کرتاہے تو اسے بیشمار دینی و دنیاوی فوائد حاصل ہوتے ہیں کیونکہ پانچ وقت کی نماز کی پابندی سے اگر ایک طرف اس کا دل گناہوں کی کثافت سے صاف و ستھرا ہوتا ہے تو دوسری طرف حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خوشنودی حاصل ہوجاتی ہے-  کیونکہ آقائے دو جہاں مدنی تاجدار صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے نماز کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا ہے اور حضورِ اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے والا یقیناً مقبول بارگاہ رسالت ہوگا اور اگر نماز کی پابندی کے ساتھ ساتھ انسان تلاوتِ قرآن مجید کا بھی پابند ہوجائے تو پھر کیا پوچھنا؟ جہاں ایک طرف تلاوتِ قرآن مجید سے گھر مالا مال ہوگا وہیں ہر قسم کی بلائیں اس کے گھر سے دور ہوں گی اور اس کا دل صاف ستھرا ہوکر مثل آئینہ چمکے گا اور اس کے نامہ اعمال میں نیکیوں کا اضافہ بھی ہوگا قبر اور میدان حشر کے مصائب و آلام سے نجات پائے گا اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام حاصل کرے گا-

الله رب العزت قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
ترجمہ: اے ایمان والو! جب تمہیں کوئی حاجت درکار ہو اور تم مصائب و آلام میں گھر جاؤ تو تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ اپنے رب کی جانب رجوع لاؤ اور مصائب و آلام سے نجات حاصل کرنے کے لیے نماز اور صبر سے مدد طلب کرو، پرور دگار عالم تمہاری ضرور مدد فرمائے گا-  کیونکہ وہ وحدہ لاشریک کا وعدہ،، ان الله مع الصابرین،، ہے لہٰذا دنیا کے مصائب و آلام سے نجات حاصل کرنے کے لیے قبر و حشر میں کامیابی کی خاطر نماز وہ نسخہ کیمیا ہے جس کا استعمال کرنے والا ہمیشہ کامیاب رہا ہے رہتا ہے اور رہے گا-

     تلاوتِ قرآن کے فضائل:

تلاوتِ قرآنِ مجید کے بارے میں احادیثِ کریمہ میں بہت سی فضیلتیں وارد ہیں- حضرتِ عبد الله بن عمر رضی الله تعالیٰ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں: کہ رسولِ کریم صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم ارشاد فرماتے ہیں کہ بروز قیامت صاحب قرآن سے کہا جائے گا:

      ،، پڑھتا جا اور بہشت کے درجوں پر چڑھتا جا ٹھہر ٹھہر کے پڑھ جیسا کہ تو دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا تھا پس تیرا مرتبہ وہی ہے جہاں آخری پر پہنچے،، ( جامع ترمذی شریف)
      اس حدیثِ پاک سے یہ بات عیاں ہو گئی کہ بروز قیامت جب کہ آدمی ہر طرح سے پریشان ہوگا ایسے وقت میں تلاوتِ قرآن مجید کام آئے گی اور بندے کو کہا جائے گا کہ جنت میں ترقی کے مدارج کو طے کرنے کے لیے تلاوتِ قرآن مجید کرتا جا، ہاں جہاں تو ٹھہر جائے وہی تمہارا آخری مقام ہوگا ایسا نہیں کہ تیزی کے ساتھ بندے کو پڑھنے کا حکم ہوگا بلکہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کو کہا جائے گا-
      اتنا ہی نہیں اگر آدمی تلاوتِ قرآن مجید کا عادی ہے تو قبر میں ںھی اسے اس کا فائدہ ملے گا اور قبر کی اس وحشت سے نجات ملنے کے ساتھ ساتھ اس کی قبر وسیع کردی جائے گی اور اس کی قبر میں روشنی کا انتظام بھی ہوگا اور اسے تلاوت کرنے کے لیے قرآن مجید ملے گا- تلاوتِ قرآن مجید کے تعلق سے ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیں: 

     ایک بزرگ تھے جن کا یہ معمول تھاکہ ہر روز قرآن مجید کی تلاوت کیا کرتے تھے اور بارگاہِ رب العزت میں یہ دعا کرتے تھے کہ مولی تعالیٰ ہمارا خاتمہ ایمان پر فرما اور جس طرح تونے دنیا میں تلاوتِ قرآن مجید کی توفیق بخشی ہے اسی طرح قبر میں بھی تلاوتِ قرآن کی اجازت مرحمت فرما تاکہ تیرے بندوں کی طرح میں بھی تلاوتِ قرآن مجید کرتا رہوں- چناچہ جب ان کا انتقال ہوا لوگوں نے قبر تیار کی جب ان کے جنازے کو قبر میں اتارا گیا اور قبر مکمل کر دی گئی تو اچانک ایک کچی اینٹ قبر کے اندر گر گئی اور پرور دگار عالم نے اپنے بندے کے مقام ومرتبہ کو واضح کردیا- بیان کیا جاتا ہے کہ اس مجمع میں وقت کے دو عظیم محدث تشریف فرما تھے، ان لوگوں نے جب اس قبر میں جھانک کر دیکھا تو ان کی قبر میں ہلکی روشنی نظر آئی ان کے سامنے سنہرے حرفوں میں لکھا ہوا قرآن مجید اور جسم پر عمدہ و نفیس لباس نظر آیا وہ لباس اس طرح ہل رہا تھا جس طرح دنیا میں تلاوت کرنے والے کے لباس ہلا کرتے ہیں اور وہ قرآن کریم کی تلاوت کررہے تھے- 

      راوی کا بیان ہے کہ جب ہم نے قبر میں جھانک کر دیکھا تو انہوں نے اپنے سر کو میری جانب اُٹھایا اور مجھ سے کہا کہ کیا قیامت قائم ہوگئی؟ کیا سب اپنی قبروں سے نکل کر میدان حشر کی جانب جارہے ہیں؟ راوی فرماتے ہیں میں نے کہا نہیں ابھی قیامت قائم نہیں ہوئی تو پھر اس صالح مرد نے کہا تو پھر اینٹ اپنی جگہ پر رکھ دو-
          ( فضائل تلاوتِ قرآن/ صفحہ 51)

درحقیقت قبر میں جو رتبہ ملا وہ تلاوتِ قرآن مجید کی برکت سے ملا- ہمیں چاہئے کہ ہم تلاوتِ قرآن مجید کو ذوق شوق کے ساتھ کریں اور اس کو سمجھنے کی کوشش کرے-

     مسواک کرنے کے فوائد:

مسواک کرنے سے الله رب العزت کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے، وہ نماز جو مسواک کرکے پڑھی جائے اس کا ثواب ننیانوی گنا تک بڑھ جاتا ہے، مسواک کا ہمیشہ کرنا وسعت رزق کا باعث ہے، اور اسباب رزق کی سہولت کا بھی باعث ہے مسواک کرنے سے منہ کی صفائی رہتی ہے، مسواک مسوڑھوں کو مضبوط کرتی ہے،مسواک کرنے سےسر کا درد دور ہوجاتا ہے، مسواک سر کی رگوں کے لئے بہت مفید ہے، مسواک بلغم کو دور کرتی ہے اور دانتوں کو مضبوط کرتی ہے، مسواک کرنے سےنگاہ تیز ہوتی ہے، مسواک کرنے سے انسان کامعدہ درست رہتا ہے بدن کو طاقت پہنچتی ہے اور فصاحت وبلاغت پیدا کرتی ہے، مسواک یاد داشت کو بڑھاتی ہے، اور مسواک کرناعقل کی زیادتی کا باعث ہے، مسواک کرنے سےدل صاف رہتا ہےاور نیکیوں میں اضافہ ہوتا ہے اور مسواک فرشتوں کو خوش رکھتی ہے، مسواک کرنے سےچہرے کے منور ہوجانے کی وجہ سے فرشتے مصافحہ کرتے ہیں، مسواک کرکے جب بندہ نماز کو جاتا ہے تو فرشتے اس کے ساتھ چلتے ہیں مسجد کی طرف جاتے وقت حاملین عرش فرشتے اس کے لئے استغفار کرتے ہیں، مسواک کرنے والے کو انبیاء و پیغمبر علیہم السلام کی دعاء واستغفار ملتی ہے، مسواک شیطان کو ناراض اور اسے دور کرنے والی ہے، مسواک ذھن کوصاف کرتی ہے، کھانے کو ہضم کرتی ہے، اورکثرت اولاد کا باعث ہے، مسواک کرنے والا پل صراط پر بجلی کی طرح گذر جائے گا، مسواک کرنے والے کوبڑھاپا دیر سے آتا ہے، مسواک کرنے والے کونامۂ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا، مسواک انسان کےجسم کو عبادت الٰہی پر ابھارتی ہے، اور جسم کی گرمی کو دور کردیتی ہے،  مسواک بدن کے درد کو دور کرتی ہے، مسواک کمر یعنی پیٹھ مظبوط کرتی ہے، مسواک کرنے والے کوموت کے وقت مسواک کلمۂ شھادت یاد دلاتی ہے، مسواک کرنے والے کی روح آسانی سے نکلتی ہے، مسواک دانتوں کو سفید کرتی ہے، اورمنہ کو خوشگواربناتی ہے،ذھن کو تیز کرتی ہے، مسواک کرنے سے قبر میں کشادگی ہوتی ہے اور مسواک کرناقبر میں انس کا باعث ہے، اور اس کو قبر میں مسوک نہ کرنے کے برابر لوگوں کا ثواب ملتا ہے، مسواک کرنے والے کے لیےجنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، فرشتے مسواک کرنے والوں کی تعریف کرتے ہوے کہتے ہیں یہ لوگ انبیاء علیہم السلام کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں، مسواک کرنے والوں پرجہنم کا دروازہ بند کردیا جاتا ہے، مسواک کرنے والا بندہ دنیا سے پاک وصاف ہوکر جاتا ہے، مسواک کرنے والے بندے کے پاس فرشتے موت کے وقت اس طرح آتے ہیں جس طرح اولیاء کرام کے پاس آتے ہیں بعض عبارات میں ہے کہ انبیاء علہیم السلام کی طرح آتے ہیں، مسواک کرنے والے کی روح اس وقت تک دنیا سے نہیں نکلتی جب تک کہ وہ نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے حوض مبارک سے رحیق مختوم کا گھونٹ نہیں پی لیتا، مسواک منہ کی بدبو کو ختم کرتی ہےاور بغل کی بدبو ختم کرتی ہے، جنت کے درجات بلند کرتی ہے، مسواک داڑھ کا درد دور کرتی ہے، مسواک کرنے والا شیطان کے وسوسوں سے محفوظ رہتا ہے، مسواک بھوک پیدا کرتی ہے، مسواک جسم کی رطوبت ختم کرتی ہےاور مادۂ منویہ گاڑھا کرتی ہےمزید آواز کو خوبصورت کرتی ہےاور زبان کے میل کو دور کرتی ہے، مسواک حلق کو صاف کرتی ہے، مسواک منہ میں خوشبو پیدا ہوتی ہے، درد کو سکون دیتی ہے، مسواک جسم کا رنگ نکھارتی ہےاور چہرے کو با رونق بناتی ہے مسواک کا عادی جس دن مسواک نہ کرے اس دن بھی اسے مسواک کرنے کا اجر لکھا جاتا ہے.

               کریم گنج، پورن پور، پیلی بھیت
                    iftikharahmadquadri@gmail.com

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter