ہم کیا کریں؟
جلتی چتائیں،قبرستانوں میں جنازوں کی لمبی قطاریں، اسپتالوں میں ایک ایک سانس کے لیے دم توڑتے مریض،سونی سڑکیں، بند دکانیں، ویران بازار، طبی راحت رساں گاڑیوں کی ہیبت ناک آوازیں، شوشل میڈیا پر دم بدم موت کی خبریں، عوام وخواص کی سرعت کے ساتھ رحلت اور ہر کسی کے کی آنکھوں میں خوب و دہشت کے مہیب سائے کرونا کال میں یہ مناظر ہیں ہمارے دور کے بھارت کے.
ہر دل پریشان، ہر روح افسردہ، کس کس کا ماتم کیا جائے، سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ کیا کیا جائے،اگر یہ قہر الہی ہے تو الامان والحفیظ، اگر یہ آزمائش ہے تو اللہ تعالیٰ ہمیں اس میں سرخرو فرمائے، بہر حال اس مہاماری کے پیچھے کچھ نہ کچھ ضرور ہے، ورنہ ہمارا رب تو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، وہ بندے کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ہے، اس کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے.
اس بھیانک گھڑی میں انسان فطری طور سے ڈپریشن اور ذہنی طور سے اضطراب کا شکار ہے، بلکہ سچائی یہ ہے کہ تقریباً ساٹھ پرسنٹ لوگ بیماری سے کم ڈپریشن سے زیادہ مررہے ہیں، *کورونا درحقیقت ایک نفسیاتی بیماری ہے، اس کا شکار عموماً نفسیاتی مریض ہی ہوتے ہیں، ورنہ عام سردی بخار سے کون مرتا ہے،* جس طرح سے فلسفہ کا" ھیولی" آج تک سمجھ میں نہیں آیا اسی طرح یہ بیماری بھی اب تک سمجھ میں نہیں آئی، اللہ رحم فرمائے.
ایسے میں ہم کیا کریں، کس سے فریاد کریں اور کس کے دامن کرم میں پناہ لیں یہ سب بتانے کی ضرورت نہیں، بروقت چند باتیں عرض ہیں، شاید کسی کو فائدہ ہوجائے:
1-پہلی بات تو یہ کہ ہم اپنے ذہن ودماغ سے ڈر ختم کریں ،اس بات پر عقیدہ رکھیں کہ ہماری حیات وممات کا ایک وقت معین ہے، اس میں نہ کمی ہوسکتی ہے نہ بیشی.
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
2-اس بات کا یقین رکھیں کہ موت کے سوا ہر بیماری کا علاج ممکن ہے* ، بیماری چاہے جتنی بڑی ہو جائے ہمارے رب سے بڑی تو نہیں ہوسکتی، وہی مرض دیتا ہے تو وہی اس کی شفا بھی دیتا ہے _، واذامرضت فھو یشفین_
3-اپنے اوپر بیماری کو حاوی نہ ہونے دیں، ہمیشہ یہ احساس رکھیں کہ بچپن سے لے کر اب تک جس طرح بیماریوں سے لڑکر کامیاب ہوتے آئے ہیں ان شاء اللہ اس مرض سے بھی جیت جائیں گے ، ہمت مرداں مدد خدا.
4-اپنے معمولات میں تبدیلی لائیں، اللہ تعالیٰ کی جناب سے عطا کردہ صحت کی قدر وقیمت سمجھیں، ایک ایک سانس کی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے اپنے معمولات کو از سر نو ترتیب دیں، کھانے، پینے اور سونے جگنے کا ایک وقت متعین کریں،ایمرجنسی حالات میں خود کو بدلنا ہی پڑتا ہے،وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے شب وروز کے مشاغل میں تبدیلی لائیں، وہی کھائیں جو مفید ہو، وہی کریں جو سودمند ہو اور وہی سوچیں جو فرحت بخش ہو.
5- کچھ وقت کے لیے شوشل میڈیا سے جزوی اجتناب برتیں ،اپنے اہل وعیال کو وقت دیں، کتابوں کا مطالعہ کریں، کتابیں تنہائی کابہترین ساتھی ہوتی ہیں، خود کو مثبت کاموں میں مصروف رکھیں، تنہائی زہر قاتل ہے،ہم مزاج احباب کے پاس وقت گزاریں، ہردم غور وفکر میں غرق رہنے کے بجائے کبھی کبھی خوش گوار موڈ میں بھی رہیں،بزرگی کے بجائے بچپن کی زندگی بھی جییں،انہیں باتوں کو دل میں رکھیں جو آپ کو خوشی دیں، اپنی سابقہ حصولیابیوں کو یاد کرکے فرحت و شادمانی کا احساس کریں.
6 -مایوسی کفر ہے ، ہر مشکل کا حل اور ہر بیماری کا علاج ہوتا، ہر شب کی صبح ہوتی ہے، یہ احساس پیدا کریں کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا ان شاء اللہ، ہم پھر سے رحمت الہی سے صحت و سلامتی کی زندگی جئیں گے، حالات ایک جیسے نہیں رہتے ہیں، بس صبر وتحمل ہی واحد علاج ہے، _ان اللہ مع الصابرين._
نہ لاؤ کبھی یاس کی گفتگو
کہ قرآں میں آیا ہے" لاتقنطو"
7-دل جب بہت پریشان ہو تو ذکر الہی کریں،" الا بذكر اللہ تطمئن القلوب" کہ ذکر الہی زخم خوردہ دل کا بہترین مرہم ہے،ذکر وفکر سے روح کی بالیدگی اور قلب کی رخشندگی کا سامان ہوتا ہے،خود کو خدا کے سپرد کردیں، رجوع الی اللہ کی کیفیت پیدا کریں، اپنے سارے معاملات اسی کے حوالے کردیں "من یتوکل علی اللہ فھو حسبہ"وہ ہم پر سب سے زیادہ مہربان ہے، وہ جو کرے گا ہمارے حق میں بہتر ہوگا.
8 -شوشل میڈیا سے جڑے احباب سے گزارش ہے کہ بہت اہم اور معروف ومقتدر شخصیات کی وفات کی خبر نشر کریں،سچ بتاؤں تو آج ہمارے معاشرے میں جو ذہنی اضطراب اور ڈپریشن کی کیفیت عام ہورہی ہے اس میں آپ کے اس غیر دانش مندانہ اقدام کا بھی بڑا دخل ہے، فطری طور سے جب آدمی موبائل آن کرتا ہے اور اچانک اس کی نظر وفیات کی خبروں پر پڑتی ہے تو نفسیاتی طور سے وہ ذہنی پریشانی کا شکار ہوتا ہے، اس لیے خدا را اس سے احتراز برتیں،میرے تو کتنے اعزہ واقربا اسی لاک ڈاؤن میں رحلت کیے مگر شاید ہی کبھی ان کی رحلت کی خبر شوشل میڈیا پر ڈالی ہو.
یہ چند سطور حاضر خدمت ہیں، پسند آئیں تو دعا سے نوازیں.