صالح اسلامی معاشرہ کی تشکیل کے لیے  چند رہنما خطوط (دوسری  قسط)

(2) چشم و ابرو کا کمال : 

      "چشمِ خوباں خامشی میں بھی نوا پرداز ہے" ع 
        یعنی آنکھیں بے زبان ہو کر بھی باتیں کرتی ہیں بلکہ زبان جو کام مہینوں میں نہیں کرسکتی نگاہ وہ کام لمحوں میں کر دکھاتی ہے، کمان سے نکلا ہوا تیر تو خطا کرجاتا ہے؛ لیکن تیرِ مژگاں کبھی خطا نہیں کرتا اور یہ جگر کے پار بھی نہیں ہوتا کہ شکار اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور راحت و آرام کی نیند سوجائے بلکہ جب یہ جگر میں پیوست ہوتا ہے تو نہ جیتے بنتا ہے، نہ مرنے۔

   غالب کی زبان میں آپ اسے یوں کہہ سکتے ہیں: 
"کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو
 یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا"
     اسی طرح ایک اور شاعر نے کہا ہے:
      "پیغام دیا ہے کبھی پیغام لیا ہے 
     نظروں سے محبت میں بڑا کام لیا ہے"

     حاصل یہ ہے کہ نگاہ پیغام رسانی کا ایک خاموش ذریعہ ہے اور جب یہ اپنا رنگ جماتی ہے ؛ تو اچھے اچھوں کے قدم پھسل جاتے ہیں اور اس کا زہر جب رگ و پے میں اثر کرتا ہے ؛ تو آسانی کے ساتھ اترنے کا نام نہیں لیتا۔
"رگ و پے میں جب اترے زہرِ غم پھر دیکھئے کیا ہو 
ابھی تو تلخی کام و دہن کی آزمائش ہے"

    بلکہ نگاہ شہوت کی ایک اہم قاصد اور محتاط پیغامبر ہے اسی لیے کہا جاتا ہے کہ پہلے نظر، پھر مسکراہٹ، پھر سلام، پھر ملاقات، پھر وعدہ، پھر عہدو پیمان ، پھر........  
       مشہور قول ہےکہ: پہلے نظر بہکتی ہے ، پھر دل بہکتا ہے، پھر ستر بہکتا ہے، اسی لیے اسلام نے تمام مومن مردوں اور عورتوں کو نگاہوں کی حفاظت کی سخت تاکید کی ہے اور حکم دیا ہے کہ جب وہ گھروں کی چہار دیواری کے باہر قدم نکالیں تو اپنی نگاہوں کو جھکاکر رکھیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : 
     "قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنۡ  اَبۡصَارِھِمۡ وَ یَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَھُمۡ ؕ ذٰلِکَ اَزۡکٰی لَھُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ  بِمَا یَصۡنَعُوۡنَ [النور، الآیۃ: 30]

       مسلمان مردوں کو حکم دو کہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لیے بہت ستھرا ہے بے شک اللہ کو ان کے کاموں کی خبر ہے (کنز الایمان) 
     اسی طرح اللہ نے مومن عورتوں کو بھی اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کا درس دیا ہے اور نہایت مؤثر

پیرایہ بیان میں اس کا احاطہ کیا ہے. اللہ فرماتا ہے : 
    "وَ قُلۡ  لِّلۡمُؤۡمِنٰتِ یَغۡضُضۡنَ مِنۡ اَبۡصَارِھِنَّ وَ یَحۡفَظۡنَ فُرُوۡجَھُنَّ وَ لَا یُبۡدِیۡنَ  زِیۡنَتَھُنَّ  اِلَّا مَا ظَھَرَ  مِنۡھَا وَ لۡیَضۡرِبۡنَ بِخُمُرِھِنَّ عَلٰی جُیُوۡبِھِنَّ ۪ وَ لَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَھُنَّ" [النور، الآیۃ: 31]
     اور مسلمان عورتوں کو حکم دو کہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ نہ دکھائیں مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے اور دوپٹے اپنے گریبانوں میں ڈالے رہیں اور اپنا سنگار ظاہر نہ کریں.( کنز الایمان ) 

    جیسے عورتوں کی ساخت نرم و نازک ہوتی ہے ویسے ہی ان کا دل بھی نرم ہوتا ہے ان کی طبیعت انفعالی ہوتی ہے وہ بہت جلدی خارجی اثرات قبول کر لیتی ہیں اسی لیے انھیں سختی کے ساتھ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اجنبی لوگوں سے اپنی نگاہیں چار نہ کریں اور محرمین کے سوا کسی پر بھی اپنی زیب و زینت، بناؤ سنگار ظاہر نہ کریں اور جب گھر سے باہر نکلیں تو ہمیشہ پردے کا التزام کریں. 

      أم المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں اور میمونہ (أم المؤمنین) بارگاہ رسالت میں حاضر تھیں ایک نابینا صحابی حضرت ابن ام مکتوم (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)  کسی ضرورت سے حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ہمیں پردے میں جانے کا حکم فرمایا میں نے عرض کیا : یارسول اللہ!  ﷺکیا ابن ام مکتوم نابینا نہیں ہیں ؟حضور نے ارشاد فرمایا کیا تم دونوں اندھی ہو ؟ [ سنن ترمذی ، ابواب الادب / باب ماجاء فی اجتناب النساء]

ایک حدیث میں حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و سلم نےارشاد فرمایا : النظرُ سھْم مَسمُوم من سِھام ابلیس [اتہاف السادۃ, جلد 11 ,کتاب الصبر و الشکر, ص 67, دار الکتب العلمیہ بیروت]  
    نظر ابلیس کے تیروں میں سے ایک زہر آلود تیر ہے۔

    بلکہ حدیث میں زنا کے جو اسباب اور مقدمات ہیں ؛ انھیں بھی زنا سے تعبیر کیا گیا ہے اور  ایک مسلمان کو ان سے بھی دور رہنے کا حکم دیا گیا ہے. 

      حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس حدیث کے راوی ہیں۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام ارشاد فرماتے ہیں : آنکھوں کا زنا: نامحرم عورت کی طرف دیکھنا ہے. کانون کا زنا : حرام آواز کا سننا ہے. زبان کا زنا: (ناجائز)  کلام کرنا ہے. ہاتھ کا زنا : ( ناجائز)  پکڑنا ہے.  پیر کا زنا: (ناجائز)  کام کی طرف چل کر جانا ہے. اور دل خواہش اور آرزو کرتا ہے اور شرم گاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے ( مسلم, کتاب القدر, باب قدر ابن آدم حظہ من الزنا)  

       اسلام میں افراط و تفریط کا کوئی بھی تصور نہیں ہے مذہب اسلام اعتدال کا داعی اور نقیب ہے ہر کسی کے ذہن میں یہ بات آسکتی ہے کہ جہاں آمدورفت کی گرم بازاری ہو, مردوزن کا ایک ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہو کاریالیہ اور آفسوں میں مرد اور جنس مخالف ایک ساتھ کام کر رہے ہوں سفر اور دیگر مواقع پر عورت اور مرد کا آمنا سامنا ہو وہاں پر یہ کیوں کر ممکن ہے کہ کسی مرد یا عورت کی ایک دوسرے پر نظر نہ پڑے. نظر تو نظر ہے اٹھ ہی جاتی ہے. اس قسم کا سوال حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی ہوا تھا حضرت جریر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے اچانک پڑجانے والی نظر کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا: 
      "اصرِف بصرک"
       اپنی نظر پھیر لو (سنن ابی داؤد کتاب النکاح / باب فی یومر بہ من غض البصر) 
   اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی غیر محرم عورت پر قصد و ارادہ کے بغیر اچانک نظر پڑجائے تو یہ پہلی نظر ہے اور یہ معاف ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ نظر پڑتے ہی فورا ہٹا لی جائے اگر دوبارہ نظر ڈالی تو پھر اس میں قصد ارادے کا عنصر شامل ہوجائے گا اور یہ آنکھ کے زنا کے زمرے میں آجائے گا اور اب اس دوسری نظر پر مواخذہ ہوگا اسی طرح عورتوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ بالقصد کسی غیر محرم مرد کی طرف نگاہ نہ اٹھائیں بلکہ عورت کا کسی غیر محرم کو دیکھنا یہ مرد کی بنسبت زیادہ ضرر رساں ہے۔

جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter