قربانی نسل کَشی یا نسل کُشی؟

بحکمہ تعالی ہر وہ مسلمان جو مالک ِ نصاب ہے اس پر قربانی  واجب ہے اور اسکا انکار کرنے والا منکرِ امر دین کی بنا پر کفر کی حد تک کی رسائی کر سکتا ہے۔بفضلہ تعالی تمام مسلمانِ ہند وبیرونِ ہند ہر سال ذو الحجہ کے موقعہ پر سنتِ ابراہیمی علیہ السلام کو زندہ کرتے ہوئے یوم الاضحی مناتے ہیں، اللہ رب العزت کی رضا کے لیے قربانی جیسے پاک وصاف عمل کی پہل کرتے ہیں اور وہ تمام حضرات جو اس حیثیت نہیں رکھتے یعنی مالک نصاب نہیں ہوتے ہیں ان پر قربانی واجب نہیں ہوتی بہرحال انہیں صدقہ وخیرات کرکے اپنی عید الاضحی کی خوشی کو اظہار کرسکتے ہیں اور بے شک صدقہ کرنا بھی باعثِ اجر و ثواب ہے۔اللہ رب العزت نے قرآن میں ارشاد فرمایا ”لن ینال اللہ لحومھا ودماؤھا ولکن التقوی منکم“(تمہارے قربانی کرنے پر نہ تو اسکا گوشت اللہ کو پہنچتا ہے اور نہ ہی اسکا خون بلکہ اگر کوئی چیز ہے جو اللہ تک پہنچتی ہے تو وہ تمہارا خلوص اور تقوی ہے)۔چونکہ قربانی کے تعلق سے بنیادی علوم سے ہر مسلمان واقف ہے بس اسی بنا پر اب وہی بات گھما پھرا کر نہیں کرنی ہے مثلا قربانی کب شروع ہوئی؟کیسے شروع ہوئی؟اس کا خلفیہ کیا ہے؟وغیرہ وغیرہ بلکہ اب مخالفینِ اسلام کی تعداد میں کافی حد تک اضافہ ہو چکا ہے، ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ حتی الامکان جس طرح بھی ممکن ہو اسلام کو بدنام کیا جائے اور ان کے تمام احکامات کوغلط ثابت کیا جائے بس اسی گندی اور ناکام پولیسی کو مد نظر رکھتے ہوئے مخالفینِ اسلام قربانی پر بھی بہت سارے سوالات کا گھیرا لگانا شروع کرچکے ہیں او ران کا ٹارگیٹ صرف اور صرف عام مسلمان حضرات ہوتے ہیں جنہیں اسلامی احکامات کی مکمل معلومات نہیں ہوتی ہے۔گزشتہ چند سالوں سے ایک بات دیکھنے کو ملی ہے کہ بہت سارے لوگوں نے ٹی وی ڈبیٹس وغیرہ دیکھ کر ہی گمراہی کا راستہ اپنا لیا ہے کیونکہ منکرین اسلام ایسی ایسی بات کرتے ہیں جس سے ایک عام آدمی کا دماغ دو پل میں ادھر سے ادھر ہوجاتا ہے اور جب وہ اس کا کوئی خاص جواب نہیں ڈھونڈھ پاتے تو انہیں شرم کا احساس ہوتا ہے اور وہی سوچنے پرجبرا مشغول ہو جاتے ہیں کہ سچ میں منکرین اسلام نے جو بات کہیں وہ شاید صحیح اور ٹھیک ہی ہے بس یہی وجہ ہے کہ منکرین کو اور بھی راہیں ہموار نظر آنے لگتی ہیں اور انکا حوصلہ ساتویں آسمان کو جا لگتا ہے۔

 چند وہ سوالات جو مخالفین کے ذریعے پوچھے اور اٹھائے جاتے ہیں وہ یہ ہیں کہ(۱) قربانی کرنے سے جانوروں کی نسل کُشی ہوتی ہے اور بے شک تم لوگ یعنی اہلِ اسلام اس کے خلاف ہو پھر بھلا تم لوگ اس غلط کام کواتنے شوق کے ساتھ کیوں ادا کرتے ہو؟ اور قربانی کو روک کیوں نہیں دیتے؟(۲) اسلام تو رحم وکرم کرنے والوں کا مذہب ہے اور احمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے سارے جہان کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے پھر یہ زحمت کیوں کہ جو جانور تمہیں دودھ اور دیگر اشاء مہیا کرتے ہیں تم اسی کو قربانی کے نام پر قتل کردیتے ہو؟۔ان سوالات کے ساتھ ہی ساتھ وہ ایک نصیحت بھی دیتے ہیں جس سے ایک عام مسلمان فوری طور پر ہاں کردیتا ہے اور ان کے سامنے اپنی گردن خم کر دیتا ہے۔نصیحت یہ ہے ”اگر آپ لوگ جانوروں کی قتل ریزی کرنے کے بجائے وہی قربانی کا پیسہ کسی نیک کام میں دیے دیں تو مثلا تعمیر مسجد یا مدارس اسلامیہ کے طلباء کو،یا کسی غریب کی مدد میں لگا دیں تو کتنا ثواب ملیگا،نہ تو کسی جانور کو قتل کرنا لازم آئیگا نہ کچھ، اور آپ کو ثواب کا ثواب بھی مل جائے گا!“اگر بداہتہ یہ بات سنی اور سمجھی جائے تو لگے گا واہ!یہ تو بالکل صحیح ہے مگر یہاں تھوڑا غور و فکر کرنا پڑیگا پھر حقیقت سے واقفیت حاصل ہو گی۔

 اعتراضات وسوالات کے جواب کچھ یوں ہے،جہاں تک بات رہی پہلے سوال کی کہ قربانی سے نسل کُشی لازم آتی ہے تو اس بات کا کوئی پیر وسر نہیں یعنی حقیقت یہ ہے ہی نہیں کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ہر سال ذبح ہونے والے بکروں اور بھینسوں کی تعداد میں کافی حدتک کمی آتی مگر میں آپ کو یہ بات سمجھاتا چلتا ہوں کہ دنیا میں سب سے زیادہ قربانی کرنے والا ملک سعودی عرب ہے جہاں میں بے شمار تعداد میں مکہ مکرمہ ومدینہ منورہ میں بشکل قربانی اور حج کرنے والوں کی طرف سے دم کی شکل میں،بدنہ کی شکل میں اور دیگر سینکڑوں کاموں کے لیے قربانی کا امر انجام دیا جاتا ہے مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ کو یہ معلوم کرکے تعجب ہو گا کہ سب سے زیادہ قربانی کے جانور پائے بھی عرب میں ہی جاتے ہیں (تبھی تو دنیا بھر کے مختلف ممالک سے لوگ سعودی میں بکری چرانے اور ان کی دیکھ بھال کرنے کے لیے ویزا پر کام کی غرض سے جاتے ہیں)آب منکرین کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہوگا اور ہے تو بتا دیں مہربانی ہوگی۔ایک ناقابل نظرانداز اور حقیقی بات ہے کہ جس چیز کا استعمال بکثرت ہوتا ہے اللہ رب العزت میں اس میں اتنی ہی برکت عطا فرماتا ہے،آپ کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ ہندوستان،پاکستان اور دیگر مسلم ممالک جہاں ہزاروں کروڑوں کی تعداد میں بکروں اور بھینسوں کی قربانی ہر سال کی جاتی ہے وہاں پر ہر سال اتنی ہی مقدار میں پھر سے قربانی ہوتی ہے مگر یہ تو مخالفین کے قیاس کے خلاف ہو گیا، ہونا تو ایسا چاہیے کہ ہر سال جانوروں میں کمی ہوتی جانی چاہیے۔ ہم منکرین کی بات مان تو لیں لیکن ہم ان کی اس بے وقوفانہ واحمقانہ بات کو تسلیم ہی نہیں کرتے کیونکہ اس میں صفر فیصد بھی سچائی نہیں ہے۔ہم تو اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ خیر الرازقین ہے اور بے پناہ بر کت عطا کرنے والا ہے۔قربانی تو اللہ کی رضا کے لیے ہی کی جاتی ہے اور سے سے بڑی بات یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے ہمیں اس کا حکم دیابس ہم تاقیامت اس ام کو انجام دیتے رہیں گے۔ ایک اوربات یہ کہ آپ کو یہ بات معلوم ہی ہوگی کہ جب کوئی مسلمان جانورذبح کرتا ہے تو اس کو اکیلا نہیں کھاتا بلکہ اس میں تین حصے ہوتے ہیں ایک فقراء ومساکین کے لیے دوسرا اقارب ورشتہ دار کے لیے اور تیسرا خود کے لیے تو اس سے غرباء کی بھی مدد ہو جاتی ہے جس سے ان کے سوال کو رد کر دیا گیا۔اب آپ بتائیے کہ اگر قربانی سے نسل کُشی لازم آتی تو یہ صدیوں سے چلنے والی عبادت آج ختم نہیں ہو جاتی؟با لکل! مگر ایسا ہے ہی نہیں۔یاد رکھیے ہمارا اسلام ہمیں اس طرح کی تعلیم ہر گز نہیں دے سکتا کہ جس سے دنیا کی بربادی لازم آئے۔

 آپ نے ایک بات ضرور غور کی ہوگی کہ ہندوستان میں جب سے گائے پر پاندی عائد کی گئی ہے لوگوں سے اسے پالنا پوسنا کم کر دیا ہے آئے دن کوئی نہ کوئی خبر ضرو ر موصول ہوتی ہے کہ فلاں گاؤں کے راستوں پر گائے کی ایک جماعت نے راستہ روک رکھا ہے،فلاں گاؤں میں اتنی گائے مری ہوئی ملی ہیں،فلاں شہر میں گائے بھٹکتی ہوئی نظر آرہی ہیں وغیرہ وغیرہ ……مگر سوال ہے پہلے تو ایسا نہیں ہوتا تھا اب کیوں؟۔جواب یہ ہے کہ اب لوگوں کو اس بات کا علم ہو چکا ہے کہ اب گائے کی کوئی خاص قیمت نہیں دیگا اور نہ ہی گائے کی اب وہ حیثیت رہ گئی ہے جو پہلے ہوا کرتی تھی۔آج آپ اپنے گاؤں میں ہی دیکھ سکتے ہیں کہ گائے کی تعداد میں کس قدر کمی ہوئی ہے؟کیسے لوگوں نے گائے کی جگہ بکری اور مرغی کو پالنا شرو ع کر دیا ہے۔یا د رکھیں پہلے کے زمانے میں لوگ کھیتی باڑی کے لیے بیل وغیرہ کا استعمال کرتے تھے اور الحمد للہ اس کی تعداد بھی اچھی خاصی تھی مگر اب ٹریکٹر کا زمانہ آگیا ہے اب لوگ بیل کا استعمال کم کر چکے ہیں بس آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بیل کی تعداد زیادہ ہے یا ٹریکٹر کی؟بے شک زیادہ استعمال ہونے والی چیزوں میں زیادہ برکت اور قلیل المستعمل اشیاء میں کم برکت ہوتی ہے۔

 دوسرا سوال یہ کہ اسلام تو رحم کا مذہب ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سارے جہان کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے تو پھر تم مسلمان قربانی کے نام پر اپنی خوشی کے لیے جانوروں کی جان کیوں لیتے ہو؟ایسا کرنا تو جانوروں کے حق میں غلط ہے اور ان پر ظلم واستبداد ہے؟بہر حال اس کا جواب بہت ہی سیدھا طریقے سے سمجھا جا سکتا ہے۔آپ اگر ایک جانور کو پالتے ہو تو اسے چارہ ضرور کھلاتے ہو،اور آپ کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ پتوں یعنی پودوں میں بھی جان ہوتی ہے تو پھر آپ پیڑ پودے کیوں کاٹتے ہو یہ تو ان پر بھی ظلم ہے؟کیا آپ کو اس وقت رحم نہیں آتا؟کیا اس وقت ظلم نہیں دِکھتا؟ اس کے علاوہ جب کسی دیوتا یا دیوی کے لیے جانوروں کی بلی چڑھائی جاتی ہے اور اس سے بری اور گندی بات یہ کہ وہ گوشت کھایا بھی نہیں جاتا بلکہ بلی کے جانور کو یوہی پھینک دیا جاتا ہے جس سے بیماری ہونے کا بھی اندیشہ اور ماحول خراب ہونے کا بھی امکان ہے، تو اس وقت یہ سوال کہاں جاتا ہے؟ بہرحال ہماری غرض سوال پوچھنا نہیں ہے بلکہ جواب دینا ہے ……ہم تو قربانی کا گوشت کھاتے ہیں اورالحمد للہ حاجت مند لوگوں میں تقسیم بھی کرتے ہیں۔ہم گوشت کو نسلِ انسانی کے بقاء کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ایک نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ فوڈچین(Food Chain) نام کی ایک ترتیب ہے جس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کیڑوں کو چڑیا کھاتی ہے،چڑیا کو سانپ کھاتا ہے،سانپ کو چیل کھاتا ہے وغیرہ وغیرہ یعنی اللہ رب العزت نے انسان کے لیے ایک نظام تیار کیا ہے جس کے ذریعے یہ دنیا چلتی ہے،آپ گمان کریں کہ اگر کوئی جانوروں کو(گائے،بیل،مرغی)کھانا بند کردے تو ان کی تعداد کہاں پہنچ جائے گی؟اس کو بیچنے اور خریدنے والے کہاں جائیں گے؟ان کی آمدنی کہاں سے آئیگی؟انڈا جس پر ۰۳فیصد سے زائد دنیا ٹکی ہوئی ہے کہاں جائے گی؟ایسے بہت سارے سوالات آتے ہیں مگر ان کا کوئی جواب نہیں۔بہر حال نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام میں قربانی کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ کسی جانورکو تکلیف دی جائے بلکہ ہر وہ جانورخوش نصیب ہے جو اللہ کی راہ میں قربان کیا جاتا ہے ……تو قربانی سے جانور کی نسل کُشی نہیں بلکہ نسل کَشی لازم آتی ہے۔ ان شاء اللہ یہ مبارک عمل تاقیامت یوں ہی جاری وساری رہے گا۔یاد رکھیں ہمیں مخالفین کے سوالات سے ڈرنے یا اس میں الجھنے کی ضرورت نہیں بلکہ ایک متحقق جائزہ لینے اور احکام باری تعالی کے دقیق نکات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter