عید الاضحی:فلسفۂ ایثار و خلوص کی عملی تفسیر

اسلامی مہینوں کا آغاز اور اختتام دونوں ایک عظیم قربانی سے ہوتا ہے۔ محرم کا مبارک مہینہ امام عالی مقام امام حسین علیہ الصلاة و السلام اور خانوادۂ بتول کی جانوں کی قربانی کی یادگار ہے تو ماہ ذو الحجہ ہمیں جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل کی قربانی کی داستان سناتی ہے۔بقر عید یا عید الاضحی کا بنیادی فلسفہ ہی خلوص، ایثار، للہیت اور خدا کی رضا وخوشنودی کے خاطر ہر نفیس وخسیس چیز کو قربان کرنا ہے۔عید قرباں منانے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر وہی روح، اسلام و ایمان کی وہی کیفیت اور خدا کے ساتھ محبت و وفاداری کی وہی شان پیدا ہو جس کا مظاہرہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی زندگی میں کیا ہے

اسلام اپنے ہر ماننے والوں کو ایثار، خلوص اور للہیت کا حکم دیتا ہے۔ ہر عمل چاہے جو بھی ہو وہ محض رب قدیر کی رضامندی کے خاطر ہو جیسے کہ قرآن مجید میں ہے اور ان لوگو ں کو تو یہی حکم ہوا کہ اللہ کی بندگی کریں نِرے اسی پر عقیدہ لاتے ایک طرف کے ہو کر اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور یہ سیدھا دین ہے (سورۃ البینۃ:5) اس آیت کریمہ کی وضاحت حدیث شریف میں کچھ یوں ہے جس کو حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ روایت کرتے ہیں کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک اللّٰہ تعالیٰ تمہاری شکلوں اور تمہارے مالوں کی طرف نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کو دیکھتا کرتا ہے۔( مسلم، کتاب البر و الصلۃ و الآداب، باب تحریم ظلم المسلم وخذلہ... الخ، ص۱۳۸۷، الحدیث: ۳۴(۲۵۶۴))

بقر عید کو ہم محض ایک تہوار نہ سمجھے بلکہ ایک عظیم قربانی اور ایثار کی یادگار ہے۔ جس کو اللہ تعالی کے جلیل القدر پیغمبر حضرت خلیل اللہ ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے رب کی رضا کے خاطر پیش کیا تھا۔ جب ہم جانور کی قربانی کریں تو دل میں یہ ارادہ ہو کہ قربانی جانور کی نہیں بلکہ میرے نفس کی بری خواہشات ہورہی ہے۔ جانور کو ذبح کرکے گوشت کھانے کی نیت نہ ہو کیونکہ نہ رب قدیر کو گوشت پہنچتا ہے نہ دیگر اشیاء وہ صرف اور صرف تمہاری نیتوں کو دیکھتا ہے جیسے کہ قرآن میں ہے اللہ کے ہاں ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں اورنہ ان کے خون، البتہ تمہاری طرف سے پرہیزگاری اس کی بارگاہ تک پہنچتی ہے ۔ اسی طرح اس نے یہ جانور تمہارے قابو میں دیدئیے تا کہ تم اس بات پر اللہ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت دی اور نیکی کرنے والوں کو خوشخبری دیدو۔(سورۃ الحج:37)

جس طرح ہم نے عید الفطر میں صدقہ خیرات کرکے غریبوں اور مسکینوں کو اپنی خوشیوں میں شامل کیا اسی طرح بقر عید میں بھی ہر غریب ونادار کے گھر ڈھونڈ ڈھونڈ کر گوشت پہنچائیں تاکہ وہ بھی عمدہ اور لذیذ پکوان سے لطف اندوز ہوں۔ اور بالخصوص گوشت تقسیم کرتے وقت لائن گھڑا کر ایک دو ٹکڑا دیکر انہیں شرمسار نہ کریں بلکہ ہوسکے تو زیادہ سے زیادہ دینے کی کوشش کریں۔ اس گوشت کی تقسیم کے پیچھے بھی رضا الہی ہی کارفرما ہوں۔جس طرح ہم نے عید الفطر میں صدقہ خیرات کرکے غریبوں اور مسکینوں کو اپنی خوشیوں میں شامل کیا اسی طرح بقر عید میں بھی ہر غریب ونادار کے گھر ڈھونڈ ڈھونڈ کر گوشت پہنچائیں تاکہ وہ بھی عمدہ اور لذیذ پکوان سے لطف اندوز ہوں۔ اور بالخصوص گوشت تقسیم کرتے وقت لائن گھڑا کر ایک دو ٹکڑا دیکر انہیں شرمسار نہ کریں بلکہ ہوسکے تو زیادہ سے زیادہ دینے کی کوشش کریں۔ اس گوشت کی تقسیم کے پیچھے بھی رضا الہی ہی کارفرما ہوں۔

قربانی کرنے والے اہل خیر حضرات سے والہانہ اپیل ہے کہ گوشت کی ذخیرہ اندوزی کے لیے ہرگز قربانی نہ کریں۔ اگر ذخیرہ اندوزی ہی کرنا ہے تو آپ الگ سے جانور خرید کر ذبح کرلیں۔ لیکن قربانی کا مقصد ہی ذخیرہ اندوزی نہ ہو ہم اس لئے یہ کہہ رہے ہیں کہ بہت علاقوں میں ایسا کیا جاتا ہے۔ کچھ احباب قربانی کرتے ہیں اور کسی کو بھی قربانی کا گوشت تقسیم نہیں کرتے بلکہ پورا کا پورا گوشت اپنے فریج میں رکھ کر مہینوں تک استعمال کرتے ہیں۔ یہ تمام باتیں مشاہدات ہیں۔قربانی محض ایک رسم ورواج نہیں بلکہ ایک عظیم یادگار ہے۔ جس کی مثال پیش کرنے سے تاریخ انسانیت بھی قاصر ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی وہ بے مثال عمل جس کو رب قدیر نے صبح قیامت تک باقی رکھا تاکہ آنے والی نسلیں ایثار اور خلوص کا درس ان کی پاکیزہ زندگی سے حاصل کریں۔ ایک عمر رسیدہ کمزور ولاغر باپ اپنے بڑھاپے کے سہارے کو دل پر پتھر رکھ کر رب کی رضا کے لیے بغیر کسی چوں چرا کے قربان کرنے کے لیے تیار ہونا کوئی معمولی بات نہیں۔ اور وہ نور نظر اور لخت جگر کو بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ جو بغیر کسی اعتراض کے قربان ہونے کے آمادہ ہوگیا۔ اسی بے مثال باپ اور بیٹے کی خدمت نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہوئے علامہ اقبال کہتے ہیں

آج بھی ہو جو براہیمؑ کا ایماں پیدا

آگ کر سکتی ہے اندازِ گُلستاں پیدا

یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی

سِکھائے کس نے اسمٰعیلؑ کو آدابِ فرزندی

اس یادگار کو ہمیشہ ایک بے لوث عمل سمجھ کر ادا کریں اور اپنے اندر بھی خلوص وللہیت پیدا کریں اور قربانی کی جو روح ہے اسے حاصل کرکے دنیا و آخرت میں سرخرو ہوں ۔ اللہ تعالی ہم سب کو اس کی توفیق رفیق عطا فرمائے اور قربانی کے تمام انوار وبرکات سے مالا مال فرمائے آمین

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter