مسلم قائدین سے پہلے سوال ہونا چاہیے
گزشتہ دنوں برسراِقتدار جماعت نے اپنی ایک ماہ کی مدت پوری کرلی، اور اِس دوران جس قدر اَلمناک اورغیراِطمینان بخش معاملات سامنے آئے ہیں اُن سب کا رپورٹ کارڈ پیش کرکےمحترمہ سپریا شرینیت نے برسراِقتدار پر زبردست حملہ کردیا۔ حالیہ رپورٹ کارڈ میں برسراِقتدارکے خلاف تقریباً ۱۳؍ معاملات کو موضوع سخن بنایا گیا ہے اور اُن تمام معاملات میں برسراقتدار کی ناکامیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ جہاں تک ہم سمجھتے ہیں یہ رپورٹ کارڈ برسراِقتدار جماعت پر زبردست حملہ ہونے کے ساتھ ممکنہ طورپر احتیاطی بھی ہو، اِس لیے اِس رپورٹ کارڈ پر اِدھر اُدھر کی بات کرنے کی بجائے ہرسیاسی جماعت اور ہردانش ور کی طرف سے اِس کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے کہ پچھلے دس برسوں سے جوحزب اختلاف بالکل ناکارہ تھا اور کسی کام کا نہیں تھا آج وہ منظم اندازسے برسراِقتدار جماعت کوملکی و عوامی ترجیحات پر اَز سرنو غوروفکر کی دعوت دے رہا ہے اورملکی وعوامی مسائل ومشکلات پر اُسے سنجیدگی سے قدم اُٹھانے کے لیے مجبور بھی کررہاہے۔ قوم مسلم کے بہت سے بہی خواہان اور دانشوران اِس رپورٹ کارڈ کی محض اِس لیے مذمت کررہے ہیں کہ اس میں ماب لنچنگ کا ذکر نہیں کیا گیا ہے اور اِس کے درپردہ انتہائی دانشمندانہ انداز میں یہ باور کرانے کی کوششیں بھی کی جارہی ہیں کہ اِس میں مسلم مسائل کا ذکر نہیں ہے۔ چناں چہ ہم ایسے دانشوران ملک ملت سے دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ دہشت گردانہ حملوں میں افواج اورعام شہریوں کا شہیدہونا، دردناک ریل حادثے میں مسافروں کی اموات، نیٹ پیپر لیک اور یوجی سی نیٹ پیپر لیک معاملہ، اشیائے خوردنی کی مہنگائی، ٹول ٹیکس، سی این جی کی قیمت میں اضافہ، کرنسی اور اِیف ڈی آئی میں گراوٹ، بےروزگاری وغیرہ کیا یہ سب معاملے مسلم اقلیت کے نہیں ہیں؟ کیا اِن معاملات میں نفع ونقصان کا اثر اقلیت کی زندگیوں پر نہیں پڑتا؟ اِس بات سے انکار ممکن نہیں کہ ماب لنچنگ کا ذکرہونا چاہیے تھا لیکن صرف اِس لیے نہیں کہ یہ معاملہ مسلم اقلیت سے جڑا ہوا بلکہ اِس لیے اس کا ذکر ہونا چاہیے تھا کہ یہ عوامی اور ملکی مسائل سے جڑا ہوا معاملہ ہے۔ یہ باتیں ہمیں کبھی نہیں بھولنی چاہیے کہ ہر سیاسی جماعت عوام الناس کو اُسی قدر فوقیت دیتی ہے جس قدر کہ وہ اُس سے فائدہ اُٹھا سکے۔
رہی بات مسلم اقلیت کے محض ووٹر کے طورپر اِستعمال کرنے کی، تو اِس معاملے میں اکثریت کے ساتھ بھی یہی ہوتا آرہا ہے کہ حزب اختلاف ہویا برسراِقتدار جماعت، وہ بھی اکثریت کو محض ایک ووٹر کی حد تک ہی سمجھتی ہیں، مسلم اقلیت تو صرف ایک بہانہ ہوتاہےاقتدار تک پہنچنے کے لیے۔ نقصانات کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اَقلیت کے بالمقابل زیادہ نقصانات اکثریتی طبقہ اٹھاتا ہے۔ مثلاً تجارت کا میدان ہو یا تعلیم وتعلّم کا ،یا بے روزگاری کا، اگر دس فیصد مسلم اقلیت، نقصان میں رہتی ہے تو بیس فیصد اکثریت خسارے میں رہتی ہے۔ علاوہ ازیں غیر قانونی قبضہ واری کی بات کی جائے اور صرف اُن جگہوں کا ایک سرسری جائزہ لے لیا جائے کہ جہاں کہیں بھی قبضہ واری کے معاملات سامنے آئے ہیں اور جہاں کہیں بھی بلڈوزر چلائے گئےہیں، تو قومی اراضی اور شاہراہوں پر قبضہ واری تحقیقات سے یہ حقیقت بالکل واضح ہوجائےگی کہ اکثریت کے نقصان کےبالمقابل اقلیت کے نقصانات زیرو فیصدہوئے ہیں۔ البتہ! چندنامی گرامی اقلیتوں کے مکانات اور زمین -جائیداد پر جو بلڈوزر چلائے گئے ہیں تو وہ محض اِس لیے نہیں کہ وہ اقلیتی طبقے سے متعلق تھے بلکہ اِس لیے اُن کے ساتھ ایسا ظالمانہ رویہ اپنایا گیا کہ وہ برسراِقتدار جماعت کے لیے خطرہ ثابت ہوسکتے تھے اور اَیسے واقعات محض چند گنے چنے واقعات ہی کی شکل میں سامنے آئے ہیں۔ ہندوستانی سطح پرسرکاری اَراضی کو خالی کرانے اور قومی شاہراہ کو وسیع کرنے کے سلسلے میں جس قدر اقلیتی عبادت گاہوں کونشانہ بنایاگیا اور اُنھیں مسمار کیا گیا ہے اُن سے کہیں زیادہ اکثریتی عبادت گاہیں توڑی گئیں اورمنادر گرائےگئے ہیں، اِس کی ایک بڑی مثال اجودھیا رام مندر تعمیر ہےکہ شاہراہ کی توسیع اور شہری ترقیات کے نام پر اگر کہیں دَس مساجد مسمار کی گئیں تو وہیں پچاس منادر توڑے گئے اور عوامی سطح پر بات کی جائے تو جس قدر اقلیت کے مکانات کو زَک پہنچایا گیا اُس سے ہزار گنازیادہ اکثریت کے مکانات منہدم کیے گئے۔ پھر ہمارے جو دانشوران ماب لنچنگ کولے کر حزب اختلاف پر لعن طعن کررہے ہیں دراصل وہ جانے انجانے میں برسراقتدار کے حق میں راہ ہموار کررہے ہیں اور حزب اختلاف کو کمزورکرنے میں معاون ثابت ہورہے ہیں۔
آج ہم ماب لنچنگ کے سلسلے میں راہل گاندھی اوراَکھلیش یادو سے یہ سوال کرتے پھررہے ہیں کہ یہ لوگ ماب لنچنگ کے موضوع پر کیوں نہیں بول رہے ہیں اور خاموش کیوں ہیں؟ کیا مسلمانوں نے اِسی دن کے لیے اُنھیں ووٹ کیا تھا وغیرہ؟ لہٰذاہمارے خیال سےحزب اختلاف کے بالمقابل ماب لنچنگ سے متعلق سوال تو مسٹر نتیش کمار اور مسٹرنائیڈو صاحبان سے بطورخاص دریافت ہونا چاہیےکہ وہ برسر اقتدارجماعت کے بنیاد گزار اورمعاون ہیں اور اُن کی باتیں مسٹر وزیراعظم کے نزدیک زیادہ سنی جائیں گی۔ اگر بات مسلم ووٹ حاصل کرنے کی ہے تو یہی کام حزب اختلاف کی طرح نتیش کمار اور نائیڈو نے بھی کیا ہے۔ نیز آج ہم حزب اختلاف سے متعلق محترمہ سپریا شرینیت پریہ اِلزام دھرنے میں بڑے جوش و ولولہ کااظہار کررہے ہیں کہ اُنھوں نے اپنے رپورٹ کارڈ میں ماب لنچنگ کا ذکر نہیں کیاہے، اُن کی بڑی چوک ہے یہ درست ہے، لیکن کیا کبھی ہم نے اپنے اُن اقلیتی قائدین کی خبر لی ہے جن کو مسلمانوں نے ایوان کا ممبر بنایا ہے اور عزت ووقار بخشا ہے؟ کیا کبھی ہمارے اقلیتی قائدین نے ماب لنچنگ کے خلاف لب کشائی کرنے کی جرأت وہمت جٹائی ہے؟ کیا ہمارے اقلیتی قائدین نے اپنی اپنی سیاسی جماعتوں سے ماب لنچنگ پر سنجیدگی سےکبھی کوئی بات کی ہے اور اِس مسئلے کا حل نکالنے پر زوردیا ہے؟ اور کیا کبھی ہمارے اقلیتی قائدین ماب لنچنگ کے شکار اَفراد کے اہل خانہ سے ملاقاتیں یا باتیں کی ہیں اور کیا کبھی اُن کےاہل خانہ کے دکھ-درد بانٹنے کی کوششیں کی ہیں جن افراد کے ساتھ ماب لنچنگ کا سانحہ پیش آیا ہے؟
بہرحال ماب لنچنگ جیسےحساس مسائل میں ہمارے دانشوارن قوم وملت بالخصوص محررین ومقررین کواِنتہائی سنجیدہ کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور سیاسی جماعتوں پر تحریری ایٹم داغنے کی بجائے اپنی قوم کے سامنے کچھ ایسالائحہ عمل پیش کرنا جسے اختیار کرکے ہماری قوم ماب لنچنگ سانحے سے نجات حاصل کرسکے اور اِس سلسلے میں دستور ہند کے مطابق کوئی مضبوط اور ٹھوس دفاعی قدم اختیار کرسکے۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ ایسے حالات میں جب کہ مسلم اقلیت کے دکھ-درد اور مسائل ومشکلات سے متعلق سیاسی جماعتیں جانبداری سے کام لے رہی ہیں تواُن سیاسی جماعتوں کے سامنے رونے گڑگڑانے اور اُنھیں کوسنے کاسنے سے بہتر ہے کہ ہمیں اپنا سارا فوکس اِس پہلو پرمرکوز رکھاجائے کہ ہمارے اقلیتی قائدین، خواہ جس سیاسی جماعت سے منسلک اور متعلق ہوں ،وہ کم سے کم اقلیتی مسائل ومشکلات کے موضوع پر ایک ذہن اور ہم خیال رہیں اور جہاں کہیں بھی اقلیتی حق تلفی ہورہی ہو، وہاں فوراً بیک زبان آواز بلند کریں۔ ورنہ ہماری آوازیں اور ہماری تحریریں محض سدا بہ صحرا ثابت ہوں گی اور ناکامی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔