حضورحافظ ملت علیہ الرحمہ کے اخلاق و محاسن،قابل عمل نمونہ

تعلیمات نبوی میں سے ایک اہم تعلیم شفقت و محبت کی تعلیم ہے۔جس پر سرکار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خود عمل کرکے لوگوں کو بتایا کہ ’’جو چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اور بڑوں کی تعظیم نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘(جامع ترمذی، حدیث ۱۹۱۹)

        اللہ عزوجل کے نیک بندے اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقوں پر سختی کے ساتھ کاربند رہتے ہیں اور لوگوں کو اس پر عمل کرنے کا حکم دیتے ہیں۔انھیں بندگان خدا میں سے ایک نام حضورحافظ ملت شاہ عبدالعزیزمحدث مرادآبادی علیہ الرحمۃ والرضوان(ولادت ۱۳۱۲ھ۔۱۸۹۴ء/وصال۱۳۹۶ھ۔۱۹۷۶ء) کا نام بھی آتاہے ۔جنھوں نے اپنی پوری زندگی شریعت مطہرہ کی پابندی اور سنت نبوی پر عمل کرکے گزاری اور تعلیمات نبویہ کی نشر و اشاعت میں بھی بھر پور حصہ لیا۔ آپ ایک جلیل القدر عالم تھے۔آپ کے علم کا اندازہ کچھ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کو صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ والرضوان کی خاص شاگردی کا شرف حاصل ہے۔آپ کی شاگردی نے حافظ ملت کو علم و عمل کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ آپ ایک بلند پایہ محدث تھے اور اچھے مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مایہ ناز فقیہ بھی تھے۔

        حضور حافظ ملت ایک اچھے عالم ہونے کے ساتھ اخلاق حسنہ کے پیکربھی تھے۔چھوٹوں پر بے پناہ شفقت فرماتے، بڑوں کا احترام کرتے ،مہمان کی مہمان نوازی میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے ،مہمان خواہ ان کا شاگرد ہی کیوں نہ ہو۔طالب علموں سے بڑی محبت فرمایا کرتے تھے۔اگر کوئی طالب علم غلطی کرتا تو اسے گدھا،بیوقوف، بدھو کہنے کی بجاے بڑے ہی پیار بھرے لہجے میں فرماتے ‘‘ارے جنتی’’۔(حیات حافظ ملت ص۳۱۱)

        حضور حافظ ملت اپنے استاذ زادے مولانا قاری محمد رضا المصطفیٰ امجدی کراچی کا بڑا احترام کرتے۔ آپ خود فرماتے ہیں کہ پاکستان سے جب میں گھر(گھوسی،انڈیا) پہنچتا تو مجھ سے ملنے کے لیے دوسرے ہی روز حضرت(حافظ ملت)، قادری منزل تشریف لاتے۔ بارہا میں نے درخواست کی کہ حضور میں تو خود حاضر ہونے والا تھا تو فرماتے مجھے خود آکر ملاقات کرنے سے مسرت حاصل ہوتی ہے۔(حیات حافظ ملت،صفحہ۳۱۰،بحوالہ حافظ ملت نمبر، ص ۴۴۶)

        ایک بار آپ کو نصیحت کرتے ہوئے ایک مکتوب میں فرمایا کہ’’عزیز محترم! ماشاء اللہ! آپ عقیل و فہیم ہیں آپ کو کچھ لکھنا آفتاب کو چراغ دکھانا ہے مگر محبت قلبی اتنا عرض کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ اپنے مقصد پر نظر رکھتے ہوئے حضرت والد ماجد صاحب دامت برکاتہم القدسیہ کے طرز عمل کو معمول بنائیں‘‘۔ (حیات حافظ ملت۔ ص ۱۴۵) یہ تھی استاذ زادے پر آپ کی شفقت اور محبت اور اس کے علاوہ آپ تمام طلبہ پر یکساں عنایت فرمایا کرتے تھے۔

        علامہ حافظ عبدالرؤف صاحب آپ کے ارشد تلامذہ میں سے تھے۔ آپ حضور حافظ ملت کے دست و بازو اور قدم قدم پر رفیق و معاون رہے۔ آپ کا انتقال حافظ ملت کی حیات میں ہی ہو گیا۔ وصال پر کچھ اس طرح تعزیت فرمائی ’’وہ میرے دست و بازو تھے۔اس لیے ان کے انتقال کے بعد میں بہت مایوسی کا شکار ہوا ،لیکن قدرت الٰہی نے میری رہبری و یاوری فرمائی پھر ذہن میں آیا کہ یہ دنیا کارگاہ عمل ہے۔یہاں کتنے عظیم سے عظیم اور کتنے بڑے سے بڑے مدبر و منتظم آئے اور چلے گئے‘‘پھر فرماتے ہیں’’حافظ عبدالرؤف صاحب کے انتقال سے عبدالعزیز کے بازو ٹوٹ گئے۔ عبدالرؤف عبدالعزیز تھے اور عبدالعزیز عبد الرؤف تھے۔‘‘ (سابق۔ ص۱۳۷)

        ان الفاظ سے ایک استاذ کی شاگرد پر شفقت و محبت اور بھروسے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ آپ محبت و عنایت کے ساتھ ساتھ طلبہ جس رتبے کے لائق ہوتے اسے وہ رتبہ بھی دیتے تھے۔

        حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کو شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی سے بڑی محبت تھی۔ جب کسی وجہ سے شارح بخاری تعلیم حاصل کرنے کے لیے میرٹھ چلے گئے، تو سرکار حافظ ملت کو بڑا افسوس ہوا، اور فرمایا ’’شریف الحق ‘‘چلا گیا۔ جب حضرت شارح بخاری نے حافظ ملت کی بارگاہ میں معذرت کا خط لکھا تو حضرت نے اس طرح جواب دیا آپ کے چلے جانے کا بے حد افسوس ہے میں ملاقات سے محروم ہوں مگر دعائے خیر کرتا ہوں آپ جہاں کہیں بھی رہیں محنت اور لگن سے پڑھیں۔ (معارف شارح بخاری ص۲۱۲۔ بحوالہ حیات حافظ ملت ص۱۵۱)

        آپ شارح بخاری علیہ الرحمہ سے بے حد محبت فرماتے اور آپ کے علم و فضل پر بڑا اعتماد کرتے تھے اور کبھی کبھی مستفتی صاحبان کو فتوی لینے کے لیے آپ کی طرف رجوع کراتے۔

        علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ کا شمار حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کے خاص شاگردوں ہوتا ہے۔ حافظ ملت کو آپ پر بڑا ناز تھا۔ آپ تحریک اشرفیہ کے سرگرم معاون اور پرخلوص مشیر رہے۔ ایک موقع پر جلسے عام میں حضور حافظ ملت نے ارشاد فرمایا تھا کہ’’اگر عبدالعزیز کو اللہ تعالیٰ اتنی دولت عطا فرما دیتا تو میں اپنے ارشد کو سونے سے تول دیتا۔‘‘(حیات حافظ ملت ص۱۵۵)

        ایک بار حافظ ملت نے بحرالعلوم مفتی عبدالمنان اعظمی کے بارے میں جلسہ عام میں فرمایا ’’ہمارے مفتی صاحب بحرالعلوم ہیں،یہاں لائبریری(اشرفی دارالمطالعہ) میں جتنی کتابیں ہیں مفتی صاحب ان سب کا مطالعہ کر چکے ہیں ‘‘۔(بزبان مولانامحمد عبدالمبین نعمانی )

        مولانا قاری محمد یحییٰ مبارکپوری ایک باصلاحیت عالم ہونے کے باوصف بہترین اور خوش الحان قاری بھی تھے۔ آواز میں بے انتہا کشش تھی چنانچہ حافظ ملت اکثر و بیشتر فرمایا کرتے تھے کہ ’’میں نے قاری محمد یحییٰ جیسا قاری ہندوستان میں نہ پایا‘‘۔(سابق ،ص۱۵۸)

        مولانا عبیداللہ خان اعظمی ایک جلسے کا ذکر کرتے ہیں،جس کی صدارت حافظ ملت فرما رہے تھے۔جس میں آپ نے الفاظ و تراکیب کے گل بوٹوں سے سجی سنوری تقریر کی۔ جب حافظ ملت کی صدارتی تقریر شروع ہوئی تو حافظ ملت نے مولانا اعظمی کے بارے میں فرمایا کہ ’’ماشاء اللہ حافظ عبیداللہ صاحب تقریر کی مشین ہیں‘‘۔(سابق،ص۳۱۴)

        قاضی مولانا محمد شفیع ا عظمی طالب علم پر حافظ ملت کی مہربان فطرت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں؛’’ہر استاذ صرف اپنے ذہین محنتی اور وفا شناس شاگردوں پر شفیق ہوتا ہے ،لیکن حافظ ملت کی خصوصیت یہ ہے کہ غبی سے غبی ،بدھو سے بدھو اور بیگانہ سے بیگانہ شاگرد بھی انہیں اتنا ہی عزیز تھا، جتنا ذہین سے ذہین،قابل سے قابل اور قریب سے قریب شاگرد ‘‘۔

        آپ شاگردوں سے بے انتہا محبت فرماتے تھے۔ مدرسے سے طلبہ کا اخراج آپ کی طبیعت پر بہت شاق گزرتا تھا ،آپ فرماتے تھے کہ مدرسے سے طلبہ کا اخراج بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی باپ اپنے کسی بیٹے کو عاق کر دے یا جسم کے کسی بیمار عضو کو کاٹ کر الگ کر دیا جائے۔طلبہ سے اور ان کی زندگیوں سے آپ کو بے حد محبت تھی، کیوں کہ آپ سے طلبہ کی بربادی نہیں دیکھی جاتی اور آپ طلبہ پر پدرانہ شفقت فرماتے۔طلبہ کی خبرگیری کرتے۔ بیمار پڑنے پر ان کی عیادت کرتے۔

        اسلامی اداروں میں عموماًعید قرباں کے موقع پر کچھ طالب علم مدرسہ میں ہی رک جاتے ہیں۔ فرزندان اشرفیہ بھی ایسے موقعے سے کچھ مدرسے میں ہی رک جاتے ہیں۔ لیکن حضرت کی موجودگی میں کسی کو احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ اپنے والدین سے دور وادی غربت میں عید کے لمحات گزار رہے ہیں۔ عیدالاضحیٰ کے روز حضرت کا معمول تھا کہ موجود تمام طالب علموں کو دعوت دے کر خود ان کی ضیافت فرماتے اور ٹہل ٹہل کر کھلانے پلانے کا کام خود انتظام دیا کرتے ،چیزیں ختم ہونے پر دوبارہ پھردینے کی کوشش کرتے، اس ضیافتی سرگرمی کے موقع پرحضرت طلبہ کوکوئی زحمت نہیں دیتے۔ سرپرستی کا ایک نمایاں انداز یہ بھی تھا کہ حضرت آج کے روز تمام طلبہ میں ایک ایک روپیہ بھی تقسیم کیا کرتے تھے۔ تاکہ طلبہ کے ذہن اس معمول کی یاد سے پریشان نہ ہوسکیں جسے ان کے والدین نبھائے رہتے ہیں۔(حیات حافظ ملت ،ص۲۰۲)

خلاصہ یہ کہ حافظ ملت کی طلبہ نوازی خلوص محبت اور حسن اخلاق کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

        آپ کے شاگرد رشید علامہ محمد احمد مصباحی بیان فرماتے ہیں کہ’’دور طالب علمی میں ایک بار میں اشرفیہ میں بیمار پڑا کسی طرح حضرت کو معلوم ہو گیا۔ اچانک دیکھتا ہوں کہ حضرت خلاف معمول نیچے میرے کمرے میں تشریف لا رہے ہیں۔ قریب آئے۔ حال پوچھا۔ ہدایت کی اور دعا دے کر تشریف لے گئے‘‘۔ (سابق ص۱۸۴)

        حضرت حافظ ملت کی یہ شفقت و ہمدردی جامعہ اشرفیہ کے تمام طلبہ کے لیے عام تھی۔ اس قسم کے ایک دو نہیں سیکڑوں واقعات ہیں جن سے حضرت کی اخلاقی جامعیت اور حسن سلوک کی ہمہ گیریت ثابت ہوتی ہے۔ مدرسے کے نادار طلبہ پر خصوصی توجہ فرماتے تھے۔طلبہ کو مثل اولاد سمجھتے تھے۔ ایسا ہی سلوک آپ اپنے اہل محلہ اور پڑوسیوں کے ساتھ بھی فرماتے۔آپ کی زندگی سنت نبوی کی آئینہ دار تھی۔آپ کی زندگی آج بھی امت مسلمہ کے لیے مشعل راہ ہے۔مولیٰ تعالیٰ ہمیں آپ کے نقوش حیات پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

 

از: محمد عارف رضا نعمانی مصباحی

ایڈیٹر : پیام برکات ،علی گڑھ

رابطہ: 7860561136

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter