تصوف و روحانیت کے نام پر دجل وفریب
تصوف اور روحانیت سنتے ہی ہمیں پاکباز صوفیاء کرام اور برگذیدہ فقراء عظام کی میٹھی یادیں تازہ ہوتی ہیں۔ ہمارے بھارت میں اسلام کی شجرکاری اور اسکی آبیاری کرنے والے صوفیاء ہی تھے۔ ہندوستان میں آج جو اسلام اور توحید کا پھریرا بلند وبالا ہے یہ سب تصوف اور روحانیت کی مرہون منت ہے۔ تصوف اور صوفیاء کی تاریخ کو اگر ہند کے اسلام کی تاریخ وروایت سے نکال دیں تو اسلام کی تاریخ نامکمل وادھوری رہ جائے گی۔ صوفیاء نے یہاں توحید کے ساغر کے ساتھ ساتھ محبت، الفت ، رواداری، ہم آہنگی، قومی یکجہتی ، بھائی چارگی اور احترام انسانیت کا جام پلایا۔ لفظ تصوف صوفیاء کی اصطلاح میں اپنے باطن کا تزکیہ اور تصفیہ کرنا، یعنی اپنے نفس کو نفسانی کدورتوں اور رذائلِ اخلاق سے پاک و صاف کرنا اور فضائلِ اخلاق سے مزین کرنے کو کہتے ہیں۔ اہل تصوف ایسے لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اپنے ظاہر سے زیادہ اپنے اندر کے تزکیہ اور تصفیہ کی طرف توجہ دیتے ہیں اور دوسروں کو اسی کی دعوت دیتے ہیں۔ انہیں لوگوں کے جیب سے زیادہ قلب وباطن پر نظر رہتی ہے۔ وہ کبھی روپیے یا دھن دولت کے پیچھے نہیں جاتے۔ دنیا ان کے چوکھٹ پر غلام بن کر ادبا کھڑی رہتی ہے۔ کبھی وہ اس سرکش غلام کی طرف نگاہ تک نہیں ڈالتے۔ انہیں اپنی ضرورتوں سے کہیں زیادہ خلق خدا کی ضرورتوں کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔ وہ کبھی مخلوق کے سامنے دست سوال دراز نہیں کرتے۔ ان کی ہر حاجت کو پوری کرنے والا پروردگار عالم ہے۔ ان کے پاک در سے کوئی خالی ہاتھ اور تہی دامن نہیں لوٹتا بلکہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق اس پریشان حال کی دستگیری وحاجت روائی کرتے ہیں۔ آپ سوچتے ہونگے کہ فقیر کولاری اس عنوان کے تحت کیا لکھنا چاہتا ہے تو کان کھول کر ہمہ تن گوش کر سنئے آج کل جو اوپر بیان کیا گیا ہے اس کے برعکس تصوف و روحانیت کے نام پر سادہ لوح مسلمانوں کو دخل وفریب دیا جارہا ہے۔ انہیں بے وقوف بنا کر انکی جائیداد ، انکی ثروت ودولت اور کھیت وکھلیان سب لوٹ لیا جاتا ہے۔ روحانیت کے نام پر اسے کنگال کرکے سڑک چھاپ بنادیا جاتا ہے۔ آخر وہ دین سے بد ظن ہوکر دین سے کافی دور ہوجاتاہے۔
تصوف، روحانیت، پیری مریدی اور عملیات کے نام پر چور اچّکے ان پڑھ گوار سادہ لوح مسلمانوں کو اپنے دام تزویر میں پھنسانے کے لئے گلی گلی کوچہ کوچہ دکانیں کھول رکھی ہیں۔ آج کل یہ مشاہدہ کیا جارہا ہے کہ جس کا باپ پیر ہے تو باپ کے مرنے کے بعد بیٹا صوفیانہ لبادہ اوڑھ کر اپنے آپ کو پیر ومرشد اور مربی راہ حق بارو کراتا ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس کی باپ کے اندر جو تقوی، پرہیزگاری، خوف، خشیت الہی، خلوص، خدمت خلق کا بے لوث جذبہ کارفرما تھا اس کا عشر عشیر یا رتی برابر بھی بیٹے کے اندر نہیں رہتا بلکہ سرے سے مذکورہ تمام صفتیں مفقود رہتے ہوئے بھی وہ پیر بن جاتا ہے پھر وہ رنگ برنگے لباس پہن کر ادھر ادھر کی ملکوتی وناسوتی باتیں سناکر انہیں گمراہ کرتے رہتا ہے۔ ایسے ہی بیٹوں کی عکاسی کرتے ہوئے علامہ اقبال فرماتے ہیں۔
باپ کا عِلم نہ بیٹے کو اگر اَزبر ہو
پھر پِسر قابلِ میراثِ پدر کیونکر ہو!
آج کل یہ ایک نئی بدعت شنیعہ امت مسلمہ میں رائج ہوگئی ہے کہ جو کوئی بھی عالم اس دار فانی سے کوچ کرجاتا ہے تو اس کے متعلقین اور اس کے پریوار والے مزار بناکر کسی ایک کو سجادہ نشین بنا دیتے ہیں پھر سال سال عرس کے نام پر لوگوں کو جمع کرکے اس متوفی عالم کی من گھڑت اور جھوٹی کرامتیں سناکر لوگوں کو انپرس کیاجاتا ہے۔ پھر کیا آج کے اس سوشیل میڈیا کے دور میں وہ جھوٹی کرامتیں اتنی وائرل ہو جاتی ہیں کہ پھر ہر کوئی اسے سچ اور قدرت الہی کی دین سمجھنے لگتا ہے۔ کیا خوب کہا شاعر نے
جب کریلا نیم پہ پہنچا تو میٹھا ہوگیا
جھوٹ اس نے اس قدر بولا کہ سچا ہوگیا
اگر ہم حقیقی تصوف کی نظریات اور اصول وضوابط کی کسوٹی پر آج کل کے متصوفین وپیروں کو پرکھ کر دیکھیں تو یہ بلکل متضاد و برعکس نظر آئنگے۔ کیونکہ نہ ان کے اندر شریعت مطہرہ کی خوشبو نہ ہی انہیں طریقت وحقیقت کے علوم ومعارف کا پاس ولحاظ۔ اگر ان سے تصوف کی تعریف تو دور اشتقاق بھی پوچھ لیا جائیں تو یہ نابلد ونا آشنا ہونگے۔ نہ ان پڑھ پیروں کو تعلیمات صوفیہ سے سروکار نہ ہی انہیں خدمت خلق کی فکر۔اس لیے ہم پر ضروری ہے کہ ان چور اچکوں پیروں سے دور رہ کر شریعت مطہرہ پر عمل پیرا رہیں۔
ائیے اب تھوڑا حضور داتا گنج بخش مولا علی بن عثمان ہجویری ثم لاہور رحمہ اللہ جن کے بارے میں سلطان ہند کچھ اس طرح رطب اللسان ہیں
گنج بخش فیض عالم مظہر نورﹺ خدا۔
ناقصاں را پیر کامل کاملاں را راہنما۔
آپ کی شہرۂ آفاق تصوف کی مایہء ناز کتاب کشف المحجوب کی بھی سیر کرلیتے ہیں۔ تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ حقیقی تصوف کیا ہے اور سچا صوفی کون ہے؟؟ سرکار داتا گنج بخش رحمہ الله سید الطائفہ حضرت سیِّدُنا جنید بغدادی عَلَیْہِ رَحمَۃُاللہِ الْہَادِی کا یہ قول نقل فرماتے ہیں کہ تصوف کی بنیادی خصوصیات آٹھ ہیں : (1)… سخاوت(2)… رضا(3)… صبر (4)… اشارہ (5)… غربت (6)… گدڑی (لباس) (7)… سیاحت اور (8)… فقر۔
یہ آٹھ خصلتیں آٹھ انبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہیں ۔ چنانچہ،
(1)… سخاوت حضرت سیِّدُنا ابراہیم عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے۔ کیونکہ آپ نے راہِ خدا میں اپنے جگر گوشہ کی قربانی دینے سے بھی گریز نہ کیا۔
(2)… رضا حضرت سیِّدُنا اسماعیل عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے۔ کیونکہ آپ نے ربّ کی رضا کے لیے اپنی جانِ عزیز کو بھی بارگاہِ خداوندی میں پیش کر دیا۔
(3)… صبر حضرت سیِّدُنا ایوب عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے۔ کیونکہ آپنے بے انتہا مصائب پر صبر کا دامن نہ چھوڑا اور اپنے ربّ کی آزمائش پر ثابت قدم رہے۔
(4)… اشارہ حضرت سیِّدُنا زکریا عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے۔ کیونکہ ربّ تعالیٰ نے ان سے ارشاد فرمایا:اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَةَ اَیَّامٍ اِلَّا رَمْزًاؕ- (پ۳، اٰل عمران: ۴۱)
یعنی: تین دن تو لوگوں سے بات نہ کرے مگر اشارہ سے۔اور ایک جگہ ارشاد فرمایا: اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ نِدَآءً خَفِیًّا(۳)(پ۱۶، مریم:۳)یعنی : جب اسنے اپنے رب کو آہستہ پکارا۔
(5)… غربت حضرت سیِّدُنا یحییٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے کہ انہوں نے اپنے وطن میں بھی مسافروں کی طرح زندگی بسر کی اور خاندان میں رہتے ہوئے بھی اپنوں سے بیگانہ رہے۔
(6)… گدڑی (صوف کا لباس) حضرت سیِّدُنا موسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے جنہوں نے سب سے پہلے پشمینی لباس زیبِ تن فرمایا۔
(7)… سیاحت حضرت سیِّدُنا عیسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے جنہوں نے تنہا زندگی گزاری اور ایک پیالہ و کنگھی کے سوا کچھ بھی پاس نہ رکھا۔ بلکہ ایک مرتبہ کسی کو اپنے دونوں ہاتھوں کو ملا کر پانی پیتے دیکھا تو پیالہ بھی توڑ دیا اور جب کسی کو دیکھا کہ انگلیوں سے بالوں میں کنگھی کر رہا ہے تو کنگھی بھی توڑ دی۔
(8)… فقر محسنِ کائنات، فخر موجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سنت ہے جنہیں رُوئے زمین کے تمام خزانوں کی کنجیاں عنایت فرمائی گئیں مگر آپ نے بارگاہِ خداوندی میں عرض کی: اے خدا! میری خواہش تو یہ ہے کہ ایک روز شکم سیر ہوں تو دو روز فاقہ کروں ۔
اس مذکورہ بالا اقتباس سے آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ تصوف کیا ہے؟ اور صوفیاء کون ہیں؟ اگر مندرجہ بالا صفات و خصوصیات کسی کے اندر پائی جاتی ہیں تو سمجھ جائیے کہ وہ سچا صوفی اور اہل اللہ میں سے ہے۔اگر ان صفات کا اس شخص سے گزر بھی نہیں ہوا تو بات ایک دم واضح و عیاں ہے کہ وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹا اور دروغ گو ہے۔ اسی کے بابت سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا اللہ تعاليٰ تمہیں علم عطا کرنے کے بعد اسے (سینوں سے) اُٹھا نہیں لے گا، بلکہ یوں اٹھائے گا کہ علماء کو ان کے علم سمیت اٹھالے گا۔ پھر باقی جاہل لوگ رہ جائیں گے جن سے فتويٰ طلب کیا جائے گا تو وہ اپنی رائے سے فتويٰ دیں گے۔ چنانچہ وہ (لوگوں کو) گمراہ کریں گے اور (خود بھی) گمراہ ہوں گے (بخاری) اس حدیث پاک سے آپ بحسن وخوبی سمجھ گئے ہونگے کہ اس زمانے اکثر وبیشتر پیر اسی قسم کے ہیں۔ جنہیں شریعت وطریقت کا کوئی اتا پتہ نہیں اور لوگوں کو مرید کرکے پیسہ بٹورنا ان کا اپنا اہم نصب العین ہے۔ لہذا کسی سے بھی ارادت یا روحانیت کے نام پر دھوکہ نہ کھائیے خود احتسابی کے ساتھ دوسروں کو بھی پرکھنے کی اپنے اندر صلاحیت و قابلیت پیدا کیجئے یہ کوئی مزاق نہیں بلکہ دین وایمان کا معاملہ ہے۔ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے آمین