باطل سے دبنے والے اے آسمان نہیں ہم
ماہ محرم الحرام جیسے ہی ہم پر سایہ فگن ہوتا ہے تو یہ مبارک مہینہ اپنے دامن میں کربلا والوں کی یاد اور ساتھ ہی ساتھ ایثار، قربانی، باہمی رواداری، خود احستابی اور باطل قوتوں سے مقابلہ آرائی کی عکاسی لیکر حاضر ہوتا ہے۔اسی ماہ مبارک میں ایسے ایسے پر سوز ودلدوز واقعات رونما ہوئے جن کو امت مسلمہ کبھی بھی فراموش نہیں کرسکتی خاص طور پر یکم محرم الحرام کو خلیفۂ دوم نائب رسول ﷺ آفت جان منافق غیظ المشرکین والکفار حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی شہادت اور دس محرم الحرام کو نواسۂ رسول ﷺ جگر گوشۂ بتول سلام اللہ علیہا امام عالی مقام حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی اپنے خاندان نبوت کے افراد کے ساتھ شہادت کی رقت انگیز ولرزہ خیز داستان کبھی بھلا نہیں کرسکتی۔ کربلا والوں کی شہادت دلوں کو تڑپاتی اور آنکھوں کو نمناک کردیتی ہیں۔ میدان کربلا میں اہل بیت اطہار پر ظلم وستم کے وہ پہاڑ توڑے گئے جن کے تصور سے پوری انسانیت کانپ جاتی ہے۔ ایک طرف بائیس ہزار پر مشتمل جفاکار وستم شعار خونخوار ہتھیار سے لیس مسلح یزیدی لشکر دوسری جانب بے سروسامان وبے ہتھیار حسینی قافلہ جن کی تعداد دشمنوں کے مقابلے میں بہت تھوڑی اور کم مزید برآن کہ اس قافلے میں صرف جوان ہی نہیں بلکہ خانوادۂ رسالت کے ننھے منے پھول بھی شامل تھے۔ یزیدی لشکر تخت و سلطنت کی حرص و لالچ میں بے دینی ودرندگی پر آمادہ نظر آتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف حسینی قافلہ صبح قیامت تک آنے والی نسلوں کے لئے دین اسلام کی بقا و سربلندی کی خاطر اپنی نفیس وانمول جان، مال، عزت و آبرو اور آل واولاد اللہ کی راہ میں قربان کر دینے تیار دکھائی دیتا ہے۔ بھوک وپیاس کی بیتابی اور ناتوانی نہ ان کے پایۂ استقلال میں جنبش لاسکی ، نہ دھوپ کی تیزی اور ریت کی گرمی اسلام کے نام پر مرمٹنے کے جوش وجذبہ میں کچھ کمی وکوتاہی لا سکی۔ درحقیقت کربلا حق وباطل کی کشکمش باہمی ٹکراؤ اور مقابلہ آرائی کا حسین منظر ہے۔ حق نے باطل طاقت کے سامنے سینہ سپر ہوکر پوری جواں مردی کے ساتھ ہر محاذ پر بغیر کسی سمجھوتے کے مقابلہ کیا۔ اور باطل کو سرنگوں ہونے پر مجبور کیا۔ اسی حسینی چراغ سے آج بھی ایمان وایقان کا چراغ روشن ہیں۔ انہیں جذبوں سے آج بھی اسلامی کی کھیتیں سرسبزوشاداب نظر آرہی ہیں۔ جب جب تاریخ معرکۂ کربلا کو دہراتی ہے تب تب اسلام کی روح کو تازگی وبالیدگی حاصل ہوتی ہے۔ کیا خوب کہا مولانا جوہر علی نے
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
امام عالی مقام نے باطل یزیدی قوت کے جگر میں جو شگاف ڈالا وہ زندگی کی آخری ہچکیوں تک مندمل نہیں ہوسکے گا۔ کیونکہ وہ محض خنجر، یا تیغ و سنان کی ضرب کاری نہیں بلکہ قوت ایمان، شدت توکل اور صبر واستقلال کے نشتر سے لگائے ہوئے مار ہیں۔ ہر سال مسلم محلوں میں محرم کی محفلیں سجائی جاتی ہیں۔ مقرر اپنے منفرد لب ولہجہ میں تقریریں کرکے نذرانے لیکر چلے جاتے ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ دس دن تقریر سننے کے باوجود امت مسلمہ کے اندر ذرا برابر تبدیلی نہیں آتی ہے۔ حسینیت کا تو نعرہ گلہ پھاڑ پھاڑ کر لگائنگے لیکن زندگی میں ذرا برابر حسینیت کی جھلک نہیں ہوگی۔ امام عالی مقام نے باطل کے یلغار کو للکارتے ہوئے بیعت سے انکار کیا اور زبان حال سے یہ کہا کہ
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سَو بار کر چکا ہے تُو امتحاں ہمارا
اس ماہ مبارک میں جہاں ہم یاد امام حسین مناتے ہیں۔ ان کے نام پر ایصال ثواب کرتے ہیں۔ ان کے نام پر جلسے جلوس نکالتے ہیں وہیں ہم پر ضروری ہے کہ ہم کرب وبلا کے تپتے ہوئے ریگزار سے امام عالی مقام جس پیغام کو آنے والی نسل تک منتقل کرنا چاہا اسے عام کریں۔ یہ ماۂ محرم الحرام ایثار، قربانی، اتحادِ امت، باہمی رواداری اور پُرامن بقائے باہمی کا درس دیتا ہے۔ مدینہ طیبہ سے میدان کربلا تک اسلام کے لیے عظیم قربانیوں کی تاریخ اسی ماہِ مبارک سے وابستہ ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس ماہ کو عزت و احترام اور حرمت و فضیلت کا مہینہ قرار دیا ہے۔ حضرت امام عالی مقام رضی اللہ عنہ نے اپنے عمل سے انسانیت کو برداشت، ضبط رواداری اور صبر واستقلال کا درس دیا ہے۔ محرم الحرام کا پیغام ظلم کے خلاف ڈٹ جانا ہے۔اس ماہ مبارک میں علمائے کرام وحدت، یگانگت، یکجہتی اور اخوت و بھائی چارے کا پیغام عام کریں۔ بالخصوص نواسہ رسول جگر گوشئہ بتول حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے امن، اخوت اور بھائی چارے کے حقیقی پیغام کو فروغ دیں۔ صرف نعرہ لگانے کافی نہیں بلکہ عملی اقدامات کے ذریعے ہم امت کو یکجا کرنے اور امت مسلمہ کے مابین جو باہمی انتشار وخلفشارہے اس کی جڑ تک رسائی حاصل کرکے اسے سرے سے ختم کرنے کی مسلسل جدوجہد کریں۔
آج کے حالات کے تناظر میں جہاں مسلمان چاروں طرف ظلم و ستم کے شکنجے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایسے نازک صورتحال میں کربلا اور امام عالی مقام کے پیغام کی اہمیت وافادیت اور اجاگر ہو کر ہمارے سامنے جلوہ بکھیر رہی ہے کہ باطل کتنا ہی قوی و مضبوط ہو تم کبھی اس سے سمجھوتہ نہ کرنا۔ باطل ہمیشہ حق اور اہل حق کو تیغ و سنان کے روز پر پسپا کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن ایسے سنگین موڑ پر اہل حق کو سرنگوں ہونے کے بجائے صبر واستقلال کے دامن کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رہنا چاہیے۔ وقتی طور پر باطل کو کامیابی حاصل ہوگی اس سے ناامید ہوئے بغیر یہ یقین رکھنا چاہیے کہ جیت ہمیشہ حق اور اہل حق ہی کو ہوگی۔ کربلا میں یہی ہوا کہ یزیدیوں نے فتح کا خوب جشن منایا۔ ڈھول باجے کے ساتھ جلوس نکالا لیکن زمانہ گواہ ہے کہ پھر یزیدیوں کا انجام کیا ہوا۔ اور آج گھر گھر، محلہ محلہ، گلی گلی، کوچہ کوچہ، بستی بستی، قریہ قریہ، ڈگر ڈگر الغرض ہر جگہ حسینیت کے چرچے ہیں۔ اور یزید کا نام ونشان تک نہیں۔ اس کے قبر کوئی تھوکنے والا تک نہیں۔ اور پوری خلق خدا امام عالی مقام کی چوکھٹ پر کھڑی اپنے غموں کا مداوا حاصل کر رہی ہے۔ حسینیت کو لوگ عزت وسرخروئی کا علم قرار دیتے ہیں تو یزید کو ظلم و سفاکی کا نشان سمجھتے ہیں۔
تو آج بھی اگر ہم حسینیت کے علم کو مضبوطی سے تھامے رہیں گے تو ان شاء ضرور ہم اپنی عظمت رفتہ اور کھوئی ہوئی عزت کو دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں۔ جس طرح ہمارے اسلاف نے حسینی علم کو لیکر دنیا پر حکومت کی کچھ اسی طرح ہم بھی دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی کامرانی حاصل کر سکتے ہیں۔ صرف شرط یہ ہے کہ ہم ایمان والے بنے رہیں اور پروردگار عالم پر مکمل بھروسہ وتوکل ہو۔ اگر اتنا رہا تو آسمانوں سے ہماری نصرت وحمایت کے لیے فرشتے آج اتر سکتے ہیں کیا خوب کہا مولانا ظفر علی خان نے
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
اور علامہ اقبال فرماتے ہیں
آج بھی ہو جو براہیمؑ کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گُلستاں پیدا
لہذا ہم سب کمر بستہ ہوکر باطل قوتوں سے لڑنے اور حالات کا سامنا کرنے کے لیے آمادہ ہو جائیں۔ یہی محرم الحرام اور کربلا کا بھی عظیم پیغام ہے۔ اسی پیغام کو سلطان الہند خواجہ سرکار نے امام عالی مقام کی بارگاہ عالیہ میں اپنا نذرانہ عقیدت اور خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
شاہ است حسین و بادشاہ است حسین
دین است حسین و دین پناہ است حسین
سر داد نداد دست در دست یزید
حقا کہ بنائے لا الہ است حسین
الله تبارک و تعالٰی سے دعا گو ہوں کہ ہم سب کو اس نئے اسلامی سال کے تمام انوار و نوازشات سے سرفراز فرمائے اور صحیح معنوں میں حسینی بنکر باطل طاقتوں سے نبردآزما ہونے کی توفیق رفیق عطا فرمائے آمین