جمہوری نظام کو استحکام بخشنے  کی ضرورت

آج ہم 74 واں یوم جمہوریہ کا جشن منارہے ہیں۔ کیوں کہ آج ہی کے دن 26 جنوری 1950 کو دستور ہند کا نفاذ عمل میں آیا اور تمام باشندگان ہند کو ایک آزادانہ زندگی جینے کا موقع میسر ایا۔ عالمی سطح پر ہندوستان کو ایک عظیم جمہوری ملک ہونے کا فخر حاصل ہے۔ دستور ہند کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کے مطابق ہر ہندوستانی اپنی مذہبی و دینی، سیاسی و سماجی، تعلیمی و تمدنی وغیرہ ہر طرح کی آزادی کے لیے مختار ہے۔ لیکن یہ خیال رہے کہ مذکورہ تمام طرح کی آزادی حاصل ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہم اپنی آزادی کے نام پر دوسروں کی آزادی کا گلا گھونٹ دیں۔ بلکہ ہمارے اوپر لازم ہے کہ اپنی آزادی کا دائرہ اسی حد تک محدود رکھیں کہ جس سے سامنے والے کی آزادی پر کوئی ضرب نہ پڑے۔ مثال کے طور پر اگر ہم اپنی مذہبی عبادات کو انجام دے رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم اپنی مذہبی آزادی کے نام پر دوسروں کو تکلیف پہنچائیں اور ڈسٹرب کریں۔ لیکن اس کے باوجود اگر ہم مذہبی آزادی کے نام پر دوسروں کو مشکلات میں ڈالتے ہیں تو گویا ہم دستور ہند کا مذاق اڑاتے ہیں اور اپنے ملک کی عالمی و انسانی ساکھ پر شدید حملہ کرتے ہیں۔ اسی طرح مذہب کی بنیاد پر اگر ہم تعصب و عناد کو ہوا دیتے ہیں، دوسرے مذاہب اور ان کے ماننے والے کو گزند پہنچانے کے درپے رہتے ہیں۔ ہندوستانیوں کے درمیان نفرت کا بیج بوتے ہیں۔ اس کے ساتھ آپس میں ایک دوسرے کے جانی و مالی نقصانات سے بھی دریغ نہیں کرتے تو گویا ہم اپنے پیارے ملک ہندوستان کی بنیاد کو مضبوط کرنے کی بجائے اسے متزلزل کرتے ہیں۔
چوں کہ مختلف مذاہب، مختلف زبان اور مختلف تمدن پسند افراد گلستان ہند کی خوب صورتی کی ضمانت ہیں اس لیے ہم اس حقیقت کو کبھی جھٹلا نہیں سکتے کہ باشندگان ہند میں سے کسی ایک بھی فرد کو نظر انداز کرنا اور کا خاتمہ چاہنا ہندوستان کے حسن کو داغدار کرنا ہے۔
مزید یہ کہ ہمارا ملک صدیوں سے سادھوؤں-سنتوں اور صوفیوں کا گہوارہ رہا ہے۔ یہاں سدا پیار-محبت اور اتحاد و یگانگت کے گیت گائے جاتے رہے ہیں۔ بالخصوص خواجہ اجمیری، مہاویر جین، مہاتما بدھ، سوامی وویکانند اور گرو نانک جیسی عظیم ہستیوں نے فضائے ہند میں جس انسانیت اور آدمیت کا انمول سبق پڑھایا ہے اس کی مثال انٹرنیشنل سطح پر کوئی پیش نہیں کرسکتا۔
اور ہم ہندوستانیوں کے لیے قابل فخر بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کی فضا میں ہر چہار جانب ان ہستیوں کی پھیلائی گئی تعلیمات اور ان کے طرز حیات کی خوشبو آج تک رچی بسی ہوئی ہے اور اس سے ہم سبھی معطر ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن اگر آج ہم اپنے آپ کو ان عظیم ہستیوں کی تعلیمات سے الگ کرلیں اور ان کی انسانیت سے لبریز کردار کو فراموش کردیں تو ہم سے بڑا پاکھنڈ اور ہوسکتا ہے کہ ہم انھیں ماننے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں اور اپنے ہی ہاتھوں ان قابل رشک ہستیوں کے خواب کو چکناچور بھی کردیں۔

مزید برآں اگر غیر جمہوری فعل اور غیرانسانی عمل ایک جاہل شہری کے ذریعے انجام پذیر ہوتو ایک حد تک نظر اسے انداز کیا جاسکتا ہے اور اسے سمجھایا جاسکتا ہے لیکن اگر یہی سب کام ایک تعلیم یافتہ انجام دے اور اپنی حرص ہوس اور حصول مناصب کی خاطر جمہوری نظام اور دستور ہند کو طاق پر رکھ دے تو اسے ہرگز نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ ایک جاہل شخص کا غیر جمہوری قدم اتنا خطرناک نہیں ہوسکتا جتنا کہ ایک تعلیم یافتہ شخص کا غیر جمہوری قدم ہوسکتا ہے۔

غرض کہ آج گاؤں سے لے کر شہر تک اور صوبے سے لے کر مرکز تک جس طرف نظر کیجیے ہر طرف تعلیم یافتہ ہندوستانیوں کے اقدام ہی جمہوری نظام کے خلاف اٹھ رہے ہیں۔ خواہ تعلیم کا میدان ہو۔ خواہ منصفی کا میدان ہو۔ خواہ انتظامی امور کا میدان ہو۔ یا پھر سیاسیات و سماجیات کا میدان ہو۔ ان شعبوں میں اٹھائے گئے غیرجمہوری اقدام کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ اب جمہوری نظام پر یقین رکھنا بڑا مشکل ہوگیا ہے۔بلکہ جمہوری نظام تدفین کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ لیکن جب جب یوم جمہوریہ آتا ہے تو ہم ہندوستانیوں کے اندر دستور ہند کو لے کر ایک آس بندھ جاتی ہے کہ ہمارے ملک میں صد فیصد نہ صحیح۔ مگر کچھ نہ کچھ جمہوریت کی جان ابھی باقی ہے۔ بس ضرورت ہے کہ ملک میں دم توڑ رہی جمہوریت کے اندر ایک بار پھر سے جان پھونکی جائے تاکہ ہم میں جس بھی ہندوستانی کا اعتماد و یقین جمہوریت پر متزلزل ہوا ہے وہ پھر سے بحال ہوجائے۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter