جہنم کی آگ دنیوی گرمی سے کہیں زیادہ گرم ہے
خالق کونین نے قطرۂ آب سے تخلیق پانے والے انسان میں عقل و خرد کی متعدد قوتیں اور بے شمار تسخیری صلاحیتیں رکھی ہیں جس کے باعث وہ بحر پیمائی میں کمال حاصل کرکے ایک طرف دخانی بحری جہاز کے ذریعہ سمندر کے تیز و تند طوفان اور بلند لہروں، موجوں کے سینے کو چیرتے ہوئے مختلف بحری منافع جیسے بین الاقوامی تجارت سے لطف اندوز ہورہا ہے تو دوسری طرف محیر العقول سائنسی اختراعات و ایجادات جیسے طیاروں اور راکٹوں کے ذریعہ ہواؤں پر اپنی حکومت چلارہا ہے اور ستاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے ۔ حقیقت کے اس پہلو کے باوجود مخدومِ مہر و ماہ یعنی انسان میں رب کائنات نے بعض فطری کمزوریاں بھی ودیعت فرمائی ہیں جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ مخدوم کائنات خواہشات نفسانی و شہوانی کے دلدل میں دھنس کر اتنا کمزور و نحیف ہوجاتا ہے کہ وہ خالق کو چھوڑکر خادم کا غلام اور طلبگار بن جاتا ہے۔ انسان کی اسی اصولی کمزوریوں میں سے ایک کمزوری یہ ہے کہ وہ موسمی تبدیلیوں کو بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ جیسا کہ جاریہ موسم گرما میں درجہ حرارت کے بڑھ جانے اور شدید گرمی کی لہر اور لو لگنے سے کئی لوگ اس دار فانی سے کوچ کررہے ہیں ۔ اگر ہم موسم گرما کی شدت کی حقیقت کا قرآن پاک اور حدیث پاک ﷺ کی روشنی میں جائزہ لیں گے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ یہ شدید گرمی کا جہنم کی گرمی سے کوئی تقابل نہیں ہے بلکہ یہ دنیوی گرمی تو آتشِ جہنم کاایک ادنیٰ ساحصہ ہے۔ چنانچہ سیدنا ابو ہریرۃؓ سے مروی ہے آپؓ فرماتے ہیں کہ تاجدار مدینہﷺ نے فرمایا: ’’تمہاری آگ جہنم کی آگ کے ستر (70) حصوں میں سے ایک حصہ ہے جسے رب کائنات نے انسان کے لیے قابل استعمال بنانے کے لیے سمندر کے پانی میں دو دفعہ بجھایا ہے‘‘ (شیخین، مؤطا امام مالک، تفسیر ابن کثیر)۔ اور ایک حدیث پاک جو حضرت سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کے آپ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن سب سے ہلکا عذاب اسے ہوگا جسے جہنم کی آگ کے دو جوتے اور دو تسمے پہنائے جائیں گے جن سے اس کا دماغ اس طرح کھولتا ہوگا جس طرح ہنڈیا کھولتی ہے، اس کے باوجود وہ یہ سمجھے گا کہ دوزخیوں میں سے اور کسی کو اس سے زیادہ سخت عذاب نہیں ہے حالانکہ اسے سب سے ہلکا عذاب ہوگا(متفق علیہ)۔ آتش جہنم کی گرمی، تپش کے بارے میں رب کائنات فرماتا ہے: ’’فرمائیے! دوزخ کی آگ اس سے بھی زیادہ گرم ہے ۔ کاش! وہ کچھ سمجھتے" (توبہ/81)۔ یعنی دنیا کی گرمی جو جہنم کی آگ کا ایک ادنی سا حصہ اور سمندر کے پانی میں دو دفعہ بجھایا ہوا ہے اس کے باوجود انسان اسے برداشت نہیں کرپارہا ہے اور اس سے بچنے کے لیے مختلف احتیاطی تدابیر و اقدامات اختیار کرتا ہے لیکن وہ آتش ِجہنم کی گرمی سے بچنے کے لیے کوئی کوشش و سعی نہیں کرتا جس کی ایک چنگاری مشرق میں ہو تو اس کی حرارت مغرب تک پہنچ جائے ۔ آج ملک گرمی کی شدید لپیٹ میں ہے جس کی پیچیدگیوں سے بچنے اور جسم کے درجہ حرارت کو مناسب و موزوں رکھنے کے لیے انسان مختلف ترکیبیں اختیار کرتا ہے جیسے گرما کی چھٹیاں گزارنے کے لیے نقل مکانی کرنا یعنی سرد مقامات کا رخ کرنا وغیرہ۔ لیکن انسان کو جہنم کی آگ سے بچنے کی کوئی فکر نہیں جس سے باہر نکلنے کے تمام راستے مسدود رہیں گے ۔ رب کائنات ارشاد فرماتا ہے ۔ ’’جب بھی ارادہ کریں گے اس سے نکلنے کا فرطِ رنج و الم کے باعث تو انہیں لوٹا دیا جائے گا اس میں اور (کہا جائے گا) کہ چکھو جلتی ہوئی آگ کا عذاب‘‘ (حج/22) ۔ انسان دنیا کی چند روزہ گرمی سے بچنے، اپنی صحت کو گرمیوں کے موسم میں برقرار رکھنے اور پیاس کی شدت کو بجھانے کے لیے وافر مقدار میں پانی اور ٹھنڈے مشروبات کا استعمال کرتا ہے لیکن آج کا انسان جہنم کی اُس ہولناکیوں سے کتنا بے فکر نظر آرہا ہے جہاں اسے پینے کے لیے کھولتا ہوا پانی دیا جائے گا۔ ارشاد ربانی ہے ’’ پھر پینا پڑے گا اس پر کھولتا پانی‘‘ (واقعہ\54) ۔ سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’ان کے سروں پر کھولتا ہوا گرم پانی ڈالا جائے گا جو (جسم میں) سرایت کرے گا، یہاں تک کہ دوزخی کے پیٹ میں پہنچ جائے گا اور جو کچھ اس کے پیٹ میں ہوگا اسے کاٹ ڈالے گا۔ (پھریہ گرم پانی سرایت کرتا ہوا ) دونوں قدموں سے باہر آجائے گا اور (ابھی) وہ گرم ہی ہوگا اور اسے پھر پہلی حالت میں لوٹا دیا جائے گا تاکہ یہ عمل دوبارہ دہرایا جاسکے‘‘ (ترمذی شریف) -
آج انسان موقتی گرم لو سے بچنے کے لیے فین، ایئر کولر اور ایئرکنڈیشن کا استعمال کرتا ہے تاکہ اسے کچھ راحت مل جائے لیکن وہ جہنم کی اُس دائمی آگ کی گرمی سے بچنے کے لیے کوئی عمل نہیں کرتا جس سے بچنا انسان کے بس کی بات نہ ہوگی۔ خالق کونین ارشاد فرماتا ہے: ’’بھیجا جائے گا تم پر آگ کا شعلہ اور دھواں پھر تم اپنا بچاؤ بھی نہ کرسکوگے‘‘(رحمن/35)- آج کے ترقی یافتہ دور کے انسان کی ساری توانائیاں اور صلاحیتیں زیادہ تر دنیا کے حصول تک محدود و مرکوز ہوکر رہ گئی ہیں جبکہ انسان کو آخرت کے لیے فکر مند رہنا وہاں کے لیے تیاری کرنا ہے۔ چونکہ عقلمند وہی شخص ہوتا ہے جو دوراندیش ہو اپنے مستقبل کو درخشاں بنانے کے لیے کوشاں ہو۔ جو فانی نعمتوں کے حصول کے لیے دائمی نعمتوں سے محروم ہوجائے اسے کوئی دانا نہیں کہتا۔ لہذا جہاں ہم دنیاوی گرمی سے بچنے کے لیے مختلف تدابیر اختیار کرتے ہیں وہیں ہم پر یہ بھی لازم ہے کہ جہنم اور اس کی گرمی سے بچنے کے لیے سعی و کوشش کریں۔ جہنم اور اس کی گرمی سے بچنے والے مختلف اعمال کی قرآن حکیم نے نشاندہی فرمائی ہے لیکن ان میں سے افضل ترین عمل فقرا و مساکین کی ضروریاتِ زندگی کی بہم رسانی جیسے مساکین کی طرف دست تعاون دراز کرنا، صدقہ و خیرات کرنا اور غربا و مساکین کو کھانا کھلانا وغیرہ۔ دوزخیوں سے جب سوال کیا جائے گا تمہیں دوزخ میں کس جرم کی پاداش میں ڈالا گیا تو وہ مختلف جوابات دیں گے منجملہ ان کے ایک جواب یہ بھی ہوگا کہ وہ کہیں گے ہم مساکین کو کھانا نہیں کھلایا کرتے تھے ۔ آج ہم مسلم معاشرے پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو حقیقت کا یہ پہلو ہمارے سامنے آتا ہے کہ ہم تقریبات میں مہمانوں کی مختلف اقسام و انواع کی غذاؤں سے ضیافت کرتے ہیں اور اطراف و اکناف میں کئی غربا و مساکین ہماری توجہ کے طالب اور نظرِ عنایت کے منتظر ہوتے ہیں لیکن ہم اس طرف کوئی توجہ نہیں دیتے کاش ہم ان غربا و مساکین کو ہمطعامی کے لیے مدعو کریں ۔ہوسکتا ہے ہمارا یہی چھوٹا سا عمل جہنم سے نجات کا سبب بن جائے۔ چونکہ ابن عمرؓ کی روایت کردہ حدیث میں ہمیں یہ صراحت ملتی ہے۔ رحمت عالمیاںﷺ ارشاد فرماتے ہیں ’’ جو شخص کسی مسلمان کی دنیوی مشکل حل کرتا ہے اللہ تعالی اس کی قیامت کی مشکلات میں سے کوئی مشکل حل فرمائے گا‘‘ (متفق علیہ)۔ جس بندے کی قیامت کے مشکلات اللہ تعالی حل فرما دے اسے جہنم کا کیا خوف ہوگا۔ اور ایک روایت میں آیا ہے جو سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے آپؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے پاک کمائی سے ایک کھجور کے برابر بھی صدقہ کیا تو اللہ تعالی اس کو قبول فرماکر اپنے دائیں ہاتھ میں لے لیتا ہے، پھر اس کو خیرات کرنے والے کے لیے پالتا رہتا ہے، جس طرح تم میں سے کوئی شخص اپنے بچھیرے کو پالتا ہے یہاں تک کہ وہ خیرات پہاڑ کے برابر ہوجاتی ہے (صحیحین) ۔ پیر طریقت حضرت ابو العارف شاہ سیدشفیع اللہ حسینی القادری الملتانی مد ظلہ العالی سجادہ نشین درگاہ پیر قطب المشائخ حضرت شاہ سید پیر حسینی القادری الملتانی محققؔ قدس سرہ العزیز امام پورہ شریف ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’ بندۂ مومن کو چاہیے کہ وہ کسی نیکی یا برائی کو حقیر یا چھوٹی نہ سمجھے بلکہ وہ ہمیشہ یہ خیال کرے کہ کل بروز محشر یہی نیکی اسے جنت کا حقدار بناسکتی ہے اور یہی چھوٹی سی خطا و نافرمانی جہنم میں لے جانے کا سبب بن سکتی ہے۔ اسی لیے مومن کا شیوہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ ہر بڑی نیکی کو چھوٹی اور ہر چھوٹی برائی کو بڑی تصور کرے ‘‘۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفی ﷺ ہمیں قرآن اور صاحبِ قرآنﷺ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔