سیرتِ غوثِ اعظم میں اخلاص و عمل کا پیغام

دنیا میں کچھ ہستیاں ایسی ہوتی ہیں جنہیں الله تعالیٰ اپنے بندوں کی رہنمائی، اصلاح و فلاح کے لئے مخصوص طور پر منتخب فرماتا ہے۔ یہ لوگ صرف عبادت گزار ہی نہیں ہوتے بلکہ ان کی زندگی علم و معرفت، زہد و تقویٰ، ایثار اور قرب الٰہی کا ایک ایسا پیکر ہوتی ہے کہ ان کے وجود سے نہ صرف ایک زمانہ فیض یاب ہوتا ہے بلکہ آنے والی نسلیں بھی ان کے فیوض و برکات سے روشنی حاصل کرتی ہیں۔ یہ الله تعالیٰ کے بندے معاشرے کے لئے مشعلِ راہ، ان کی باتوں میں دلوں کو سکون، ان کی مجلسوں میں روحانیت اور ان کے وجود سے ایمان کو جِلا ملتی ہے۔ ایسے ہی عظیم المرتبت ولی کامل، عارف باالله، علم و حکمت کا مینار، زہد و تقویٰ کا پیکر اور ولایت کے تاجدار جنہیں دنیا پیرانِ پیر، غوث الاعظم، قطب الاقطاب، شیخ المشائخ اور سلطان الاولیاء جیسے عظیم القابات سے یاد کرتی ہے۔ وہ عظیم شخصیت حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی الله عنہ کی ہے۔ آپ کی شخصیت نہ صرف برصغیر پاک و ہند بلکہ پوری دنیا میں عقیدت و محبت اور احترام کی علامت ہے۔

 حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی الله عنہ کی سیرتِ طیبہ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ بچپن ہی سے نیک، سچے، متقی اور راست گو تھے۔ آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے شہر جیلان میں حاصل کی اور بعد ازاں اعلیٰ دینی تعلیم کے لئے بغداد تشریف لے گئے۔ علم و عمل اور تقویٰ میں ایسی رفعت حاصل کی کہ وقت کے بڑے بڑے علماء و مشائخ آپ کے فیض یافتہ بن گئے۔ آپ کا دل قرآن و سنت کے نور سے منور اور زبان حکمت و دانائی سے لبریز تھی۔ آپ نے شریعت و طریقت دونوں کو یکجا کر کے دینِ اسلام کو ایک ایسی جامع اور خوبصورت شکل میں پیش کیا کہ ہر خاص و عام آپ کا گرویدہ ہوگیا۔ آپ کا وعظ دلوں کی دنیا بدل دیتا، آپ کی نظر سے گناہگاروں کے دل بدل جاتے، آپ کی زبان سے نکلے الفاظ روح میں اتر جاتے۔ آپ کا فیض صرف زندوں تک نہیں بلکہ ان کی قبروں تک پہنچا۔ بغداد جیسے شہر جہاں علم و فضل کی کوئی کمی نہ تھی وہاں بھی آپ کا حلقہ درس و ارشاد سب سے زیادہ اثرانگیز ثابت ہوا۔

 حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی الله عنہ کا اصل کمال یہ ہے کہ آپ نے اپنی زندگی کو محض عبادت و ذکر اور مجاہدے تک محدود نہیں رکھا بلکہ اپنی تعلیمات و عمل اور کردار سے امت کو زندہ کیا، اس کی روحانی پیاس بجھائی اور ایک ایسا نظامِ تربیت پیش کیا جو آج بھی خانقاہوں اور روحانی مراکز میں رائج ہے۔ ہدایت کا طالب اگر آج بھی آپ کے مواعظ و ملفوظات کا مطالعہ کرے تو صدیاں بیت جانے کے باوجود فرامینِ غوثیہ میں تاثیر محسوس کرتا ہے۔ قارئین مختلف پہلوؤں سے حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی الله عنہ کے افکارِ عالیہ آپ کی تصنیف فتح الربانی سے ملاحظہ فرمائیں۔ جن پر عمل پیرا ہوکر مادہ پرستی کے اس عہدِ سیاہ میں زندگی بسر کرنے والا انسان اپنے ظاہر و باطن کو نورِ ایمان سے منور کرسکتا ہے۔ 

          علم اور عمل کی مطابقت

  آج جس دور میں ہم زندگی بسر کر رہے ہیں اسے علمی ترقی کا دور کہا جاتا ہے۔ سائنسی انکشافات، برقی ذرائع نے قرب و بعد کے فاصلے سمیٹ دیئے ہیں۔ ڈگریوں کی صورت کاغذ کے پرزے اٹھائے ہر کوئی خواندگی کے گیت آلاپ رہا ہے مگر اس کے باوجود معاشرہ روز بروز تنزلی کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ اس کا سبب علم و عمل کی دوئی ہے۔ آج علم برائے عمل حاصل نہیں کیا جاتا بلکہ علم برائے معاش حاصل کیا جاتا ہے۔ علم و عمل کی اس دوئی نے تہذیب و اخلاق کی بنیادوں کو کھوکھلا کردیا ہے حالانکہ دونوں کے اجتماع سے انسان اور معاشرے میں تہذیب پیدا ہوتی ہے۔ قرآن مجید نے بے عمل عالم کو ایسے گدھے سے تشبیہہ دی ہے جس پر کتابیں لاد دی جائیں لیکن اس کے اخلاق و عمل میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ محبوب سبحانی حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی الله عنہ فرماتے ہیں:

’’جس شخص کا علم زیادہ ہو اسے چاہئے کہ خوفِ خدا اور عبادت بھی زیادہ کرے۔ علم کے مدعی! خوفِ خدا سے تیرا رونا کہاں ہے؟ تیرا ڈر اور دہشت کہاں ہے؟ گناہوں کا اقرار کہاں؟ رات اور دن عبادت میں ایک کر دینا کہاں؟ نفس کو باادب بنانا اور الحب لله والبغض لله کہاں؟ تمہاری ہمت جبہ و دستار، کھانا، نکاح، دکان، خلقت کی محفل اور ان کا انس ہے اپنی ان تمام چیزوں سے خود کو الگ کر۔ یہ چیزیں اگر تمہارے نصیب میں ہیں تو اپنے وقت پر مل جائیں گی اور تمہارا دل انتظار کی کوفت سے آرام پائے گا‘‘۔ (فتح الربانی:82)

             اخلاصِ عمل

 اخلاص دین اسلام کی بنیادی تعلیم ہے کہ انسان جو بھی عمل کرے وہ اخلاص کے ساتھ کرے۔ کوئی بھی بڑے سے بڑا عمل بارگاہِ الہٰی میں درجہ قبولیت پانے سے محروم رہتا ہے اگر وہ ریاکاری اور دنیا والوں کے دکھاوے کے لئے کیا جائے۔ جبکہ اخلاص سے کیا گیا کم تر عمل بھی حضورِ حق میں بڑی قدر و منزلت کا حامل ہوتا ہے۔ صوفیائے کرام کی حیاتِ طیبہ کا اہم ترین پہلو یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر عمل خالص الله کی رضا کے لئے کرتے ہیں اور اپنے مریدین و مخلصین کو بھی اس کی تلقین کرتے ہیں۔ اخلاصِ عمل کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی الله عنہ فرماتے ہیں:

’’ تجھ پر افسوس! تو مشرک، منافق، بے دین مرتد ہے۔ تجھ پر افسوس! ملمع کس کو دکھاتا ہے جو آنکھوں کی خیانت اور سینے کے رازوں سے واقف ہے۔ تجھ پر افسوس! نماز میں کھڑا ہوکر الله اکبر کہتا ہے اور جھوٹ بھی بولتا ہے۔ تیرے دل میں مخلوق الله سے بڑی ہے۔ الله کے سامنے توبہ کر۔ نیک عمل غیر کے لئے نہ کر اور نہ دنیا اور نہ آخرت کے لئے کر بلکہ خاص الله کی ذات کا ارادہ رکھ۔ ربانی پرورش کا حق ادا کر۔ تعریف اور صفتِ عطا اور بے عطا کے لئے عمل نہ کر۔ تجھ پر افسوس! تیرا رزق کم زیادہ نہ ہوگا، نیکی اور بدی کا تجھ پر حکم لگ چکا ہے وہ ضرور آئے گی۔ جس چیز میں فراغت ہے اس میں مشغول نہ ہو۔ اس کی عبادت میں لگا رہ، حرص کم، امید کو تاہ اور موت آنکھوں کے سامنے رکھ ضرور نجات حاصل کرے گا۔ تمام احوال میں شریعت کی پابندی کر‘‘۔ (فتح الربانی:167)

 اخلاص کے دواخانے

  نفاق، ریاکاری، غرور و تکبر، حسد،  بغض، کینہ ایسے باطنی امراض ہیں کہ جو بڑے سے بڑے عمل کو بھی خاکستر کر دیتے ہیں لیکن یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ جب تک انسان ان سے نجات نہیں پاتا اس وقت تک نہ وہ روحانی مقام حاصل کرسکتا ہے اور نہ اس میں ترقی و کمال حاصل کرسکتا ہے۔ اگرچہ یہ باطنی بیماریاں ہیں مگر ان کے تباہ کن اثرات انسان کی ظاہری شخصیت پر بھی پڑتے ہیں اور یوں وہ ظاہری اور باطنی ہر دو اعتبار سے ایک قابلِ رحم مریض کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔ مگر حکیمِ حاذق جو ان روحانی امراض کا ماہر معالج ہو اس کو تلاش کرنا پڑتا ہے۔ وہ شیخِ کامل اور مردِ خدا ہوتا ہے جو اپنی نگاہِ کیمیا ساز سے باطن کی بیماریوں کا علاج کرکے مریض کو روحانی حیاتِ نو سے بہرہ یاب کر دیتا ہے۔ وہ معالج کون اور کہاں سے دستیاب ہوتے ہیں؟ حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی الله عنہ ان کی نشان دہی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

  ’’ریا کار! تجھ پر افسوس الله کو دھوکہ نہ دے، عمل کرکے ظاہر کرتا ہے کہ الله کے لئے ہے حالانکہ مخلوق کے لیے ہے۔ ان کو دکھاتا ہے اور ان سے نفاق کرکے چاپلوسی کرتا ہے اور اپنے رب کو بھلا دیتا ہے۔ تو عنقریب دنیا سے مفلس ہوکر نکلے گا۔ باطن کے بیمار! اس مرض کا علاج کر۔اس کی دوا الله کے بندوں، صالحین کے سوا اور کہیں نہ ملے گی۔ ان سے دوا لے کر استعمال کرے گا تو ہمیشہ کے لئے تندرستی اور صحتِ ابدی حاصل ہوگی۔ تیرا دل باطن اور خلوت الله کے ساتھ ہو جائے گی۔ تیرے دل کی آنکھیں کھلیں گی اور تو اپنے رب کو دیکھے گا۔ تیرا شمار محبین میں ہوگا جو اس کے دروازے پر کھڑے ہیں اور الله کے سوا غیر کو نہیں دیکھتے ہیں۔ تیرا دل تو بدعت سے پُر ہے۔ الله تعالیٰ کا دیدار کس طرح کرسکتا ہے؟‘‘ (فتح الربانی: 253)

           شکوہ نہ کر

 آج کے معاشرہ کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ الوہی نعمتوں پر شکر ادا کرنے کے بجائے بالعموم شکوہ کناں رہتے ہیں جس کے باعث لوگ بہت سی نعمتوں سے محروم رہتے ہیں۔ حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی الله عنہ فرماتے ہیں:

   ’’خالق کا شکوہ مخلوق سے نہ کر بلکہ خالق ہی سے کر، اسی نے سب اندازے لگائے ہیں دوسرے نے نہیں‘‘۔ (فتح الربانی؛ 839)

  ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:

   ’’غیر الله کے پاس گلہ اور شکایت نہ کرو کیونکہ اس سے تم پر اور بَلا بڑھے گی بلکہ خاموش اور ساکن اور گم ہو رہو۔ اس کے سامنے ثابت قدم رہو اور دیکھو کہ وہ تمہارے ساتھ اور تمہارے درمیان کیا کرتا ہے اور اس کے تصرفات پر اظہارِ خوشی کرو۔ اگر تم اس کے ساتھ اس طرح پیش آؤ گے تو ضرور وحشت کو انسیت سے اور رنج و تنہائی کو خوشی سے بدل دے گا‘‘۔ (فتح الربانی:66)

 مزید فرماتے ہیں:

  ’’خلقت کی شکایت کرنے سے اپنی زبان کو روک، رضائے الہٰی کے لئے اپنے نفس اور مخلوق کا دشمن بن جا۔ اس کی تابع فرمانی کا حکم کر اور گناہ سے روک۔ ان کو گمراہی و بدعت، حرص اور موافقتِ نفس سے باز رکھ۔ الله تعالیٰ کی کتاب اور نبی کریم ﷺ کی تابع فرمانی کا حکم کر‘‘۔ (فتوح الغیب 133)

   حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی الله عنہ کا اندازِ تربیت یہ تھا کہ آپ نے اپنے مواعظِ حسنہ میں نہ صرف روحانی امراض کی نشان دہی فرمائی بلکہ ان بیماریوں سے نجات حاصل کرنے کے لئے نسخہ بھی تجویز کیا اور علاج بھی بتایا کہ کس طرح ان سے خلاصی پاکر قرب الہٰی حاصل کیا جاسکتا ہے۔

         کسبِ حلال اور توکل

 روحانی مقامات کی ترقی و کمال میں رزق حلال کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ وہ جسم جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کی پرورش حرام مال سے ہوئی ہوگی۔ پس جس پیٹ میں حرام کا لقمہ ہے اس کے منہ سے نکلنے والی دعا کب قبول ہوسکتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اسلامی آداب و اخلاق کے اندر کسبِ حلال پر بڑا زور دیا گیا ہے۔ حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی الله عنہ کے افکار کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے مواعظِ حسنہ میں کسبِ حلال کی اہمیت کو نہ صرف واضح کیا بلکہ اس امر پر بھی زور دیا کہ بارگاہِ الہٰی کے قرب کے لئے پیٹ میں جانے والے ہر لقمے کا حلال اور پاکیزہ ہونا بھی شرط ہے۔ بصورتِ دیگر اس راہ کا مسافر منزلِ مراد تک نہیں پہنچ سکتا۔ اس سلسلہ میں حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی الله عنہ فرماتے ہیں:

   ’’نیک کمائی اور سبب سے تعلق لازم کرو یہاں تک کہ ایمان قوی ہو جائے، پھر سبب کو چھوڑ کر مسبب کی طرف چلا آ۔ حضرات انبیائے کرام علیہم السلام اپنے ابتدائی احوال میں کسب کرتے، قرض لیتے اور پابندِ اسباب رہتے ہیں اور آخر میں توکل کرتے ہیں۔ کسب اور توکل کو شروع اور اخیر میں شریعۃً اور حقیقۃً جمع کرلیتے ہیں۔ بیٹا! نفس کو خواہشوں اور لذتوں سے روکو، اس کو پاک روزی کھلاؤ، نجس نہ بنو، پاک حلال ہے اور حرام نجس ہے۔ نفس کو غذائے حلال دو تاکہ اترائے نہیں اور ناک منہ چڑھا کر گستاخ نہ بنے‘‘۔ (فتح الربانی:165)

         دل کی زندگی اور موت

  دل کی زندگی اور موت کی وضاحت میں حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی الله عنہ نے فرمایا:

      ’’بیٹا! حرام کی روزی سے تیرا دل مرتا ہے اور حلال کی روزی سے زندہ ہوتا ہے۔ ایک لقمہ تیرے دل کو منور کرتا ہے اور ایک لقمہ سیاہ کرتا ہے۔ ایک لقمہ دنیا میں اور ایک لقمہ آخرت میں مشغول کرتا ہے۔ ایک لقمہ دونوں سے بے رغبت کرتا ہے اور ایک لقمہ خالق میں مشغول کرتا ہے۔ حرام کی روزی دنیا میں مشغول کراتی ہے اور گناہوں سے پیار کراتی ہے۔ حلال طعام آخرت میں لگاتا ہے، اطاعتِ الہٰی سے محبت کراتا ہے اور دل کو مولیٰ سے قریب کرتا ہے۔ کیا تو نے نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد نہیں سنا:

   ’’جو شخص اس کی پرواہ نہیں کرتا کہ اس کا کھانا پینا کہاں سے ہے؟ تو الله تعالیٰ بھی پرواہ نہیں کرتا کہ دوزخ کے دروازوں میں سے اس کو کس دروازے میں سے داخل کرے‘‘۔ (فتح الربانی:232)

          برداشت پیدا کرو

  آج عدمِ برداشت کے کلچر نے پوری دنیائے اسلام ہی نہیں بلکہ پوری دنیائے انسانی کا امن خاک میں ملا دیا ہے۔ دہشت گردی کا فروغ اسی کا ایک لازمی نتیجہ ہے۔ اسلام اخوت و محبت، تحمل و بردباری کا علمبردار دین ہے۔ مگر آج کچھ نادان دوستوں کی غلط کاریوں اور خود تراشیدہ تصورات کی وجہ سے ادیان عالم میں محبتوں کے امین اس دین کو دہشتگرد اور امن دشمن قرار دیا جارہا ہے۔ صوفیائے کرام کی تعلیمات کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ انہوں نے اپنے اپنے زمانہ میں مذہب کے نام پر انسانوں میں دوریاں پیدا نہیں کیں بلکہ مخلوقِ خدا ہونے کی بنیاد پر ہر ایک کے ساتھ رواداری اور حسنِ سلوک کا معاملہ کیا۔ چنانچہ ان کے اس طرزِ عمل سے گلشنِ اسلام میں بہار آئی اور لوگ ایسے مخلص مبلغین اسلام کے طرزِ عمل، سیرت و کردار سے متاثر ہوکر دامنِ اسلام میں پناہ لینے لگے اور اس طرح اسلام انسانیت کے خیر خواہ ہونے کے باعث ایک آفاقی دین بن گیا اور چہار دانگ عالم میں دینِ محمدی ﷺ کا پھریرا لہرانے لگا۔ برداشت کا درس دیتے ہوئے حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی الله عنہ فرماتے ہیں:

   ’’بیٹا! برداشت کو اپنے اوپر لازم پکڑ اور شر کو دور کر۔ کلموں کے بہت سے ساتھی ہیں۔ جب تم سے کسی نے ایک کلمہ شرارت کا کہا اور تم نے اس کا جواب دیا تو اس کلمہ بد کے اور شریر ساتھی آجائیں گے حتیٰ کہ تم دونوں کلام کرنے والوں کے درمیان شرارت قائم ہو جائے گی‘‘۔ (فتح الربانی: 109)

  حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی الله عنہ کی تعلیمات میں اخلاص کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اخلاص کے بغیر کوئی عمل عند الله مقبول نہیں ہوتا۔ اس لئے معاشرتی اصلاح کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ ہر فرد جو بھی نیکی کا عمل کرے وہ صرف اور صرف اخلاص اور للہیت سے الله تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے سر انجام دے۔ حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی الله عنہ نے اپنی تعلیمات میں دہشت گردی و انتہاء پسندی کی شدید مذمت کی ہے۔ لہٰذا! حضور غوث پاک رضی الله عنہ سے عقیدت و محبت کا تقاضا ہے کہ معاشرے کے تمام افراد آپس میں اخوت و محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس طرح زندگی بسر کریں کہ ہر طرف ایثار و قربانی کے پھول کھلتے نظر آئیں اور محبت کی مہک معاشرے کے ہر فرد کے مشامِ جاں کو معطر کررہی ہو۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter