بوڑھوں-کمزوروں کے اِحسانات اور ہمارا معاشرہ
آج کا عہد ترقی یافتہ ہے اور تمام تر جدید ٹکنالوجی سے مزین و مرصع ہے اور ہر طرح کی سہولیات موجود ہیں، اِس کے باوجود وَہ قلبی سکون میسر نہیں جو برسوں پہلے ہمارے بڑے بزرگوں کے عہد میں میسر تھا، اور اِس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ اُن کے زمانےمیں تمام لوگ ایک کنبے کی حیثیت سے اپنی زندگی بسر کرتے تھے، سبھی ایک دوسرے کے سکھ دکھ میں برابر شریک ہوتے تھے اَور ایک دوسرے کی حاجتوں اور ضرورتوں سے بخوبی واقف رہتے تھے، مگر آج کے اِس گلوبلائزیشن کے عہد میں جب کہ ہم چاند پر پہنچ چکے ہیں، اَپ نے علم و ہنر کے بل بوتے آسمانوں پر کمندیں ڈالنے کے لیے پَرتول رہے ہیں اور آج پوری دنیا کو ہم اپنے سر کی آنکھوں سے اَیسے دیکھ رہے اَور محسوس کر رہے ہیں جیسے اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں۔
لیکن افسوس کہ ہم نے جہاں ایک طرف ترقی کی ساری سرحدیں پار کرلی ہیں وہیں دوسری طرف اپنی اَصل سے ہم کوسوں دور ہوگئے ہیں اور ہمارے اور اَپنوں کے درمیان اِس گلوبلائزیشن کے عہد میں بھی ایک اُونچی دیوار کھڑی ہوگئی ہے کہ ہمیں سامنے والے کے سکھ-دکھ سے کچھ سروکار ہوتا ہے نہ ہی اُن کی حاجتوں اور ضرورتوں سے کوئی دلچسپی ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ خونی رشتےدار بھی آپس میں ایک دوسرے کے لیے پرائے سے لگتے ہیں بلکہ حد تو یہ ہے کہ اِس سہولیات کے عہد میں بھی اَپنوں سے تعلق و رِشتہ مضبوط تر کرنے کے بجائے ہم کسی نہ کسی بہانے اُن سے کنارہ کشی کے راستے تلاش کرتے ہیں، حالاں کہ ہمارے بڑوں اور بزرگوں نے محض اَپنوں سے ہی رشتہ قائم نہیں رکھا بلکہ پوری انسانی برادری سے تعلق و رِشتہ جوڑے رکھا اَور غیروں کے ساتھ بھی اُسی طرح نباہ کیا جیسے کہ اپنے خونی رشتےداروں سے نباہ کیا جاتا ہے۔
اِس میں دو رائے نہیں کہ آج خاندانی و معاشرتی اجتماعیت کا تصور تقریباً ختم ہوگیا ہے، اور آپسی کنبہ پروری کا تو کہیں نام و نشان تک نہیں ہے،کیوں کہ ہم سب اِنفرادی زندگی بسر کرنے کے شوقین اور عادی ہوچکے ہیں اور اَلگاؤ پسندی کے جال میں اِس طرح پھنس گئے ہیں کہ اَپنے بوڑھوں کو اُولڈاِیج ہوم بھیجنے میں بھی ہم کچھ شرم محسوس نہیں کرتے، بلکہ یہ ہمارا فیشن بن گیا ہے۔
اِس کے ساتھ ایک اَور بُری بیماری ہمارے خاندان و معاشرے میں یہ سرایت کرچکی ہے کہ ہم کمزوروں اور ضعیفوں کو کسی خاطر میں نہیں لاتے ہیں، بلکہ اُنھیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، مثلاً: اَگر خاندان میں کئی اَفراد ہیں/برادران ہیں، اور اُن میں سے بعض کماتے ہیں اَوربعض نہیں/بعض زیادہ کماتے ہیں اَور بعض کم، تو جو اَپنی کسی کمزوری کے سبب نہیں کما پاتے/کم کماتے ہیں اَیسے اَفراد کو گھر والے اَکثر نکمّےپن کا طعنہ دیتے رہتے ہیں اَور اِس بنا پر اُن کا بہت کم خیال رکھتے ہیں۔ یوں ہی اگر گاؤں-محلے میں کچھ اَفراد کمزور ہوتے ہیں/ تنگدست ہوتے ہیں، تو گاؤں-محلےکے خوشحال اَفراد اَکثر مواقع پر اُنھیں شرمندہ کرتے ہیں اور اُن کا مذاق اُڑاتے ہیں/پھر کمزور سمجھ کر اُنھیں دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔
پھر یہ کہ اگر اَیسے اَفراد گھر/معاشرے میں مشورہ کے طور پر کچھ کہتے ہیں تو باوجود کہ اُن کی باتیں مناسب و مفید ہوتی ہیں پھر بھی اُنھیں کوئی اہمیت نہیں دی جاتی ہے، اور اِس طرح ہرسطح پر جانتے بوجھتے ہوئے اَیسے کمزور و لاچار اَفراد سے لاپرواہی برتی جاتی ہے، یہ ایک غیر دانشمندانہ عمل ہے اور اِس سے بہر حال پرہیز کرنے کی سخت ضرورت ہے، ورنہ ہم اللہ و رسول کی رضا و نصرت اور رِزق جیسی نعمتوں سے محروم رہیں گے۔ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں:
1۔ ابْغُوْنِي الضُّعَفَاءَ، فَإِنَّمَا تُرْزَقُوْنَ وَتُنْصَرُوْنَ بِضُعَفَائِكُمْ۔(ابوداؤد، باب فی الانتصار برذل الخیل والضعفۃ، حدیث:2594)
ترجمہ: تم میری رضا، کمزوروں کے اَندر تلاش کرو کیوں کہ تمھیں اُنھیں کےسبب رِزق ملتا ہے او ر تمہاری مدد بھی کی جاتی ہے۔
2۔ ایک بار حضرت سعد نے کمزوروں پر خود کو ترجیح دی اور اُن پر فخر و مباہات کا اِظہار کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
هَلْ تُنْصَرُوْنَ وَتُرْزَقُوْنَ إِلَّا بِضُعَفَائِكُمْ۔(صحیح بخاری،باب من استعان بالضعفاءوالصالحین فی الحرب، حدیث:2896)
ترجمہ: اے سعد! سنو، کمزوروں کے طفیل ہی تم کو رِزق ملتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔
لہٰذا ہمیں اپنے خاندان/معاشرہ میں موجود کمزوروں اور بوڑھوں کا اِحسان مند اور شکر گزار ہونا چاہیے کہ اُن کے صدقے اور طفیل ہمیں عزت و شہرت، دولت و ثروت اور خوشحالی ملتی ہے، اور اِس کے ساتھ ہی ہمیں اپنی دولت و ثروت اور شہرت و رفعت پر اِترانے کے بجائے شکرانے کے طور پر اَللہ سبحانہ کی حمد و ثنا بھی کرتے رہنا چاہیے تاکہ ہمارے پاس موجود نعمتوں میں خیر و برکت ہو۔
اِرشاد ربانی ہے: لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ۔(ابراہیم:7)
ترجمہ: اگر تم شکر کرو گے تو میں اور زِیادہ دوں گا اور اَگر ناشکری کرو گے تو جان لو کہ بے شک میرا عذاب سخت ہے۔
اور تسبیح و تہلیل کے علاوہ شکر اَدا کرنے کا ایک بہترین طریقہ یہ بھی ہے کہ مال و زَر کی شکل میں جو بھی نعمتیں اللہ سبحانہ نے ہمیں عطا کی ہیں اُن میں سے اُس کے ضعیف و ناتواں اور محتاج بندوں پر خرچ کیا جائے اور اُن کی حاجتیں پوری کی جائیں، ورنہ ہم پر عذاب کا آنا طے ہے۔
اِس کے دو فائدے ہوں گے: ایک یہ کہ ہمارا یہ عمل اللہ سبحانہ کے کنبے (بندے) کو نفع پہنچانا ہوگا اور اُس کے بدلے اللہ سبحانہ کی بارگاہ میں ہمیں مقبولیت حاصل ہوگی، اور دوسرا یہ کہ ہمارے بڑے بوڑھے/خاندان و معاشرہ کے کمزور اَفراد ہم سے جڑے رہیں گے، نیز اِس کے ساتھ ہی اِنسانی برادری کی عظیم خدمت بھی ہوگی کہ ہمیں اِس کا حکم بھی دیا گیا ہے اور اِس پر اِنعام کا وعدہ بھی ہے۔