خدایا! فلسطین کا حل ایک خواب بن کے رہ گیا!!!
دنیا میں دو مسائل ایسے ہیں جو اب تک حل نہیں ہو سکے: ایک کشمیر کا مسئلہ اور دوسرا فلسطین کا مسئلہ۔ جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے، تب سے یہ دونوں مسائل سنتے آرہے ہیں۔ لاکھوں، کروڑوں بے گناہ لوگ مارے جا چکے ہیں۔ کروڑوں خاندانوں کے آباد گلشن ویران ہوگئے۔ گنجان آبادیاں کھنڈرات میں تبدیل ہو گئیں۔ نہ جانے کتنے معصوم بچوں کی جانیں فلک بوس عمارتوں کے ملبے تلے دب کر رہ گئیں۔ پرشکوہ عمارتیں زمین بوس ہوگئیں۔ ظالموں نے مسجدوں سے لے کر اسپتالوں تک کو تاخت و تاراج کردیا۔ تعلیم گاہوں کو نشانہ بنا کر تباہ و برباد کردیا۔ حد تو یہ ہے کہ ان ظالموں نے گھروں کو پامال کرکے معصوم بچوں اور ان کے خاندان کو نہ صرف بے گھر کردیا بلکہ انہیں بے بس و بے کس بنا کر سڑکوں پر لا کھڑا کیا۔
چند دن پہلے اخباروں کی سرخیاں پڑھ کر کلیجہ منہ کو آگیا کہ غزہ کے بے شمار نونہال بچے بھکمری اور بھوک پیاس سے موت کی آغوش میں ہمیشگی کی نیند سو گئے۔ستم بالائے ستم یہ کہ ایک طرف غزہ کے بچے بھوک و پیاس میں تڑپ رہے ہیں، وہیں دوسری طرف ہمارے اسلامی ممالک کے حکمران امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اربوں درہم تحفے میں پیش کر رہے ہیں۔ ہمارے حکمران شاید یہ سمجھتے ہیں کہ غزہ کے بچوں کو درہم و دینار کی ضرورت نہیں، بلکہ منبر و محراب کی آہ و فغاں اور دعا و گریہ و زاری ہی کافی ہے!
پوری دنیا اسرائیل کی جارحیت اور بربریت کے خلاف کھڑی ہے، مگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کی جے جے کار میں لگا ہوا ہے۔ وہ نہ صرف اسرائیل کی حمایت کرتا ہے بلکہ اسے ہتھیار فراہم کرنے تک کا کام انجام دے رہا ہے۔ہمیں ان گوری چمڑی والے یہود و نصاریٰ سے کوئی گلہ نہیں، کیونکہ وہ تو ابتدا ہی سے ہمارے جانی دشمن ہیں، جیسے کہ قرآن کہتا ہے :"وَلَنْ تَرْضَىٰ عَنكَ ٱلْيَهُودُ وَلَا ٱلنَّصَٰرَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ" کہ ’’یہودی اور عیسائی تم سے ہرگز راضی نہ ہوں گے جب تک تم ان کے دین کی پیروی نہ کرو۔‘‘ (البقرہ: 120)۔ہمیں شکایت ہے تو صرف مسلم حکمرانوں سے۔ کیا خوب کہا علامہ اقبالؒ نے:
تو ا ِدھر اُدھر کی نہ بات کر، یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا؟
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں، تیری رہبری کا سوال ہے!
اب غزہ کوئی جغرافیائی حقیقت نہیں رہا، بلکہ ایک اجتماعی قبر بن چکا ہے جہاں ہر دن نئی قبریں کھودی جاتی ہیں، مگر نہ کوئی کتبہ ہوتا ہے، نہ نام، نہ تاریخ پیدائش، نہ تاریخ وفات! صرف ایک ہجوم ہے جو ماضی، حال اور مستقبل کو اپنی آنکھوں کے سامنے دفن کرتا جا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جنگیں حکومتیں لڑتی ہیں، مگر مرتے عوام ہیں۔ غزہ میں تو حکومتیں بھی محصور ہوچکی ہیں اور عوام بھی۔ یہاں امن کا دروازہ کھلتا نظر نہیں آتا۔ غزہ کے بچوں کے لیے نہ کوئی روشن اور خوشحال صبح نمودار ہو رہی ہے اور نہ ہی کسی قاصدِ امن کی دستک سنائی دیتی ہے۔فلسطینی باشندے روزِ اول سے بھرپور مزاحمت کر رہے ہیں۔ ایک طرف بمبار طیارے ہیں اور دوسری طرف بچوں کی وہ خونچکاں تصویریں، جو امت مسلمہ کو شرمسار کر رہی ہیں اور چیخ چیخ کر پکار رہی ہیں کہ:
’’تم عیش و آرام کی زندگی بسر کرو، اور ہم موت کی پوشاک پہن کر اللہ اور اس کے حبیب پاک ﷺ سے اپنی فریاد سناتے رہیں؟! ہمارا اس دنیا میں کوئی پرسانِ حال نہیں، تو کیا جنت و بہشت، حور و قصور ہمارے استقبال کے لیے تیار کھڑے ہیں؟ہمیں دنیاوی بھوک و پیاس نڈھال تو کرسکتی ہے، لیکن ایمان و ایقان، صبر و شکیب سے برگشتہ نہیں کرسکتی۔ یہ غزہ کے بچوں کی پکار ہے۔
ابھی حال ہی میں "غزہ" دنیا کے نقشے سے تقریباً معدوم ہوگیا۔ انسانی آبادی ویران ہو گئی۔ آبادیاں قبروں میں تبدیل ہو گئیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی مسلم حکمران اور اسلامی ممالک، امریکی صدر اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی تعریف و توصیف میں آسمان و زمین کے قلابے ملا رہے ہیں۔ اب تو امریکی صدر کو نوبل انعام دینے کی تیاریاں بھی ہو رہی ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی قراردادیں، انسانی حقوق کے عالمی منشور، اور انصاف کے دعوے دار بین الاقوامی ادارے، سب غزہ میں ہونے والے ظلم کو روکنے میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں۔ دنیا بھر میں لوگ غزہ میں ہونے والے مکروہ جرائم کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں، مگر اسرائیل اور امریکہ کی حکومتوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو رہا۔
مگر تاریخ! یہ ظلم و زیادتی نہ بھولے گی اور نہ معاف کرے گی۔ ظلم جہاں بھی ہو، انسان کے اندر کی انسانیت اگر زندہ ہو، تو وہ خاموش نہیں رہ سکتی۔ تو پھر یہ عالم اسلام کیوں خاموش ہے؟؟ تمام مسلم ممالک فلسطینیوں کے لیے کیا کر رہے ہیں؟؟ اس خاموشی کا حساب ایک نہ ایک دن ضرور دینا ہوگا۔ یہ وقت ہے کہ تمام اسلامی ممالک ایک ہوکر فلسطینیوں کی آواز بنیں اور ان کا ساتھ دیں، ورنہ وہ دن دور نہیں کہ جو آگ آج غزہ میں معصوم شہریوں کو جھلسا رہی ہے، وہ کسی دن ہمارے دامن کو بھی جلا سکتی ہے۔
عالم اسلام کی یہ خاموشی اور بے حسی دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا روتے بلکتے فلسطینی بچوں کی آوازوں کی عادی ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت پر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ہم صرف زبانی احتجاج اور زبانی ہمدردی کرتے ہیں۔ مساجد کے منبر و محراب سے دعاؤں کے سوا ہم کچھ نہیں کر پا رہے ہیں۔اسرائیل معصوم فلسطینیوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے پر تُلا ہے، جبکہ ہم اب بھی کسی معجزے کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے، ابابیلوں کے انتظار میں آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ان کرشماتی معجزات اور آسمانی مدد کے انتظار کرنے والوں سے ہم وہی کہنا چاہتے ہیں جو مولانا ظفر علی خان نے کہا تھا:
فضائے بدر پیدا کر، فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
اب مزید ہم کچھ کہنا نہیں چاہتے۔ اس نازک صورتحال میں اگر کسی سے امید ہے تو وہ صرف خدائے قدوس کی ذات ہے۔ اگر وہ چاہے تو ایک لمحے میں دشمن کو کیفر کردار تک پہنچا سکتا ہے اور فلسطین کو ظالم اسرائیل کی بربریت و جارحیت سے نجات دلا سکتا ہے۔
لہٰذا ہم رب قدیر سے دعا گو ہیں:
یا اللہ! ان معصوم و بے گناہ بچوں پر رحم فرما۔
انہیں زندگی کی خوشیاں نصیب فرما۔
ظالم و جابر حکومتوں کو نیست و نابود فرما۔
ظلم و ستم سے ان بچوں کو نجات عطا فرما۔
جس طرح تو نے ابرہہ اور اس کے لشکر کو ابابیل بھیج کر تباہ کیا،
اسی طرح اسرائیل کو بھی مسمار فرما۔ آمین۔
تا ابد یا رب ز تو من لطف ہا دارم امید
از تو گر امید ببرم، از کجا دارم امید