سلام رضا میں سراپائے محبوب کی ضیاپاشیاں (۵)

                صدیاں بیت گئیں۔ رحمت عالم نور مجسم خسروئے خوباں سیاح لامکاں روحی فداہ مصطفی جان رحمت ﷺ کے ذاتی کمالات، فضائل جسمیہ، اعضاء مبارکہ کے خصائص وشمائل اور معجزات وبرکات، خیرات وثمرات کے حسین عنوانات پر علماء سلف و مصنفین عظام نے مجلدات در مجلدات خامہ فرسائی فرمائی لیکن سب نے آخر قلم توڑ کر اپنی کوتاہی اور خامی کا اعتراف کرتے ہوئے یہی کہا کہ۔۔۔۔۔

لا یمکن الثناء کما کان حقہ

بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

زندگیاں ختم ہوئیں اور قلم ٹوٹ گئے

تیری توصیف کا اک باب بھی پورا نہ ہوا

                اور یہ ناممکن بھی ہے کہ آپ ﷺ کے حسن وجمال کو الفاظ کے پیکر میں ڈھالا جائے۔ آج تک کسی نے آپ کے جمال جہاں آرا کو اپنے سر چشم دیکھا ہی نہیں۔ خود شاعر رسول ﷺ کے وہ عاجزانہ کلمات سنیے وہ کہتے کہ ’لما نظرت الی انوارہ وضعت کفی علی عینی خوفا من ذھاب بصری‘میں جب بھی حضور پر وقار ﷺ کے انوار وتجلیات کا مشاہدہ کرتا تو اپنی ہتھیلی اپنی آنکھوں پر رکھ لیتا اس لیے کہ روئے منور کی تابانیوں وضیاپاشیوں سے کہیں میری بینائی نہ چلی جائے۔ آپ کے حسن وجمال پر بہتوں نے قلم زنی کرنے کی جسارت تو کی لیکن آخر اپنی کم مائیگی اور قلیل البضاعتی کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوئے۔ کیونکہ خلاق کائنات نے اس حسن لا مثیل کو اپنی تخلیق کا شاہکار بناکر اور کمال قدرت سے سجاکر یوں فرمایا:  فَارْجِعِ الْبَصَرَہَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍ، ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِءًا وَّ ہُوَ حَسِیْرٌ۔ پس تو نگاہ اٹھا کر دیکھ، کیاتجھے کوئی رخنہ نظر آتا ہے؟ پھر دوبارہ نگاہ اٹھا کر دیکھ، نگاہ تیری طرف ناکام ہو کر تھکی ماندی پلٹ آئے گی۔(سورۃ الملک:3-4) اس نوری پیکر کو بار بار دیکھو تمہاری آنکھیں تو خیرہ ہوجائیں گی لیکن اس جمال جہاں آراء میں کچھ نقص نظر نہیں آئے گا۔ آئے گا بھی کیسے وہ تو بے عیب ہیں۔ اسی لیے تو حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

خلقت مبرء اََ من کل عیب

کانّک قد خلقت کما تشاء

تمہیں پیدا کیا ہر عیب سے یوں پاک فرما کر

کہ جیسے اپنی مرضی سے بنے ہو نازنیں جاناں

اسی کی عکاسی فرماتے ہوئے امام عشق و محبت فرماتے ہیں۔

وہ کمالِ حُسنِ حضور ہے کہ گمانِ نقص جہاں نہیں

یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں

شعر و سخن کی دنیا کے بڑے بڑے نامدار تخیل کے بحر عمیق میں غوطہ زنی کرنے والے اس جوہر حسن کی جولانیوں میں گم ہوکر کہتے ہیں:

ندانم کدامی سخن گویمت

کہ در وصفِ تو عاجز آمد قلم

تیرے تو وَصْف عیبِ تناہی سے ہیں بری

حیراں ہوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے

                آج اس بزم سخن میں یہ ناتواں آپ کے لعاب مبارک کی خیرات کا ذکر چھیڑنے والا ہے۔ وہ بھی کلام امام اہل سنت کے حوالے سے۔ تو چلیے محبوب کبریا ﷺ کے آب دہن کی برکتوں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ اعلی حضرت امام عشق و محبت فرماتے ہیں:

جس کے پانی سے شاداب جان و جِناں

اس دَہن کی طَراوَت پہ لاکھوں سلام

جس سے کھاری کنویں شیرہئ جاں بنے

اس زُلال حَلاوَت پہ لاکھوں سلام!

                ان اشعار میں سرکار اعلی حضرت فرماتے ہیں کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ کے لعاب دہن سے بہشتیں سرسبز وشاداب ہیں۔ جنت کا ہر کوچہ اس کی بہاروں سے تروتازہ ہے۔ ایسے پاکیزہ تازگی بھرے لعاب دہن پر لاکھوں سلام۔ آگے فرماتے ہیں یا رسول اللہ ﷺ آپ کے لعاب مبارک کے جھوٹے سے کھاری کنوئیں بھی ماء زلال اور شیریں شربت سے میٹھے بن جاتے ہیں۔ ایسے حلاوت آمیز ومیٹھے ٹھنڈے لعاب مبارک پر لاکھوں سلام نازل ہوں۔ اب ذرا اس لعاب مبارک کی عظمت سنیے! صحابیہ رسول ﷺ حضرت عمیرہ بن مسعود روایت کرتی ہیں: أنہا دخلت ہی وأخواتہا - وہن خمس - علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فبایعنہ، ووجدنہ یأکل قدیدا، فمضغ لہن قدیدۃ ثم ناولہن إیاہا فاقتسمنہا، فمضغت کل واحدۃ منہن قطعۃ، قال: فلقین اللہ ما وجدن فی أفواہہن خلوفا، ولا اشتکین من أفواہہن شیئا۔ یعنی حضرت عمیرہ بن مسعود فرماتی ہیں کہ ایک دن ہم پانچوں بہنیں بیعت کرنے حضور پرنور ﷺ کی بارگاہ عالیہ میں حاضر ہوئیں۔ آپ اس وقت دھوپ میں سوکھا گوشت (قدید)تناول فرمارہے تھے۔ آپ ﷺ نے اس کا ایک ٹکڑا چباکر ہمیں دیا ہم نے اس کو تقسیم کرکے کھالیا۔ آگے وہ فرماتی ہیں کہ اللہ کی عزت وجلال کی قسم تاحیات ہم پانچوں بہنوں کے منہ سے خوشبو آتی تھی۔ (حلیۃ الاولیاء)

                اب حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت سنیے! آپ فرماتے ہیں۔ صحبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ عشر سنین وشممت العطر کلہ فلم أشم نکہۃ أطیب من نکہتہ۔ میں دس سال تک حضور صاحب لولاک ﷺ کی خدمت بافیض میں رہا اور میں نے ہر قسم کا عطر سونگھا لیکن آپ کے منہ مبارک کی مہک سے زیادہ عمدہ مہک نہیں سونگھی۔ (طبقات ابن سعد)

                ان مذکورہ روایات کے علاوہ کتب احادیث نبویہ میں لعاب مبارک کی برکات وخیرات کا بے شمار ذکر ملتا ہے۔ اس موضوع پر کئی سارے علماء کرام مستقل رسالے تک لکھ چکے ہیں۔ مثلاً لعاب نبوی کی برکات از علامہ مفتی محمد اللہ بخش تونسوی قادری، استاد الحدیث جامعہ اسلامیہ لاہور، برکات لعاب مصطفی ﷺ از مفتی اسد الرحمن چشتی، برکات لعاب رسول ﷺ از مولانا محمد علاء الدین مصطفائی، لعاب مصطفیﷺ از ڈاکٹر حافظ احمد عثمان، اس کے علاوہ سیرت رسول ﷺ پر لکھی گئی تمام کتاب میں آپ کے لعاب کی برکتوں اور خیرات کا ذکر ملتا ہے۔ لہذا ہم یہاں مختصر انداز میں چند روایتیں پیش کرکے اس عنوان کو مکمل کرنا چاہتے ہیں۔ تو آئیے دیکھتے ہیں اس لعاب مبارک کی برکات وخیرات کیا ہیں۔ حضور ﷺ کا لعاب مبارک ہر درد کی دواء ہے۔ رسول ِاکرم ﷺ کا لعاب دہن ہر مرض کے لیے سب سے بڑھ کر اکسیر کی حیثیت رکھتا ہے۔چنانچہ اس حوالہ سے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یقول للمریض: بسم اللہ تربۃ ارضنا بریقۃ بعضنا یشفی سقینا باذن ربنا، یعنی نبی کریم ﷺ مریض کے لیے اس طرح دعا کرتے تھے: اللہ کے نام کے ساتھ ہماری زمین کی مٹی سے جو ہمارے بعض کے لعابِ دہن کے ساتھ مخلوط ہے، ہمارے بیمار کو شفاء ملتی ہے، ہمارے رب کے حکم سے۔ لعاب مبارک سے مولائے کائنات رضی اللہ عنہ کی آنکھ کی شفایابی کا واقعہ کافی مشہور ہے۔ اس واقعے میں حدیث کا یہ ٹکڑا کافی دلچسپ ہے۔ فاتی بہ فبصق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی عینیہ ودعا لہ فبرأ حتی کان لم یکن بہ وجع فاعطاہ الرایۃ۔ اورپھر انہیں لایا گیا تو رسول  ﷺ نے ان کی آنکھوں میں لعاب دہن لگایا اور دعا فرمائی تو وہ ٹھیک ہوگئیں اور ایسا ہوگیا گویا درد ہی نہ تھا۔پھر آپﷺ نے انہیں جھنڈا عطا فرمایا۔(صحیح مسلم)

                اخیر میں ہم یہاں علامہ سیدی شیخ محمد بن سلیمان الجزولی، صاحبِ دلائل الخیرات کا دل افروز واقعہ نقل کرتے ہیں جس کو علامہ یوسف النبہانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تصنیف لطیف سعادت الدارین فی الصلوۃ علی سید الکونین ﷺ میں لکھا ہے۔ آپ یوں رقم طراز ہیں کہ سید احمد انصاری مالکی نے شرح علی صلوات قطب الدردیر میں لکھا ہے کہ دلائل الخیرات شریف کی تالیف کا سبب یہ ہے کہ اس کے مولف شیخ محمد بن سلیمان الجزولی نے ایک مرتبہ نماز پڑھنے کا ارادہ فرمایا۔ وضو کرنے کے لیے اٹھے مگر کنویں سے پانی نہ پایا، اسی دوران وہ ادھر ہی کھڑے تھے کہ ایک چھوٹی سی بچی نے ان کو اونچے مکان سے دیکھ لیا، بچی نے آپ سے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ آپ نے اپنے بارے میں جب اسے بتایا تو بچی کہنے لگی آپ کے تو ہر طرف خیر کے چرچے ہیں مگر آپ کنویں سے پانی نکالنے میں حیران وپریشان کھڑے ہیں۔اس بچی نے کنویں میں تھوک ڈال دی سو اس کا پانی سطح زمین پر کثرت کے ساتھ بہنے لگا۔ سیدی شیخ محمد بن سلیمان جزولی نے وضو فرماکر اس بچی سے دریافت فرمایاکہ میں تمہیں قسم دیتا ہوں! بتاؤ یہ مرتبہ تمہیں کس وجہ سے ملا ہے؟تو وہ بچی کہنے لگی:بکثرۃ الصلاۃ علی من کان اذا مشی فی البئر الاقفر تعلقت الوحوش باذیالہ صلی اللہ علیہ وسلم، یعنی اس ذات اقدس پر کثرت کے ساتھ درود شریف پڑھنے سے مجھے یہ مرتبہ ملا ہے جو بے آب وگیاہ میدان میں جب چلتے ہیں تو وحشی جانور بھی ان کے دامن رحمت کے ساتھ چمٹ جاتے ہیں۔اس کے بعد شیخ محمد بن سلیمان جزولی نے قسم کھائی کہ میں ضرور حضور ﷺکی ذات اقدس پر درود شریف پڑھنے کی فضیلت پر ایک عمدہ کتاب تحریر کروں گا۔پھر انہوں نے دلائل الخیرات شریف تالیف فرمائی۔

                حضور ﷺکا لعاب دہن دواء، شفاء اور تبرک ہے جو ہر زخم کا مرہم اور ہر غم کا مداوا ہے۔ انسانی لعاب کے بارے میں انسانی تصورات اگرچہ کہ نہایت محدود ہیں کہ وہ صرف انسانی دہن میں پیدا ہونے والا سیال ہے جو زبان کو تر اور کھانے کو چبائے جانے کے بعد حلق سے معدہ کی طرف اتارنے میں مددگارو معاون مادہ ہے۔لیکن آپ ﷺ کا لعاب مبارک دیگر لوگوں کے تھوک سے جداگانہ حیثیت کا حامل ہے۔ جس طرح آپ کی ذاتِ ستودہ صفات تمام مخلوق سے جدا وممتاز ومنفرد و بے مثال وبے نظیر ہے اسی طرح آپ کا لعاب اور آب دہن بھی سب سے ممتاز ومنفرد ہے۔ اسی لیے تو امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:

مُنَزَّہٌ عَنْ شَرِیْکٍ فِیْ مَحَاسِنِہٖ

فَجَوْھَرُ الْحُسْنِ فِیْہِ غَیْرُ مُنْقَسِمٖ

                محبوب خدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنی خوبیوں میں ایسے یکتا ہیں کہ اس معاملہ میں ان کا کوئی شریک ہی نہیں ہے۔ کیونکہ ان میں جو حسن کا جوہر ہے وہ قابل تقسیم ہی نہیں (قصیدہ بردہ شریف)۔ اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب قبلہ بریلوی قدس سرہ العزیز بھی اس مضمون کی عکاسی فرماتے ہوئے کتنے نفیس انداز میں فرماتے ہیں کہ۔۔۔۔۔

ترے خُلق کو حق نے عظیم کہا تری خَلق کو حق نے جمیل کیا

کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہو گا شہا ترے خالق حسن و ادا کی قسم

ان دو بزرگوں سے پہلے بارگاہ نبوت میں شاعر رسول ﷺ نے یہی کہا تھا:

لَمْ یَخْلُقِ الرَّحْمٰنُ مِثْلَ مُحَمَّدٍ

اَبَدًا وَّ عِلْمِیْ اَنَّہٗ لَا یَخْلُقُ

وَاَحْسَنَ مِنْکَ لَمْ تَرَقَطُّ عَیْنِیْ

وَاَجْمَلَ مِنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَآءُ

خُلِقْتَ مُبَرَّءًمِّنْ کُلِ عَیْبٍ!

کَاَنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَآءُ

ترجمہ اشعار:

۱)اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مثل پیدا فرمایا ہی نہیں اور میں یہی جانتا ہوں کہ وہ کبھی نہ پیدا کرے گا۔

۲)یا رسول اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آپ سے زیادہ حسن و جمال والا میری آنکھ نے کبھی کسی کو دیکھا ہی نہیں اور آپ سے زیادہ کمال والا کسی عورت نے جنا ہی نہیں۔

۳) یا رسول اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آپ ہر عیب و نقصان سے پاک پیدا کیے گئے ہیں، گویا آپ ایسے ہی پیدا کیے گئے جیسے حسین و جمیل پیدا ہونا چاہتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالی آپ ﷺ کی محبت سے ہمارے سینوں کو منور ومجلی فرمائے اوران کے لعاب مبارک کی خیرات وبرکات اور ثمرات ہمیں بھی عطا فرمائے، آمین! بجاہ السید الامین صلی اللہ علیہ وسلم۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter