قربانی اور اس کا فلسفہ
قرآن پاک میں رب عزو جل نے قربانی کے جانوروں کو شعائر اللہ میں شمار فرمایا ہے ،اور شعائر اللہ کی بڑی فضیلت ہے۔ ارشاد ہے:
وَالْبُدْنَ جَعَلْنَهَا لَكُمْ مِنْ شَعَاهِرِ اللّٰهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهَا صَوَافَ فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَ كَذلِكَ سَخَّرْ لَهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ۔(سوره حج :۲۲ / ۳۶)
ترجمہ: اور قربانی کے ڈیل دار(بڑے) جانور اونٹ اور گائے ہم نے تمھارے لیے اللہ کی نشانیوں سے کیے ، اور تمھارے لیے ان میں بھلائی ہے، تو ان پر اللہ کا نام لو، ایک پاؤں بندھے ، تین پاؤں سے کھڑے پھر جب ان کی کروٹیں گر جائیں تو ان میں سے خود کھاؤ اورصبر سے بیٹھنے والے اور بھیک مانگنے والوں کو کھلاؤ، ہم نے یوں ہی ان کو تمھارے بس میں دے دیا کہ تم احسان مانو۔ (کنزالایمان)
اس آیت سے چند باتیں معلوم ہوئیں:
(۱) قربانی کے جانور اللہ کی نشانیاں ہیں اور اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کا حکم ہے جیسا کہ فرمایا:
وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآىٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ۔(ا لحج :۲۲ / ۳۲)
ترجمہ: اور جو اللہ کی نشانوں کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کی پر ہیز گاری سے ہے۔
قربانی کے جانور کی تعظیم یہ ہے کہ اسے موٹا، تازہ لیا جائے، یا پال کر موٹا تازہ کیا جائے، اس پر سواری نہ کی جائے، اسے مارا نہ جائے، بھوکا پیاسانہ رکھا جائے۔ اس کا دودھ نہ پیا جائے ۔ بلکہ اسے صدقہ کر دیا جائے۔
(۲) قربانی کے جانوروں میں تمھارے لیے بھلائی ہے کہ دنیا میں اس کا گوشت کھاؤ، اس کی کھال سے فائدہ اٹھاؤ اور قیامت میں اس پر اجر و ثواب پاؤ۔
(۳) قربانی کے جانور اسی وقت حلال ہیں جب ان پر ذبح کے وقت اللہ کا نام لیا جائے ۔ اگر ذبح کے وقت قصداً اللہ کا نام نہ لیا گیا تو وہ جانور حرام مانا جائے گا۔
(۴) جب جانور ذبح ہو چکے تو اس میں سے حسب منشا خود کھاؤ اور دوسرے ان بھائیوں کو کھلاؤ جو قناعت پسند ہیں، مانگتے پھرتے نہیں اور انھیں بھی دو جو مانگنے والے ہیں، یہ مانگنے والے فقیر ہوں یا غیر فقیر کہ یہ صدقہ واجبہ نہیں مثل فطرہ زکوۃکے،کہ ایک صدقہ نافلہ ہے۔ لہٰذا کسی کو بھی دیا جاسکتا ہے اورخود کھاؤ کی تقدیم بتارہی ہے کہ انفاق (خرچ کرنے)میں خود اور اہل و عیال کو مقدم رکھنا چاہیے۔
حدیث میں بھی آیا ہے: “وَأبَدأ بمن تعول”(مسند احمد ،حدیث ۱۰۵۱۱، ج۱۶ / ۳۰۴)اپنے اہل و عیال سے آغاز کرو کہ ان کا حق سب پر مقدم ہے۔
(۵) ’’القانع ‘‘ کی تقدیم (پہلے لانا)بتارہی ہے کہ جو مانگنے والا نہ ہولیکن ضرورت مند ہو تو صدقے میں اس کا خیال پہلے رکھنا چاہیے کہ مانگنے والا تودس دروازے جاکر اپنی ضرورت پوری کرلے گا اور جو قانع (قناعت والا)ہو گا وہ بیٹھا انتظار ہی کرتارہ جائے گا۔
(۶) قربانی کے جانوروں کو اللہ ہی نے ہمارے قابو میں کر دیا ہے جنھیں ہم آسانی سے ذبح کر کے اللہ کے حکم پر عمل کرتے ہیں اور پھر ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں ،ور نہ قربانی کا حکم ہوتا اورجانور قابومیں نہ ہوتے تو امتثالِ امر(حکم پر عمل کرنا )د شوار ہو جاتا۔
(۷) اللہ نے ان جانوروں کو ہمارے قابو میں کیا ہےتو یہ اس کا احسان ہے۔لہٰذا اس احسان کا شکریہ بھی ہمارے اوپر واجب ہے۔ اور قربانی کرنا بھی ایک طرح کا شکر ہے۔
(۸) مذکورہ آیت میں قربانی کے جانوروں کو شعائر اللہ کہا گیا ہے اور شعائر اللہ کی تعظیم کا حکم بھی قرآن ہی میں دیا گیا ہے جس سے ثابت ہوا کہ شعار اللہ کی تعظیم عبادت نہیں جیسا کہ بعض لوگوں کو دھو کا ہوا ہے۔ اس لیے اس کی ذرا تفصیل پیش کی جاتی ہے تاکہ شبہات دور ہو جائیں۔
شعائر شعیرہ کی جمع ہے،اس کا معنی ہے، وہ چیز جس سے کسی کی پہچان ہو سکے، اس کو علامت بھی کہتے ہیں اور شعائر اللہ وہ چیزیں ہیں جن سے اللہ یا اللہ کے محبوبوں کی یاد آ سکے۔ اسی لیے ان کی تعظیم کا حکم دیا گیا ہے، گویا شعائر اللہ کی تعظیم اللہ عزوجل ہی کی تعظیم ہے۔
قرآن پاک میں قربانی کے جانوروں کے علاوہ صفا ومروہ دو پہاڑیوں کو بھی شعائر اللہ کہا گیا ہے اور ان کے طواف کو عبادت قرار دیا گیا تو معلوم ہوا کہ شعائر اللہ کی تعظیم عبادت ہے، یعنی تعظیم تو شعائر اللہ کی ہوئی اور عبادت خدا کی۔ لہٰذا شعائر اللہ کی تعظیم کو شعائر اللہ کی عبادت کہنا غلط ہے اورمسلمانوں پر تہمت ہے۔ اور وہ بھی شرک کی، جو بد ترین گناہ ہے۔
اور جب اللہ کی ایک بندی اور ایک نبی کی والدہ حضرت ہاجرہ کی دوڑ کی وجہ سے صفا و مروہ کو شعائر اللہ قرار دیا گیا تو اولیاء اللہ اور انبیاے کرام کے مزارات بدرجہ اَولیٰ شعائر اللہ ہیں اور ان کی تعظیم جائز ہی نہیں مطلوب شرع ہے اور ہر وہ چیز جو اولیا وانبیا سے نسبت رکھے شعائر اللہ میں داخل مانی جائے گی۔
سوره حج میں اللہ عزو جل نے شرک و بت پرستی کی مذمت بیان کی ہے اور اس کے فور اًبعد ار شاد فرمایا:
وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآىٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ۔(ا لحج :۲۲ / ۳۲)
اور اس کے آغاز میں طواف خانہ کعبہ کے بعد فرمایا:
وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ۔ (ا لحج :۲۲ / ۳۰)
ترجمہ: اور جو اللہ کی حرمتوں ( قابل احترام چیزوں) کی تعظیم کرے تو وہ اس کے لیے اس کے رب کے یہاں بھلا ہے۔
حرمات اللہ سے مفسرین نے مناسک حج اور دیگر احکام مراد لیے ہیں اور بعض نے بیت الله الحرام ،مشعر حرام ،بلد حرام اور خاص مسجد حرام کو مراد لیا ہے۔
یعنی جو اللہ تعالیٰ کی محترم چیزوں کی تعظیم بجالاتا ہے اور حدود شرع سے تجاوز نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ اسے اس کا اجر و ثواب عطا فرماتا ہے اور اس کے اس عمل کو رائیگاں جانے نہیں دیتا۔ لہٰذا حرمات اللہ اور شعائراللہ کی تعظیم واکرام کو حرام و شرک قرار دینا کسی طرح درست نہیں، بلکہ یہ دین میں بدترین درجے کی بدعت اور گمراہی ہے، اور شریعت میں اپنی طرف سے دخل اندازی اور من مانی بھی۔
قربانی میں اجر آخرت اور رضاے رب کی حصول یابی کے ساتھ بہت سے اخلاقی اور سماجی فوائد وبرکات بھی ہیں۔ مثلاً:
(۱)- قربانی کرنے سےاللہ کی راہ میں خروج کرنے کا جذبہ پر وان چڑھتا ہے،بخیلی دور ہوتی ہے،اسی لیے اچھے فربہ جانور کی قربانی کا حکم ہے۔ اور نہایت دبلا پتلا مریل جانوروں کی قربانی جائز نہیں۔
(۲) قربانی میں اقتصادی (معاشی اور مالی)فوایدبھی ہے کہ جب خرید ار اچھی قیمت دے کر جانور لیتا ہے تو اس کا نفع بیچنے والوں کو ملتا ہے جس سے ان کی تجارت ترقی کرتی ہے اور خوش حالی میں اضافہ ہوتا ہے اور چوں کہ جانور کی خرید و فروخت کا کام زیادہ تر مسلمان ہی کرتے ہیں اس لیے اس کا فائدہ بھی مسلمانوں ہی کو پہنچتا ہے، قربانی کی یہ بھی ایک بڑی حکمت ہے۔
(۳) قربانی کے جانوروں کی کھال دیگر جانوروں اور عام دن کے ذبیحے کی کھال سے عمدہ مانی جاتی ہے اور زیادہ داموں میں بکتی ہے، اور چوں کہ قربانی کی کھالوں کا صدقہ مسنون ہے اس لیے اس سے بہت سے غریب مسلمانوں کا بھلا ہوتا ہے، دینے والوں کو صدقے کا ثواب ملتا ہے۔دینی مدارس کو بھی ایک اچھی رقم دستیاب ہو جاتی ہے جس سے ان کے بھاری اخراجات کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے اور دینی تعلیم و تربیت کو فروغ ملتا ہے، گویا قربانی دین کے فروغ کا بھی بہت بڑاذریعہ ہے۔
جو حکم چرم قربانی کا ہے وہی حکم چرم عقیقہ کا بھی ہے جب کہ بیاہ شادی میں یا عام حالات میں جو جانور حلال طریقے سے ذبح کیے جاتے ہیں ان کی کھالوں کے صدقہ کا حکم نہیں ہے، جو جانور کا مالک ہے وہی ان کھالوں کا بھی مالک ہے، بیچ کر جو چاہے کرے، صدقہ کرے یا اپنے مصرف میں لائے ، چاہے تو قصاب کو اجرت میں دے، لیکن چرم عقیقہ و قربانی کو اجرت میں نہیں دیا جاسکتا۔
(۴) - چرم قربانی یا قربانی کا گوشت غربا و مساکین کو دے کر ان کا دل خوش کیا جاتا ہے،یہ بھی صدقہ کار ثواب ہے۔اس طرح ان کی دعائیں لی جاتی ہیں،یہ بھی ایک بہت بڑا فائدہ ہے۔چرم قربانی سے غریب لوگ پیسہ حاصل کرکےاپنی ضروریات پوری کرتے ہیں اور گوشت کو جی بھر کر کھاتے اور دل خوش کرتے ہیں۔ اس طرح قربانی میں ثواب کےساتھ ساتھ اخلاقی وسماجی فوائد بھی مضمر ہیں۔
(۵) چوں کہ قربانی میں بے عیب اور فربہ جانور ذبح کیا جاتا ہے، اس لیے جانور پالنے والے اپنے جانوروں کی دیکھ بھال اور تندرستی پر بھی توجہ دیتے ہیں اور اپنے جانوروں سے بے اعتنائی ولا پرواہی کا برتاؤ نہیں کرتے، گویا قربانی ،جانوروں کے حقوق کی پاسداری کی بھی ترغیب دیتی ہے۔
اور اسلام تو جانوروں کی ضروری نگہداشت کا حکم بھی دیتا ہے اور ان پر ظلم کو منع کرتا ہے۔ اسی لیے حکم ہےکہ ایک جانور کے سامنے دوسرانہ ذبح کیا جائے۔ کہ اس میں اس کی اذیت ہے ۔
(۶) قربانی کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ قربانی کرنے سے آدمی کے اندر جرات و بسالت کا مادہ اجاگر ہو جاتا ہے، اور قربانی کے علاوہ دنوں میں بھی اگر کبھی کوئی جانور ذبح کرنا پڑا تو کر سکتا ہے۔ بسا اوقات آدمی ایسی جگہ ہوتا ہے جہاں قصاب یا دوسرا کوئی ذبح کرنے والا نہیں ملتا تو قربانی کرنےکی عادت وہاں کام دے گی۔ مثلاً کسی جنگل میں بھیڑیے وغیرہ کسی درندے نے کسی بھیڑ یا بکری کو کاٹ کر چھوڑ دیا اور جانور تڑپ رہا ہے تو فوراً اس کو ذبح کرکے اس کو اذیت سے بچانا ضروری ہے۔ورنہ وہ جانور تڑپ کر جان دے دےگا اور پھر اس مردہ جانور کا گوشت بھی حلال نہیں حرام ہوگااور وہ بھی کسی کام نہیں آئے گا۔
(۷) قرآن سے ثابت ہے کہ قربانی اگلی امتوں اور قوموں میں بھی تھی، لہٰذا آج کوئی دوسرے مذہب کا ماننے والا اسلام پر اعتراض نہیں کر سکتا،نہ یہود و نصاریٰ،نہ ہنود۔ اس کا کافی بیان فتاویٰ رضویہ جلد ہشتم (۸) ص: ۴۴۳، وغیرہ میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
(۸) جانور پالنے والے مسلمان بھی ہوتے ہیں اور غیر مسلم بھی ،لہٰذا اس کے ذریعے سے مسلمان کو بھی فائدہ پہنچتا ہے اور غیر مسلموں کو بھی ،یوں ہی چرم قربانی سے مختلف قسم کے ساز وسامان بنانے والوں کی تعداد زیادہ تر غیر مسلموں کی ہے۔لہٰذا اس کا فائدہ مسلمانوں کو کم غیر مسلموں کو زیادہ ہوتا ہےپھر اعتراض کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، اسی کو کہتے ہیں’’ گُڑ کھائیں ،گلگلے سے پرہیز ‘‘۔
الغرض قربانی نقل و عقل ہر طرح جائز بلکہ شعائر اسلام سےہے ۔اہل ایمان اسلام کو چاہیے کہ بطیب خاطر اس پر کار بندر ہیں اور دارین میں اجر و ثواب کے مستحق ہوں۔آمین بجاہ حبيبك سيد المرسلين علیہ وآلہ وصحبہ اجمعین۔