قرآن پاک کی بے حرمتی ناقابلِ معافی جرم۔ عالم اسلام برہم
جیسے ہی آج علی الصباح فجر نماز کے بعد اخبار کی ورق گردانی کررہا تھا اچانک ایک دلخراش خبر پر نظر پڑی اور خبر پڑھتے پڑھتے بدن کا انگ انگ لرزہ براندام ہوگیا۔ وجود اپنے غیظ وغضب کی وجہ سے آپے سے باہر ہونے لگا قریب تھا کہ شدت غضب کی وجہ سے دل کی دھڑکن تیز ہو جائے پھر اچانک حاشیۂ خیال پر صفی لکھنؤی کا مشہور زمانہ شعر گردش کرنے لگا۔
اسلام زمانے میں دبنے کو نہیں آیا
تاریخ سے یہ مضمون ہم تم کو دکھا دیں گے
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دباؤ گے۔
وہ دلخراش خبر یہ تھی کہ عید الاضحی کے موقع پر ایک بھگوڑا عراقی بدنام زمانہ وبدخو وبد نصیب شخص نے قرآن کریم کی بے حرمتی کرتے ہوئے پہلے قرآن کے اوراق کو پھاڑ کر اس سے اپنے جوتے صاف کئے پھر نذر آتش کردیا۔ جیسے ہی یہ دل آزار خبر ذرائع ابلاغ کے ذریعے پوری دنیا میں آگ کی طرح پھیل گئی تو مسلمانانِ عالم میں غم وغصےکی لہر دوڑ گئی۔ سراپا احتجاج بن کر سڑکوں پر آکر اس بدنام زمانہ شخص کے خلاف نعرے بازیاں ہو نے لگیں۔دنیا بھر کے مسلمان سٹاک ہوم کی سب سے بڑی مسجد کے باہر ایک عراقی بھگوڑا کی طرف سے قرآن کے نسخے کو نذر آتش کرنے کی مذمت میں سعودی عرب کے ساتھ شامل ہو گئے ہیں۔ اس جرم کا مرتکب بدنام زمانہ سلوان موميكا کئی برس قبل عراق سے فرار ہو کر سویڈن آکر بس گیا تھا۔ اسی نے اتنا گھناؤنا جرم کیا۔ یہ پہلے ہی سے اسلام دشمن عناصر کے ساتھ رہ کر اسلام اور مسلمانوں کو اشتعال انگیز اور برانگیختہ کرنے کی کئی سازش کر چکا ہے۔ یہ اس کی آخری کوشش تھی جس کی وجہ سے مسلمان چراغ پا ہیں۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ سویڈن میں ہونے والا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔
رواں برس جنوری میں بھی ایک دائیں بازو کے انتہا پسند وشر پسند شحص نے اسٹاک ہوم میں ترکی سفارت خانے کے قریب قرآن کو نذر آتش کر دیا تھا۔ اس واقعے پر بھی پوری مسلم دنیا نے احتجاج کی تھی ۔ایسے بے شمار دل سوز واقعات ہماری اس صدی میں رونما ہوئے۔ ان واقعات کو اگر میں اجمالاً بھی سپرد قرطاس کروں تو مجلدات درکار ہونگے۔ پھر ان دل آزار واردات کو ذکر کرنے سے ہمارا سینہ ہی چھلنی ہوتا ہے۔ یہ ایسا ہی جیسے ہم اپنے ہی زخم کو کھروچیں۔ زخم کھروچنے سے ہمارا ہی درد نہاں اضافہ ہوتا ہے۔ اس سے ہم ان گھناؤنے وسنگین واردات کی تہہ تک جانا نہیں چاہتے۔
یہ ایک نا قابل تردید حقیقت ہے کہ قرآن پاک یا اسلام کو کتنا ہی بدنام کرنے کی لا حاصل سعی و کوشش کی جائیں۔ اس سے اسلام یا پیغمبر اسلام کی عزت وناموس پر ذرا برابر آنچ نہیں آسکتی۔ بدنام کرنے والے خود بدنام ہوکر تاریخ کے اندھیرے کھائیوں میں گم ہوجائنگے۔ کتنے آئے کتنے چلے گئے۔ لیکن اسلام کا شجر ہمیشہ کی طرح آج بھی سرسبز وشاداب ہے۔ یہی اسلام کی فطرت اور قدرت کا فیصلہ بھی ہے۔دشمن لاکھ کوشش کرلیں پھر بھی اسلام اور اہل ایمان آفتاب نیم روز کی طرح روشن و تابناک ہونگے۔ کیا خوب کہا شاعر نے
جہاں میں اہل ایمان صورت خورشید جیتے ہیں
یہاں ڈوبے وہاں نکلے وہاں ڈوبے یہاں نکلے
سویڈن کے اس دلخراش واقعہ سے ایک فائدہ ضرور ہوا کہ مسلم قوم متحد ہوگی۔ جیسے ہی سویڈن کا یہ جرم سامنے آیا تو فورا تمام اسلامی ممالک سے علم احتجاج بلند ہوا۔ اور چاروں طرف سے مذمت اور تنقیدیں شروع ہوگئیں۔ بعض اسلامی ممالک نے سویڈن سے اپنے اپنے سفیر کو واپس بلوالیا۔
*اس دلخراش واقعہ پر اسلامی ممالک کا رد عمل*
سویڈن میں اس پہلے بھی ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا جو 1 مئی 2022ء کو راسموس پالوڈن نے سویڈن میں ایک مسجد کے سامنے قرآن پاک کو جلا دیا،، جب 10 مسلم افراد کے ایک گروپ نے اسے قرآن پاک کے نسخے کو جلانے سے روکنے کی کوشش کی تو وہ اپنی گاڑی سے فرار ہو گیا. اس پر بھی کافی ہنگامہ ہوا۔ لیکن اس کا کچھ خاص اثر سامنے نہیں آیا۔ تو ان اسلامی ممالک اور مسلم حکمران سے ہماری اپیل کہ صرف رد عمل یا ملکی سفیر کو واپس بلوانے سے کوئی خاص اثر نہیں ہوگا اس رد عمل اور مسلسل احتجاج کے ساتھ ساتھ ان تمام ممالک سے سماجی بائیکاٹ ہونا چاہیے جہاں قرآن یا پیغمبر اسلام کے ناموس پر کیچڑ اچھالا گیا تب یہ تمام اپنے اس سیاہ کرتوں سے باز آئنگے۔ جب ملک کے معاشی صورتحال بحران کا شکار ہو جائے گی تب وہ ٹھکانے پر آئنگے۔ اب ہم ان اسلامی ممالک کا ذکر کرینگے جنہوں نے اس واقعے پر اپنا غم وغصےکا اظہار کیا۔
متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ نے اپنا بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ متحدہ عرب امارات نے مقدس کتاب کو نذر آتش کرنے کے خلاف جمعرات کو سویڈن کے سفیر کو طلب کر کے احتجاج کیا۔
اردن نے جمعرات کو عمان میں سویڈن کے سفیر کو طلب کیا اور کہا کہ وہ اس عمل کو’اشتعال انگیزی اور نسل پرستی‘ سمجھتے ہیں۔ کویت کی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ قرآن کو نذر آتش کرنے سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو تکلیف پہنچی۔ لوگوں کو رواداری اور بقائے باہمی کے اقدار کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
ایران نے بھی جمعرات کو مذمت کرتے ہوئے اس عمل کو ’اشتعال انگیز، ناجائز اور ناقابل قبول‘ قرار دیا۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے کہا کہ ’اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت اور عوام ایسی تذلیل کو برداشت نہیں کرتے اور اس کی شدید مذمت کرتے ہیں۔‘ مراکش نے بھی قرآن کو نذر آتش کرنے کی مذمت کی اور بدھ کو سٹاک ہوم سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا۔
مراکشی حکومت نے ایک بیان میں کہا کہ ’یہ نیا جارحانہ اور غیر ذمہ دارانہ فعل مکہ مکرمہ میں حج اور عید الاضحٰی کے مبارک تہوار کے اس مقدس وقت میں ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے جذبات کی توہین ہے۔‘ ترکی کے وزیر خارجہ ہاکان فیدان نے ایک ٹویٹ میں اس فعل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’آزادی اظہار کے نام پر اسلام مخالف مظاہروں کی اجازت دینا ناقابل قبول ہے ان اسلامی ممالک کے علاوہ مسلم اسکالر کی عالمی تنظیم مسلم ورلڈ لیگ کے سیکریٹری جنرل اور آرگنائزیشن آف مسلم سکالرز کے چیئرمین شیخ محمد بن عبدالکریم العیسیٰ نے اس فعل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی کارروائیاں نفرت کو ہوا دیتی ہیں، مذہبی جذبات کو بھڑکاتی ہیں اور صرف انتہا پسندی کے ایجنڈوں کو پورا کرتی ہیں۔
یہ پہل قابل ستائش ہی نہیں بلکہ قابل تقلید بھی ہے کہ قرآن پاک کی بے حرمتی پر پوری مسلم دنیا متحد ہوگی۔ اور اپنے اپنے طور پر احتجاج بھی کررہے ہیں تو ضروری ہے کہ اس مجرم کو کیفر کردار تک پہنچاکر ہی سانس لیں۔ اور سخت سے سخت سزا دلوائیں تاکہ آئندہ کوئی بھی ایسا جرم کرنے سے پہلے ہزار بار سوچیں۔ اور جرم کرنے کی سکت وہمت بھی نہ ہو۔ سعودی، متحدہ عرب امارات کے فرمانرواؤں سے خاص کر اپیل ہے کہ وہ اس سویڈن کو اپنا قیمتی سرمایہ پٹرول نہ دیں۔ اور سویڈش حکومت سے یہ مطالبہ سامنے رکھیں کہ اس بدبخت بھگوڑا سلوان مومیکا کو سویڈش حکومت کی طرف سے سخت تعزیری اقدامات کئے جائیں۔ رب قدیر سے دعا ہے کہ مولیٰ تعالیٰ عالم اسلام کی حفاظت فرمائے اور ان بد بختوں کو قرآن اور پیغمبر اسلام کی قدردانی کی توفیق رفیق عطا فرمائے آمین