صالح اسلامی معاشرہ کی تشکیل کے لیے  چند رہنما خطوط (پہلی قسط)

 آج جب کہ میں یہ مضمون سپردِ قلم کر رہا ہوں سنگم بہار دہلی کی رہنے والی سابعہ کے دردناک قتل کے خلاف دہلی کے احتجاجی مظاہروں میں شدت بتدریج بڑھتی جارہی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ مظاہرین مظلوم سابعہ کو کہاں تک انصاف دلاسکیں گے۔ امید یہی ہے کہ دہلی کے گلیاروں میں ان کی یہ آواز بھی نقار خانے میں ایک طوطی کی صدا ثابت ہوگی اور انسانی بھیڑیے کل کسی اور سابعہ کو اپنا شکار بنالیں گے۔

      سابعہ کے ساتھ جو غیر انسانی سلوک ہوا اور اسے جتنی بے دردی کے ساتھ قتل نہیں بلکہ ذبح کیا گیا اس سے پوری دنیا میں ہندوستان کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ پہلے اس کی اجتماعی عصمت دری کی گئی پھر بڑی بے دردی کے ساتھ اس کی جان لی گئی یہاں تک کہ اس کے نسوانی اعضا بھی کاٹ کاٹ کر الگ کردیے گئے پھر اسے جھاڑیوں میں پھینک دیا گیا اس کے مردہ جسم پر چاقوؤں کے درجنوں نشانات اس کے دردناک قتل کی کہانی سنا رہے تھے حیرت بالائے حیرت یہ ہے کہ اس طرح کی وارداتیں تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ ہمارے گردو پیش اور اطراف و جوانب میں روز مرہ ملک کی سیتائیں اور مریم یکے بعد دیگرے حرص و ہوس کے پجاریوں کی بھینٹ چڑھتی جارہی ہیں، تہذیب و شرافت کے دشمن پہلے ان سے اپنی ہوس کی پیاس بجھاتے ہیں پھر انہیں ہلاک کرکے ان کی لاشیں کسی جھاڑ جھنکاڑ میں پھینک دیتے ہیں پھر وہ آرام سے کسی اور شکار گاہ کی طرف نکل جاتے ہیں چند دنوں تک گلی کوچوں میں چور آیا چور آیا کا شور سنائی دیتا ہے اور پھر ہمیشہ کے لیے موت کا سناٹا چھا جاتا ہے  لگتا ہے کہ ملک میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں رہ گئی ہے انصاف نام کا کوئی ادارہ نہیں رہ گیا ہے جہاں پر مظلوموں کی داد رسی ہوسکے اور ظالموں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کر کے انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جاسکے ان حالات میں بحیثیت مسلمان ہماری کیا ذمہ داری ہے ؟ ہم اپنی بچیوں کی عزت و آبرو, جسم و جان کی حفاظت کے لیے کس درجہ مستعد اور چوکس ہیں ؟ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس پر سنجیدگی سے غور کریں اور کوئی ایسا لائحۂ عمل مرتب کریں کہ دن کے اجالے میں بیچ چوراہے پر ہماری عزت و آبرو کا جنازہ نہ نکل سکے بس اسی نقطہ پر میں آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں. 

    انسانی زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے؛ جس میں ایک مسلمان بلکہ ایک انسان کے لیے اسلام میں رہنما ہدایات موجود نہ ہوں۔ اسلام نے بنی نوع انسان کے لیے جو رہنما خطوط متعین کیے ہیں اگر انسان ان کو تجاوز نہ کرے تو وہ کبھی بھی ذلیل و خوار اور شرمناک حالات کا سامنا نہیں کر سکتا ہے۔ ایک مسلمان  چوں کہ مذہب اسلام پر یقین رکھتا ہے اس لیے اس پر لازم ہے کہ وہ خود کو اسلامی دائرے میں محدود رکھے اور کبھی بھی اس کی حد نہ پار کرے اور اپنی اولاد کو بھی اطاعت الٰہی کی ترغیب دے اور اس پر خود بھی عمل پیرا رہے اللہ کے رسول نے دین اسلام کو عام مسلمانوں کا خیر خواہ قرار دیا ہے لیکن یہ خیر خواہی اسی وقت ہوسکتی ہے جب ہم اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اپنی زندگی گزاریں ہماری رفتار و گفتار, حرکات و سکنات, قول و فعل سے بھی یہ ظاہر ہو کہ ہم اللہ کے بندے اور اس کے رسول کے نام لیوا ہیں. 
    اب ہم یہاں پر قرآن و احادیث کی روشنی میں کچھ ایسے نکات پیش کرتے ہیں ؛ جن پر عمل کرکے ہم اپنے اہل و عیال کو خطرات و نقصانات سے بچا سکتے ہیں۔

 (1) تعلیم و تربیت : ابتدائی عمر سے ہی بچوں اور بچیوں کی تعلیم و تربیت پر خاص دھیان دیا جائے اور ان کے اخلاق کی کڑی نگرانی کی جائے ان کی آمد و رفت, نشست و برخاست. حرکات و سکنات. صحبت و سنگت اور عادات و اطوار پر سختی کے ساتھ نظر رکھی جائے اور کسی بھی حال میں انہیں آزاد نہ چھوڑا جائے اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:  
      یٰۤاَیُّہَا  الَّذِیۡنَ  اٰمَنُوۡا قُوۡۤا  اَنۡفُسَکُمۡ  وَ اَھْلِیۡکُمۡ  نَارًا وَّ قُوۡدُھَا  النَّاسُ وَ الۡحِجَارَۃُ  عَلَیۡھَا مَلٰٓئِکَۃٌ  غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعۡصُوۡنَ اللّٰہَ مَاۤ  اَمَرَھُمۡ وَ یَفۡعَلُوۡنَ مَا  یُؤۡمَرُوۡنَ ﴿۶﴾[التحریم، الآیۃ: 6]
      اے ایمان والو! اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں اس پر سخت کرّے ( طاقتور ) فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کا حکم نہیں ٹالتے اور جو انہیں حکم ہو وہی کرتے ہیں۔(کنز الایمان)

     جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی تو حضرت عمر فاروق نے عرض کیا : یا رسول اللہ!ﷺ اپنے آپ کو دوزخ سے بچانے کا مفہوم تو سمجھ میں آ رہا ہے؛ لیکن ہم اپنے اہل و عیال کو جہنم سے کیسے بچائیں؟  تو اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا : " تنھونھم عمّا نھاکم اللہ و تأمرونھم بما امرکم اللہ" [الجامع لأحکام القرآن، ج: 21، ص: 94، ]
   تم انھیں اس طرح بچا سکتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں سے تمھیں منع فرمایا ہے تم اپنے اہل و عیال کو بھی ان سے روک دو اور اللہ نے جن کاموں کی بجا آوری کا تمھیں حکم دیا ہے تم انھیں بھی حکم دو کہ وہ ان کاموں کو بجا لائیں.
    حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : حضرت حسن بن علی (رضی اللہ عنہ) نے صدقہ کی کھجوروں میں سے ایک کھجور اپنے منہ میں ڈال لی تو اللہ کے رسول نے فرمایا کخ کخ اسے پھینک دو!  کیا تمھیں معلوم نہیں کہ ہم صدقے کی چیز نہیں کھاتے (مسلم شریف کتاب الزکوۃ, باب تحریم الزکاۃ علی النبی و آلہ) 
      حضرت ابو حفص عمر بن ابی سلمہ سے مروی ہے (جو اللہ کے رسولﷺ کے پروردہ ہیں) فرماتے ہیں کہ: میں بچہ تھا اور اللہ کے رسول ﷺ کی پرورش میں تھا اور میرا ہاتھ کھاتے وقت پیالے میں گھوم رہا تھا تو مجھ سے اللہ کے رسول نے فرمایا اے لڑکے! اللہ کا نام لو (بسم اللہ پڑھو)  دائیں ہاتھ سے کھانا کھاؤ اور اپنے قریب سے کھاؤ : اس کے بعد سے میرے کھانے کا طریقہ یہی رہا (صحیح مسلم, کتاب الاشربہ, باب آداب الطعام و الشراب و احکامھما) 

     حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے, آپ نے فرماتےہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : جب تمھارے بچے سات سال کے ہوجائیں تو انھیں نماز کی تلقین کرو اور جب دس سال کی عمر کو پہنچ جائیں (اور نماز نہ پڑھیں)  تو اس پر انھیں سرزنش کرو اور ان کے درمیان بستروں میں تفریق کردو! 
(سنن ابی داؤد, کتاب الصلاۃ, باب متی یؤمر الغلام با الصلوۃ)
     ایک روایت میں یوں ہے کہ جب وہ سات سال کے ہوجائیں تو انھیں نماز پڑھنا سکھاؤ اور دس سال کی عمر میں اگر وہ نماز میں کوتاہی کریں تو ان کی گوشمالی کرو! [ایضا]

     ان احادیث کا حاصل یہ ہے کہ ابتدائی عمر سے ہی بچوں کو دینی تعلیم دی جائے اور بچپن ہی سے ان کی عملی تربیت کی جائے ابتدائی عمر میں بچوں کو جو سبق پڑھایا جاتا ہے وہ ان کے دل پر نقش ہوجاتا ہے اور تادم واپسی یاد رہتا ہے بچوں کو جس کام کی عادت بچپن میں پڑجاتی ہے وہ ان کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہے مختصر یہ کہ اپنی اولاد کو اس حد تک دینی تعلیم سے ضرور آراستہ کردیا جائے کہ جب وہ عصری تعلیم کے لئے بڑی بڑی یونیورسٹیوں اور کالجوں کا رخ کریں ؛ جہاں لڑکون اور لڑکیوں کی مخلوط تعلیم کا نظم ہے تو وہ اس کے منفی اثرات کو قبول نہ کریں اور ناجائز و حرام کام کی طرف راغب نہ ہوں.
(جاری)

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter