احکام صدقہ فطر
حضوراکرم رحمت عالم صلی اللہ تعالی علیہ و علی آلہ و صحبہ و بارک وسلم نےصاحب نصاب مسلمانوں کوھدایت دی کہ وہ خود اورنابالغ اولاد وبیوی کی طرف سےصدقہ فطر اداکرے۰
کشمش کھجور جو ھرایک فرد کی طرف سےایک صاع یعنی چارکلو سوگرام۰
گیھوں نصف صاع یعنی دوکلوپچاس گرام مستحق کودیاجائے قیمت دیں توزیادہ بہتر ھےکہ حاجت مند بآسانی اس سے اپنی ضرورتیں پوری کر سکتےھیں اور آپ کی طرح عید کی خوشیاں منا سکتے ھیں۰
قربانی کی طرح صدقہ فطربھی واجب ھے۰
بکرا بھیڑ اونٹ بیل بھینس کی قربانی کی جاتی ھے۰ ھرایک اپنی حیثیت و استطاعت کے مطابق جانورلاتاھے۰معمولی حیثیت کا آدمی بڑے جانورمیں حصہ لےکر اپناواجب ادا کرلیتا ھے۰ کرورپتی و لکھپتی پیل بھینس کی قربانی نھیں کرتے اچھا سےاچھابکرا لاتے ھیں تاکہ معاشرہ میں اس کی حیثیت بر قراررھےاور اپنے رب کا شکر بھی اداھوبہتر خوراک بھی حاصل ھو جائے۰ آپ قربانی میں احکام شرع کے مطابق اچھا سے اچھا قیمتی صحت مند جان ورلاتے اورِخوش دلی سے ذبح کرتےھیں خودکھاتے اولادو احباب اور غریبوں کوکھلاتے ھیں.
واجب صدقہ فطرکوبھی نبی رحمت صلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ و صحبہ وبارک وسلم کے ارشاد ذبیب (کشمش ) کھجور جو کہ جس کی بڑی مقدار و اچھی قیمت ھے اس سے اداکریں تاکہ فقیروں کی ضرورتیں فقط آپ کے گھر کےفطرہ سے پوری ھو جائے دس کے سامنے ھاتھ پھیلانے کا سامنانہ ھو۰اس کو خوش دلی سےادا کیجئے۰ مدارس کے ذمہ داروں سے کہئے کہ بفضلہ تعالی ھم مالی اعتبارسے مضبوط ھیں ھماراصدقہ فطر منقی کھجور کی قیمت سے جوڑکربتائیے محصلین کو بھی چاھیئے کہ فطرہ کی رسیدبناتے وقت دریافت کرلیں کہ کیا آپ معمولی درجہ کے صاحب نصاب ھیں ؟ دوکلو ۴۷ گرام کے حساب سے فطرے اداکریں گے؟
ھمیں یقین ھےکہ فطرے کی صحیح نوعیت جو احادیث میں ھدایت ھوئی ھے مسلم معاشرہ میں عام کی جائے تو بلا ترددسب اس کوقبول کریں گے اور منقی کھجور جو سے صدقہ فطر ادا کرنے میں سبقت کریں گے۰کشمش کھجور جو سے صدقہ فطر ادا کرنے کےاحکام و مسائل کتابوں میں دب کر رہ گئےھم اس کی تبلیغ وتشھیر نہ کرسکے۰ ھاں جوصاحب نصاب مالی حیثیت سے کمزورو پچھڑے ھوئےھیں وہ نصف صاع دوکلو ۴۷ گرام گیہوں سے فطرہ اداکر کے بری الذمہ وسبک دوش ھوجائیں۰ لیکن خوش حال وِخوش مآل منقی کھجور جو سے صدقہ فطر اداکر کےاپنی فیاضی و دریادلی اور غرباپروری کا مظاھرہ کریں۰ انما الاعمال بالنیات ولکل امرئ مانوی۰ عملوں کادار ومدارنیتوں پر ھے اورھر ایک کووھی ملتاجیسی اس کی نیت ھوتی ھے۰
(۲۰ رمضان المبارک ۱۴۴۲ ھ)