جانور ذبح کرنے کا شرعی طریقہ
عیدالاضحی کے موقع پر بہت سے لوگ اپنے ہاتھوں سے قربانی کا جانور ذبح کرتے ہیں ،جب کہ کچھ لوگ قصائی سے اور کچھ خوش نصیب علمائے کرام سے ذبح کراتے ہیں ، اس لئے یہ جاننا انتہائی ضروری ہے کہ کس طرح ذبح کرنے سے جانور حلال ہوتا ہے اور کن کوتاہیوں کے سبب حرام ومردار ہو جاتا ہے۔
اس تحریر میں عوام اہل سنت کے لیے ذبح سے متعلق بہت ہی اہم مسائل لکھے جار ہے ہیں، پڑھیں اور دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کریں ؛ شاید کسی مومن کی قربانی ضائع {بر باد } ہونے سے بچ جائے .
ذبح کا معنیٰ :
جانور کے گلے میں کچھ رگیں ہوتی ہیں ، انھیں کاٹ دینے کو "ذبح " کہتے ہیں ، جس کی وہ رگیں {نسیں } کاٹ دی جائیں اسے" ذبیحہ " یا "مذبوح " کہا جاتا ہے ۔
ذبح کی جگہ :
ذبح کی جگہ حلق اور سینہ کے اوپری حصہ کے درمیان ہے ۔ ذبح میں جو رگیں کائی جاتی ہیں وہ چار ہیں (1) حلقوم ، اس سے سانس آتی ہیں (2) مرِی ، اس سے کھانا پانی اترتا ہے (3-4 ) ان دونوں کے اغل بغل دو رگیں اور ہیں جن میں خون کی روانی ہوتی ہے ، انھیں"وجد ین " کہا جا تا ہے ۔
جانور کب حلال ہوگا :
ذبح کا طریقہ یہ ہے کہ چاروں رگیں مکمل طور پر کاٹی جائیں ، مگر چار رگوں میں سے تین کا کٹ جانا بھی کافی ہوتا ہے ، یعنی اس صورت میں بھی جانور حلال ہو جاۓ گا اور اگر چاروں میں سے ہر ایک کا اکثر حصہ کٹ جائے تب بھی حلال ہو جاۓ گا ۔
جانور کب مردار و حرام ہوگا :
اگر چاروں رگیں آدھی آدھی کٹیں اور آدھی باقی رہ گئیں ، یا صرف دو ہی رگیں کٹیں یا صرف ایک ہی کٹی اور جانور مر گیا، تو وہ مردار ہو گا حلال نہ ہوگا ۔
قصائیوں کی ایک بڑی غلطی :
آج کل قصائی نہ جانے کیوں چمڑے کی مقدار بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں اوراس کے لئے وہ جانور کو بہت اوپر سے ذبح کرتے ہیں ، ایسا کرنے میں ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ جانور گلے کی ابھری ہوئی ہڈی{ گھنڈی }کے اوپر سے ذبح ہو جاۓ ، اس صورت میں اگر تین رگیں کٹ جائیں تو جانور حلال ہے ورنہ نہیں ۔ تین رگیں کٹنے کی صورت میں بھی ایسے جانور کا گوشت نہ کھانا ہی بہتر ہے ، اس لئے قربانی کرانے والا ، قصائی پر نظر رکھے تا کہ وہ بالکل اوپر سے ذبح نہ کر سکے۔
ذبح سے جانور کے حلال ہونے کی شرطیں :
ذبح کرنے سے جانور اسی وقت حلال ہوتا ہے جب کہ مندرجہ ذیل چند شرطیں پالی جائیں :
(1) ذبح کرنے والا عاقل ہو ، یعنی پاگل یا بالکل چھوٹا نا بالغ بچہ نہ ہو، لیکن اگر چھوٹا بچہ ذبح کو سمجھتا اور اس کا شرعی طریقہ جانتا ہے اور ذبح کرنے پر قادر بھی ہے تو اس کا ذبیحہ حلال ہوگا ۔
(2) ذبح کرنے والا مسلمان ہو ،لہذا مشرک ، کافر اور مرتد کا ذبیحہ نا جائز و حرام ہے ، اسی طرح جس کی بد مذبیت حد کفر کو پہنچی ہو اس کا ذبیحہ بھی حرام و مردار ہے ۔
(3) اللہ عز وجل کے نام سے ذبح کرے ۔ یعنی ذبح کرتے وقت اللہ تعالی کے ناموں میں سے کوئی نام ذکر کرے ،مثلا "اللہ اکبر، اللہ اعظم ،الرحمن اعظم وغیرہ " سبحان اللہ اور الحمد للہ کہنے سے بھی حلال ہو جاۓ گا ۔
( 4 ) ذبح کرنے والا خود اپنی زبان سے اللہ تعالی کا نام لے، اگر وہ قصداً خاموش رہا اور دوسروں نے نام لیا تو جانور حرام و مر دار ہو گا ، اسے کھانا جائز نہیں ہوگا۔
جان بوجھ کر بسم اللہ نہ پڑھنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ منہ پان ، گٹکھا ، کھینی یا تمباکو سے بھرا ہوا تھا جس کے سبب زبان نہیں ہلی اور صحیح ڈھنگ سے بسم اللہ نہ بڑھ سکا، اس صورت میں بھی جانور حرام ہوگا ۔ اس لئے ذبح کرنے والے کو ، بالخصوص قصائیوں کو چاہئے کہ ذبح کرتے وقت منہ میں پان نہ رکھیں اور قربانی کرانے والوں پر بھی لازم ہے کہ اپنا جانور اسی سے ذبح کرائیں جس کے منہ میں پان مسالہ نہ ہو۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگ قربانی کرنے کے شوق میں چھری ہاتھ میں لے لیتے ہیں اور بسم اللہ پڑھ کر ذبح کرتے ہیں مگر وہ ضروری رگیں نہیں کاٹ پاتے اور قصائی ان کے ہاتھ سے چھری لے کر خود ذبح کر دیتا ہے ۔ اس صورت میں اگر قصائی نے بسم اللہ نہیں پڑھی تو جانور مر دار و حرام ہو جاۓ گا۔
( 6 ) جانور ذبح کرنے ہی کی نیت سے بسم اللہ بڑھے ،اگر کسی اور مقصد کے لئے بسم اللہ پڑھی اور پھر دوبارہ بسم اللہ پڑھے بغیر جانور ذبح کر دیا تو وہ حرام و نا جائز ہو گا ۔
( 7 ) ذبح کے وقت اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کا نام نہ لے، اگر ذبح کے وقت کسی اور کا نام لیا تو جانور مر دار ہو جاۓ گا۔
( 8 ) جس جانور کو ذبح کیا وہ ذبح کے وقت زندہ ہو ،اگر چہ اس کی زندگی کا کچھ ہی حصہ باقی رہا ہو ، یعنی اس کی آخری سانسیں چل رہی ہوں ۔
ذبح کے وقت یہ تمام شرطیں پائی جائیں گی تبھی جانور حلال ہوگا ورنہ نہیں ۔اگر دولوگ مل کر ذبح کریں تو دونوں کا بسم اللہ پڑھناضروری ہے اگر کسی ایک نے جان بوجھ کر بسم اللہ ترک کی تو جانور حلال نہ ہوگا ۔
جانور پر ظلم نہ ہونے دیں:
ذبح کے بعد جب تک جانور کی روح نہ نکل جاۓ اس وقت تک اس کی کھال اتاری جائے نہ اعضا کاٹے جائیں ۔ قربانی کے دنوں میں قصائی لوگ دولت کی حرص میں جانور پر ظلم کرتے ہیں کہ جان نکلنے سے پہلے اس کی کھال اتارنا شروع کر دیتے ہیں۔ منع کرنے پر کہتے ہیں کہ ٹھنڈا ہونے پر کھال نہیں اترتی ، اسی طرح کچھ ظالم قصائی اسے جلد ٹھنڈا کرنے کے لئے چاروں رگیں کاٹنے کے بعد اس کے گلے کے اندر چھری گھونپ کر دل کے پاس کی جھلی کاٹ دیتے ہیں، جس کے سبب دل کی حرکت فورا بند ہو جاتی ہے اور جانورفی الفور ٹھنڈا ہو جا تا ہے۔ یا درکھیں یہ دونوں کام حرام و نا جائز ہیں ، آپ قربانی کرتے وقت قصائی کو تاکید کر یں، تا کہ وہ اس طرح کی حرکت نہ کرنے پائے، ورنہ قصائی کے ساتھ قربانی کرانے والا بھی گنہ گار ہوگا۔
اللہ عز وجل اپنے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و صحبہ وبارک وسلم کے طفیل آپ سب کی قربانیاں قبول فرمائے ۔
آمین یا رب العالمین....
سید محمد اکرام الحق قادری مصباحی????️
صدر مدرس : دارالعلوم محبوب سبحانی کرلا ویسٹ ممبئی 70
پیش کش : نورا یمان ، اسلامک آرگنائیزیشن کر لاویسٹ ، ممبئی ۔