گجرات چناؤ کا سہ رخی مقابلہ: کیا کچھ بدلے گا؟
گجرات کی بر سر اقتدار بھاجپا کے لیے اگر مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مدوں کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تو ریاست میں پورے ستائیس اور مرکز میں مکمل آٹھ سالوں کی حکومت مخالف لہر اس دفعہ اس کی پریشانیوں میں اضافہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس بار گجرات کا مقابلہ اتنا سہل کسی طور نہیں لگتا جتنا کہ گودی میڈیا بتا رہا ہے۔ گنے چنے چند غیر جانبدار ذرائع کی مانیں تو واقعی ان دنوں بی جے پی کی نیندیں اڑی ہوئی ہیں کیوں کہ اس سال کے آخر میں ہونے والے دو اسمبلی انتخابات میں سے ایک کی تاریخوں کا اعلان ہو چکا ہے اور ایک کا کسی وقت بھی ہو سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بار ہماچل اور گجرات دونوں ہی ریاستوں میں بی جے پی انتہائی کمزور وکٹ پر دکھائی دے رہی ہے، حالانکہ دونوں ہی جگہ اسی کی سرکاریں چل رہی ہیں۔ سرکاریں تو بے شک چل رہی ہیں لیکن سرکاروں میں سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا کیوں کہ اندر ہی اندر کبھی تناؤ تو کبھی بغاوت کی خبریں مسلسل آ رہی ہیں۔
ہماچل سے صرفِ نظر گجرات کا الیکشن زعفرانی پارٹی کے لیے اس لیے بھی اہم ہے کہ یہ ریاست وزیر اعظم نریندر مودی اور امت شاہ دونوں کا آبائی صوبہ ہے اور اسی صوبے کے دم پر دونوں نے اپنے لیے مرکز کا راستہ ہموار کیا تھا۔ اس لیے آج یہاں نہ صرف ان کی بلکہ پوری زعفرانی پارٹی کی ساکھ اور عزت داؤ پہ لگی ہے کیوں کہ دونوں ہی لیڈران پارٹی کے سب سے اہم اور پاپلر چہرے ہیں۔ در اصل نریندر مودی کے مرکز کی طرف کوچ کرنے کے بعد سے آج تک گجرات کی سیاست عدم توازن کا شکار رہی اور اگر چہ اس کی بھگوا قیادت برقرار ہی مگر اس کے معیار اور نظم و نسق میں زبردست گراوٹ دیکھی گئی اور آج حال یہ ہے کہ وہاں ایک گمنام سا وزیر اعلی ہے جس کے نام سے خود ریاست کی عوام ناواقف ہے۔ کابینہ میں کون کون ہیں، وزراء اور وزارتوں نے کیا کیا کام انجام دیے کسی کو کچھ خبر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف شعبہ جات کے لوگ وہاں آئے دن سڑکوں پہ نظر آ رہے ہیں اور یوں کہا جا سکتا ہے کہ پوری ریاست میں ستّا پریورتن کی ایک آندھی سی چل رہی ہے۔
بی جے پی کے لیے تشویش کی بات یہ ہے کہ اولا فطری طور پر گجرات کی عوام اس کی قریب تین دہائیوں کی طویل قیادت سے بیزار ہو چکی ہے اور کسی سیاسی متبادل کی تلاش میں ہے اور پھر اروند کجریوال اپنی پوری ٹیم کے ساتھ گجرات آ بیٹھے ہیں اور کانگریس کی موجودگی کے باوجود خود کو بھاجپا کے سیاسی متبادل کے طور پرپیش کر نے کی کوش کر رہے ہیں۔ کجریوال اور ان کے نیتا اپنے مخصوص انداز میں گجراتیوں سے چلا چلا کر کہہ رہے ہیں کہ تم ہمیں بس ایک موقع دیدو! ہم دوبارہ نہیں مانگیں گے۔ یقینا دہلی کے وزیر اعلی اور عام آدمی پارٹی کی یہ مضبوط و پائیدار آواز سر زمین گجرات میں اس وقت ابھری ہے جب اسے اس کی اشد ضرورت ہے۔ اور دہلی کی لگاتار کامیابیوں کے ساتھ ساتھ پنجاب کی فتح کے بعد عام آدمی پارٹی کے حوصلے جس قدر بلند ہیں اور وہ جس جرات و دلیری کے ساتھ بی جے پی جیسے فرقہ پرست پارٹی کو پے در پے ٹکر دے رہی ہے اس سے لگتا یہی ہے کہ گجرات میں نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کا کھیل بگاڑ سکتی ہے۔
گجرات میں عآپ نے اپنے کام کی شروعات پہلے پہل دیہی علاقوں سے کی تھی جہاں کانگریس کی حالت بہتر بتائی جاتی ہے۔ اس وقت بی جے پی نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیاکی کیوں کہ وہ خود وہاں کمزور تھی بلکہ وہ اس بات سے کافی خوش تھی کہ کجریوال صاحب ان علاقوں میں سرگرم ہیں جہاں کانگریس مضبوط ہے۔ ایسی صورت میں دونوں پارٹیوں کے ووٹ منقسم ہوں گے اور فائدہ بی جے پی کے کھاتے میں آئے گا مگر مسٹر کجریوال نے جیسے ہی شہروں کا رخ کیا مودی اور امیت شاہ بے چین ہونے لگے۔ اور ان کی اس بے چینی نے شدت اس وقت پکڑی جب کجریوال کی شہری ریلیوں اور سبھاؤں میں توقع کے خلاف بھیڑامڑنے لگی اور انہیں عوام کا بے تحاشا پیار ملنے لگا۔ شہروں میں عوام کے مثبت تاثرات نے جہاں ایک طرف کجریوال کے حوصلوں کو بلند کیا وہیں بی جے پی دوہرے غم میں چلی گئی کیوں کہ دیہی علاقوں میں تو اس کی پوزیشن پہلے ہی کمزور تھی اور اب شہری علاقوں میں بھی بٹوار ا صاف دکھنے لگا تھا جو یقینا اس کے لیے پریشانی کا سبب تھا۔
مسٹر مودی کے لیے اپنی ہی ریاست میں کجریوال کا ڈر کوئی عام ڈر نہیں ہے جسے نظر انداز کر دیا جائے کیوں کہ کجریوال مودی اور زعفرانی پارٹی کا وہ حریف ہے جس نے دہلی کے چناوی دنگل میں مودی اور اس کی ٹیم کو بار بار پٹخنی دی اور ناکوں چنے چبوائے ہیں۔ پھر پنجاب کی کامیابی کے بعد ظاہر ہے کہ اس کی طاقت کافی بڑھ گئی ہے اور اب عام آدمی پارٹی علاقائی پارٹی کے بند کو توڑ کر قومی پارٹی بن چکی ہے، اس لیے گجرات میں بی جے پی کا پریشان ہونا فطری ہے۔ گجرات کے انتخابات میں ’گجرات ماڈل‘ کا تصور اٹھنا لازمی ہے جس کا ڈھنڈورا بی جے پی کی طرف سے کافی لمبے عرصے سے پیٹا جا رہا ہے اور بلا شک و شبہ یہی وہ عنصر ہے جس نے مودی اور امیت شاہ کو مرکز ی تخت تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ مگر حالیہ منظر نامے میں ’گجرات ماڈل‘ کا مقابلہ براہِ راست کجریوال کے ’دہلی ماڈل‘ سے ہے جو گجرات ماڈل سے ہر لحاظ سے بہتر اور کارگر ہے۔ کیوں کہ یہی وہ ماڈل ہے جسے ایک حکومت کو اپنے شہریوں کے لیے پیش کرنا چاہیے ا ور جس کی عوام کو ضرورت ہوتی ہے یعنی تعلیم، صحت، بجلی اور پانی۔ دہلی کی کجریوال حکومت ان تمام بنیادی سہولیات کو فراہم کرنے میں نہ صرف کامیاب ہوئی ہے بلکہ دنیا بھر سے اس کے متعلق داد بھی وصول چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گجرات کی عوام کہیں نہ کہیں اس پارٹی کی جیت میں اپنی بھلائی اور بہتری تلاش کر رہی ہے۔
کانگر یس کی بات کی جائے تو دیگر کئی ریاستوں کے برخلاف جہاں بی جے پی اقتدار میں ہے گجرات میں اس کی حالت اچھی ہے کیوں کہ شروع سے یہ مانا جا رہا ہے کہ اس سرحدی ریاست کے دیہی علاقوں میں اس کی پکڑ مضبوط ہے۔ اور یہ بات سچ بھی ہے جس کا اندازہ 2017 کے اسمبلی انتخابات سے لگایا جا سکتا ہے جس میں بی جے پی کو ۹۹ سیٹیں ملی تھیں جبکہ کانگریس نے ۷۷ سیٹوں پر اپنا قبضہ جمایا تھا۔ صاف طور سے دیکھا جا سکتا ہے کہ دونوں پارٹیوں کے بیچ زیادہ سیٹوں کا فاصلہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جاریہ سال یوپی کے انتخابی تنائج کے دوسرے ہی دن وزیر اعظم نے گجرات میں بڑے دھوم دھام سے قدم رکھ دیا تھا تاکہ اس بار کے چناؤ میں کانگریس کو اپنی سیٹوں میں اضافہ کرنے اور اسے اقتدار کے مزید قریب جانے سے روکا جائے۔ اس وقت ان کے ذہن میں صرف ایک ہی بڑی حریف یعنی کانگریس تھی مگر جوں جوں چناؤ کا وقت قریب آتا گیا کجریوال نے بھی گجرات میں اپنے تیور سخت کرلیے اور اب ایک کی جگہ بی جے پی کے سامنے دو دو حریف کھڑے ہو گئے۔ اب اس سہہ رخی مقابلے میں گجرات کی گدی پہ کون بیٹھے گا دیکھنے والی بات ہوگی۔
صدام حسین پروازؔ