رفاعیہ سلسلہ اور اس کی تعلیمات
فقہ ہو یا قرآت اپنے ماہرین کے نام نامی یا وطن سے منسوب ہوکر اس کی شاخیں پھیلیں۔ حنفی ، شافعی ، مالکی و حنبلی ہوں یا بصری، کوفی مکی یامدنی کہلائیں، اسی طرح مشایخ صوفیہ کے مجتہدین واکابر سے منسوب ہوکر سلاسل آغاز میں بصریان و ہیبریان اور بعد میں قادریہ، چشتیہ، نقشبندیہ ، سہروردیہ فردوسیہ وغیرہ کہلائے۔ یہ سلاسل بھی کبھی تو اپنے اکابر کے نام نامی سے منسوب ہوئے اور کبھی ان کے وطن کی جانب اور کبھی کبھی ان کا کوئی خطاب یا لقب بھی وجہ تسمیہ بنا۔ بعض سلاسل کا فیضان اس برصغیر میں خوب ہوا اور بعض کا دنیا کے دوسرے علاقوں میں فیضان زیادہ ہوا۔
قادریہ سلسلہ کے آغاز کے فوراً بعد ایک اور سلسلہ کی تاریخ شروع ہوتی ہے جسے ہم رفاعیہ سلسلہ کے نام سے جانتے ہیں ۔ جس طرح قادر یہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ سے منسوب ہے اس طرح رفاعیہ حضرت سید احمد کبیر رفاعی رحمتہ اللہ علیہ سے منسوب ہے۔
حضرت سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ ( پ 512ھ ) عمر میں حضرت عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ (پ 470ھ) سے تقریبا 42 برس چھوٹے ہیں ۔ حضرت رفاعی کی جائے ولادت بھی عراق کا مشہور شہر واسط ہے۔
حضرت رفاعی کا سلسلہ رفاعیہ بھی دنیا میں پھیلنے والے کثیر الاشاعت سلاسل طریقت میں سے ایک ہے اور رفاعی سلسلہ کے بزرگوں کی خانقاہیں ہندوستان کے گجرات ، مہاراشٹر اور آندھرا پردیش میں خاص طور پر سرگرم رہی ہیں ۔ رفاعی سلسلہ کی تعلیمات کے بھی گہرے اثرات معاشرے پر مرتب ہوئے ہیں ۔ رفاعی صوفیہ کی تصنیفات و ملفوظات کا بھی ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ جو ان کی فکر اور عمل کا آئینہ دار ہے۔
رفاعیہ سلسلہ کی تعلیمات بھی شریعت کی پابندی اور بندگان خدا کی خدمت کے گرداگرد گردش کرتی ہیں۔ ان دونوں مقاصد کا حصول اخلاق کی بلندی اور کردار کی درستگی کے بغیر ناممکن ہے اسی لئے سلسلہ رفاعیہ میں بھی اخلاقہ حسنہ اور صفات محمودہ پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے ۔
سلسلہ رفاعیہ میں صحبت مرشد اور صحبت اولیاء پر بہت توجہ دی جاتی ہے ۔ اس لئے اکثر اچھی خصلتیں صرف صحبت کے نتیجہ میں پیدا ہوجاتی ہیں۔ رفاعی بزرگان غرور و تکبر کو راہ سلوک کے لئے بہت نقصان دہ مانتے ہیں ۔ چنانچہ حضرت سید احمد کبیر رفاعی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
"ولایت فرعونیت اور نمردویت نہیں ہے ، فرعون نے کہا کہ میں تمہارا رب ہوں ، سب سے اوپر اور قائد اولیاء سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں فرشتہ نہیں ہوں ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علویت ، افتخات ، فوقیت ، عظمت ، حاکمیت اور سربلندی کے لباس کو اپنے جسم سے اتار کر پھینک دیا ہوتو پھر عارف کس طرح نخوت اور غرور کی باتوں کی طرف پیش قدمی کرسکتے ہیں ۔خدا کے سامنے احتیاجی وصف ظاہر کرنا مومن کی صفت ہے "۔
صوفیوں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ کسی بھی سلسلہ کی خانقاہ ہو وہ دوسرے سلسلہ کی عزت و عظمت میں پیچھے نہیں رہتی ۔ بہار کی خانقاہیں بھی رفاعیہ سلسلہ سے اچھی طرح واقف اور اس کی قدردان ہیں ۔ خانقاہ منعمیہ ، میتن گھاٹ پٹنہ سیٹی میں میری حاضری ہوتی رہتی ہے اور سجادہ نشیں حضرت سید شاہ شمیم الدین احمد صاحب منعمی سے تبادلہ خیال کے دوران سلسلہ رفاعیہ پر بھی باتیں ہوتی ہیں ۔ یہ تاثرات اسی کا آئنیہ دار ہیں ۔