خدارا نا خوش اندیشی سے بچئے (ملک میں ویکسن نہ آئی اور فتوی آگیا )
کورونا وائرس کی ویکسین ابھی آئی نہیں اور کئی مسلم تنظیموں اور جماعتوں نے اس کے خلاف بیانات دینا شروع کردیا بعض اداروں نے اس کے خلاف حرمت کے فتاوے بھی صادر کردئے۔ ان حضرات کی “دینی حمیت” ہر شک شبہ سے بالاتر ہوسکتی ہے، لیکن ان کے بیانات کو ملاحظہ کریں تو معلومات کا شدید فقدان نظر آتا ہے اور عصری تقاضوں کی کوئی رعایت بھی نہیں ملتی ہے۔گودی میڈیا ایسے بیانوں کے انتظار میں رہتا ہے چنانچہ گزشتہ کئی دنوں سے قومی میڈیا مسلمانوں کو جہالت، کم مائگی، پسماندگی قومی دھارے سے علاحدگی اور ملکی مسائل سے بیگانگی جیسے اوصاف سے متصف کرنے میں لگا ہے۔ اور اس مزعومہ خطرے کے اظہار بلکہ پروپگنڈے میں مشغول ہے کہ مسلمان پولیو کی طرح ہی اس عالمی وباء کے خلاف قومی لڑائی میں ملک کو کامیاب نہیں ہونے دیگا۔ خدا را ایسی چیزوں سے پرہیز کیجئے جو ملت کی شبیہ بگاڑے اور بد خواہوں کو مواقع فراہم کرے۔ خدا را سونچئے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بد ترین گستاخ کو صرف اس لئے چھوڑ دینے کا حکم دیا کیونکہ اس سے مسلمانوں کی بدنامی ہوسکتی تھی اور اسلام کی شبیہ خراب ہوسکتی تھی۔
کرونا ویکسین کے بارے میں ظن و قیاس کے بجائے ہمیں سب سے پہلے موضوع سے متعلق معلومات حاصل کرنا چاہیے۔ مثلا مذہبی جہات کی طرف سے بار کہا جا رہا ہے کہ یہ دوا خنزیر سے بنائی گئی ہے اور “ ولاتداووا بالحرام “ کے مطابق اس میں شفا نہیں ہوسکتی ہے جب کی یہ خلاف واقعہ ہے، اس نجس جانور کے اجزاء سے شفا مطلوب ہی نہیں ہے نہ کسی نے ایسا کہا ہے، بلکہ ایک حیاتیاتی مادہ ہوتا ہےجسے جیلیٹن (Gelatine) کہتے ہیں ( اور جس کے لئے مسلمانوں کے ذریعے استعمال ہونے کسی زبان میں کوئی لفظ نہیں ہے) وہ ویکسین کو دیر پا رکھتا ہے اور اسے ایک عرصے تک فاسد ہونے سے بچاتا ہے۔ یہ مادہ اس ویکسین میں ایک اضافی مادے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ یہ صرف خنزیر سے ہی نہیں حاصل ہوتا بلکہ حلال جانوروں اور نباتات سے بھی لیاجاتا ہے۔ جیسا کی کئی ویکسین بنانے والوں نے کیا ہے۔البتہ خنزیر سے حاصل شدہ یہ مادہ - ان کے مطابق -زیادہ اثر دار ہوتا ہے۔ لہذا کئی ویکسین کمپنیوں نے اس کا استعمال بھی کیا ہوگا۔ اگر یہ مادہ خنزیر سے لیا بھی جائے تو بھی متعدد کیمیائی تحلیلات سے گزرتا ہے جسکے بعد یہ مادہ اپنی اصل و حقیقت پر باقی ہی نہیں رہتا، کئی اہل علم کے نزدیک اس صورت میں اسکا حکم بھی بدل جاتا ہے ( لانها قد خرجت من اصلها واستهلكت وانقلبت عينها الى الماده الاخري لا تعرف بعينها ولا تسمى باسمها)۔
بعض کے نزدیک اگر یہ محظور بھی ہے تو قاعدہ شریعت کے مطابق ضرورتا مباح ہے بلکہ یہ مرض چونکہ متعدی ہے اور عالمی وبا ہے، لہذا عزیمت پر عمل کی اجازت نہیں ہوگی اور ولی امر ( حاکم) اسے ہر ایک کے لئے لازمی بھی قرار دے سکتا ہے کیونکہ اس سے دوسروں کی سلامتی وبقا وابستہ ہے، اور سب کو یا بیشتر کر لگائے بغیر اس موذی وائرس سے دنیا کو بچانا ممکن نہیں ہے۔
اس ويكسين كے استعمال کو لے کر دنیا کے سب سے موقر دار الافتاء “ دار الافتاء المصریہ” سمیت درجنوں دور الافتاء جواز کا فتوی دے چکے ہیں۔ اس صورت میں اب یہ ایک مختلف فیہ مسئلہ ہوگیا ہے جبکہ ویکسین کے خلاف بیانات سے بدنامی اور فضیحت یقینی ہے۔ لہذا آپ کا کوئی بھی موقف ہو اس کی حرمت کا یقین ہو یا اس کا ظن غالب ہو یا آپ احتیاطا اس اجتناب کرنا چاہتے ہوں جو بھی ہو لیکن خدا کے لئے اس کے خلاف بیان بازی سے باز رہیں۔ ملت کو بدنامی سے بچانا اور مفسدین کے مقاصد کو ناکام کرنا سب سے بڑا فريضہ ہے۔ دینی حمیت کے اظہار اور میڈیا میں آنے کے ان شاء اللہ دوسرے بہت سے مواقع حاصل ہونگے۔