جد وجہد اور تجربہ ہار گیا ،مقبولیت جیت گئی! (میتھلی ٹھاکر ایک گلوکارہ ہیں مگر سیاست  عوامی مسائل کا تقاضا کرتی ہے)

سیاسی دنیا ہمیشہ سے تغیر و تبدل کا شکار رہی ہے۔ نظریات بدلتے ہیں، چہرے تبدیل ہوتے ہیں اور وقت کے ساتھ عوامی رجحانات بھی نئے رنگ اختیار کرتے ہیں مگر آج کی سیاست جس موڑ پر کھڑی ہے وہاں اصولوں، خدمات اور جد وجہد کے چراغ مدھم ہوتے جا رہے ہیں اور ان کی جگہ چمک دمک، مقبولیت اور سوشل میڈیا کی مصنوعی روشنی نے لے لی ہے۔ آج سیاست خدمت نہیں بلکہ شہرت کا میدان بن چکی ہے جہاں نظریہ نہیں بلکہ ٹرینڈ طے کرتا ہے کہ کون قیادت کے قابل ہے۔ یہی پس منظر ہے جس میں گزشتہ دنوں ایک خبر نے سیاسی فضا میں ہلچل مچا دی۔ گلوکارہ میتھلی ٹھاکر کو بھارتیہ جنتا پارٹی نے دربھنگہ ضلع کی علی نگر اسمبلی سیٹ سے امیدوار نامزد کیا ہے۔ بظاہر یہ ایک عام سی سیاسی تبدیلی دکھائی دیتی ہے مگر دراصل یہ فیصلہ وقت حاضر کی سیاست کی بدلتی ترجیحات کا مظہر ہے۔ یہ وہی علی نگر کی سیٹ ہے جو اب تک بی جے پی کے سینئر رہنما مشری لال یادو کے پاس تھی۔ وہ ایک ایسے کار کن رہے ہیں جنہوں نے پارٹی کے ابتدائی کمزور دنوں میں اپنی پوری توانائی، خلوص اور وفاداری کے ساتھ پارٹی کے پرچم کو بلند رکھا۔ گاؤں گاؤں، قریہ قریہ گھوم کر پارٹی کے پیغام کو عوام تک پہنچایا۔ نہ ذاتی مفاد، نہ طاقت کی خواہش ، صرف نظریے اور خدمت کا جذبہ ! مگر آج کے سیاسی منظرنامے میں ایسے لوگوں کی قدر و قیمت ماند پڑ چکی ہے۔

    مشری لال یادو کو پہلے ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ ان کا ٹکٹ کاٹا جا رہا ہے۔ پارٹی کے اندر کی خبریں، بدلتے رجحانات اور چمکتے چہروں کی سیاست ان کے سامنے تھی لیکن جب فیصلے کا باضابطہ اعلان ہوا تو ان کے لیے وہ لمحہ کسی زلزلے سے کم نہ تھا۔ انہوں نے آبدیدہ لہجے میں کہا:

    "میرے لیے بی جے پی میں اپنی عزت و وقار برقرار رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ میری محنت سے این ڈی اے دو اسمبلی حلقوں میں کامیاب ہوئی مگر آج پارٹی پسماندہ طبقات کے خلاف ہو گئی ہے"

   ان کے یہ الفاظ صرف ایک ناراض کارکن کا شکوہ نہیں بلکہ پورے سیاسی نظام کی بے حسی کا نوحہ ہیں۔ آج سیاست کا پیمانہ وفاداری نہیں بلکہ وائرل نام بن گیا ہے۔ عوامی خدمت کی جگہ اب سوشل میڈیا پر فالورز کی تعداد اور یوٹیوب ویوز نے لے لی ہے۔ پارٹی کے لیے پسینہ بہانے والے کارکن پیچھے رہ گئے اور مائک کے سامنے مسکراہٹ بکھیرنے والے آگے بڑھ گئے۔

   میتھلی ٹھاکر بلاشبہ ایک باصلاحیت اور مقبول گلوکارہ ہیں۔ ان کی آواز نے پوری ہندوستانی سر زمین پر شہرت حاصل کی ہے مگر سیاست ایک گیت نہیں جسے سُروں سے سنوارا جا سکے۔ سیاست بصیرت، سمجھ، تجربے، برداشت اور عوامی مسائل سے براہِ راست جڑے رہنے کا تقاضا کرتی ہے۔ سیاست وہ میدان ہے جہاں قدم ناپ تول کر رکھنا پڑتا ہے، جہاں ہر وعدہ ایک ذمہ داری بنتا ہے اور جہاں ہر فیصلہ ہزاروں زندگیوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اگر واقعی پارٹی کو خواتین قیادت کو آگے لانا ہی مقصود تھا تو ایسے درجنوں خواتین کارکنان موجود تھیں جنہوں نے برسوں پارٹی کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ انہیں نظر انداز کر کے ایک دن پہلے شامل ہونے والا چمکتا چہرہ لانا پارٹی کے وفادار کارکنان کے لیے بجا طور پر صدمہ انگیز ہے۔ مگر افسوس کہ آج کے سیاسی منظرنامے میں یہ سب معمول بن چکا ہے۔ اب یہ رجحان صرف بی جے پی تک محدود نہیں بلکہ تقریباً ہر بڑی سیاسی جماعت اسی راہ پر گامزن ہے۔ فلمی ستارے، یوٹیوب کے چہرے اور مشہور شخصیات سیاست کے دروازوں سے ایسے داخل ہو رہی ہیں جیسے شہرت ہی قیادت کا معیار ہو۔ کنگنا رناوت، روی کشن، ہیما مالنی، سنی دیول یہ وہ نام ہیں جنہیں سیاست میں عزت ملی مگر عوامی نمائندگی کا حق وہ کتنا ادا کر سکے؟ ان کے حلقوں کے عوام آج بھی بنیادی مسائل سے دو چار ہیں، ترقی کے وعدے فائلوں میں دفن ہیں اور عوامی رابطہ ایک خواب بن چکا ہے مگر چونکہ ان کے چہرے ٹی وی پر دکھائی دیتے ہیں اس لیے سیاست کے اس تماشے میں وہ قابل قبول قرار پاتے ہیں۔

    یہ رجحان جمہوریت کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ سیاست اگر شہرت کی دوڑ بن جائے تو عوامی خدمت کے جذبے کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔ وفاداری کی جگہ موقع پرستی آتی ہے اور عوامی فلاح کے منصوبے میڈیا مینجمنٹ کی نذر ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں ترقی کیسے ہوگی؟ جب قیادت ایسے چہروں کے ہاتھ میں دے دی جائے جو نہ عوام کے دکھ کو سمجھتے ہیں نہ زمینی حقیقتوں کا ادراک رکھتے ہیں۔ تو پھر اقتدار صرف سیلفی بن کر رہ جاتا ہے خدمت نہیں۔ آج وقت ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے اندر جھانکیں، اپنی جڑوں کی طرف لوٹیں۔ وہ اپنے پرانے کارکنان کو پہچانیں جنہوں نے اندھیروں میں چراغ جلائے، جنہوں نے بغیر کسی صلے کے نظریے کی حفاظت کی کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جو اقتدار کی نہیں خدمت کی سیاست کرتے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ آج خدمت گمنام ہے اور شہرت نمایاں۔ پارٹیوں میں عہدے اب میرٹ سے نہیں میڈیا سے تقسیم ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے شور میں وہ آوازیں دب چکی ہیں جو کبھی عوام کے دکھ درد کی بات کرتی تھیں اور یہی وجہ ہے کہ آج جد وجہد اور تجربہ ہار گیا اور مقبولیت جیت گئی۔ یہ صرف ایک انتخابی فیصلہ نہیں بلکہ ایک عہدِ زوال کی کہانی ہے جس میں اصول پسِ پشت اور شہرت پیشِ پیش ہے۔ اگر یہ روش جاری رہی تو وہ دن دور نہیں جب سیاست سے خدمت کا جذبہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہو جائے گا اور عوام محض فالوورز کے نعرے میں گم ہو جائیں گے اور جب سیاست سے خدمت کا رشتہ ٹوٹ جائے تو اقتدار کے ایوانوں میں سچ کی گونج نہیں مفاد کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ ایسے میں عوام کا اعتماد بھی متزلزل ہوتا ہے اور جمہوریت کی روح مجروح۔

   سیاست دان جب شہرت کے تعاقب میں عوام کی تکالیف بھول جاتے ہیں تو قومیں مایوسی کے اندھیروں میں بھٹکنے لگتی ہیں۔ وہ کارکن جنہوں نے نظریے کے چراغ سے اندھیروں کو چیرنے کی کوشش کی تھی آج حاشیے پر ڈال دیے گئے ہیں۔ ان کی قربانیاں، ان کی محنت، ان کا خلوص سب کچھ سوشل میڈیا کی چمک میں مدھم پڑ گیا ہے۔ سیاست کے اس نئے منظرنامے میں اصولوں کا ذکر کم اور پروموشن، فوٹو سیشن اور فالوورز کا شور زیادہ ہے۔

   یہ لمحہ سوچنے کا ہے کہ آیا ہم قیادت میں کردار دیکھنا چاہتے ہیں یا کیمرے کے آگے بناؤ سنگھار؟ کیا ہماری ترجیح وہ چہرے ہیں جو فریم میں خوبصورت لگیں یا وہ کردار جو اندھیروں میں روشنی بنیں؟ وقت کا دھارا تیزی سے بدل رہا ہے مگر اگر سیاسی جماعتوں نے اپنے اصولوں کی طرف لوٹنے کا حوصلہ نہ دکھایا تو آنے والے دنوں میں سیاست ایک تماشا بن کر رہ جائے گی جس میں نعرے ہوں گے مگر نظریہ نہیں، چہرے ہوں گے مگر کردار نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جماعتیں اپنے ان گمنام سپاہیوں کو یاد کریں جنہوں نے خاموشی سے جدو جہد کی، جو اقتدار کے نہیں اقدار کے علمبردار تھے۔ اگر سیاست میں خدمت کا جذبہ دوبارہ زندہ نہ کیا گیا تو آنے والے وقت میں اقتدار چند مشہور چہروں کی جاگیر بن جائے گا اور عوام کی آواز ایک ویڈیو کلپ تک محدود ہو کر رہ جائے گی۔ تاریخ گواہ ہے کہ مقبولیت کا سحر وقتی ہوتا ہے مگر جدو جہد کی خوشبو ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ آج شاید تجربہ اور خلوص ہار گئے ہوں مگر اگر قوم نے آنکھیں کھول لیں تو کل پھر وہی مشعلیں جل سکتی ہیں جو کبھی نظریے، اصول اور خدمت کے نام پر روشن تھیں۔ سیاست کو اگر زندہ رکھنا ہے تو اسے شہرت کی روشنی نہیں خدمت کی حرارت چاہیے کیونکہ قومیں تالیاں بجا کر نہیں کردار سے بنتی ہیں۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter