نوجوان طلبہ  کی تربیت وقت کی اہم ضرورت

نوجوان قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ انھیں کے ذریعے قوم کےعروج و ارتقاکی تاریخ لکھی جاتی ہے، اچھے معاشرے اور خاندان کی تشکیل میں نوجوان  اہم کردار ادا کرتے ہیں،اور جب نوجوان تحصیلِ علم کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں تو ان کی قدر و منزلت اور بڑھ جاتی ہے۔ ان کے ذریعے بڑے بڑے کام ہوتے ہیں۔لوگوں کی امیدیں ان سے وابستہ ہو جاتی ہیں۔یہ مثل چراغ ہوتے ہیں کیوں کہ یہی قوم کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتے ہیں۔مشکل حالات میں لوگوں کی مسیحائی کرتے ہیں۔ رب کی راہ سے بھٹکے ہووں کے لیے خضر راہ ثابت ہوتے ہیں۔اگر یہی راہ سے بھٹک جائیں،اور زندگی کے سفر میں غلط راستے پر چل پڑیں تو یہ صرف اپنی ذات ہی کے لیے نہیں بلکہ پورے خاندان اور معاشرے کے لیے تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے۔

اس لیے بچوں کی پیدائش سے لے کر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے تک ان کی تربیت کی ذمے داری والدین کے کندھوں پر  رہتی ہے،یہ ذمہ داری  بڑی اہم اور توجہ طلب ہوتی ہے۔ پڑھنے کی عمر میں صرف اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلہ کرا دینا ہی بچوں کی تعلیم و تربیت کا واحد حل نہیں ہے،بلکہ اسکول اور مدرسوں میں داخل کرنے سے پہلے ان کی اخلاقی تربیت کرنا بہت ضروری ہے۔بچپن ہی سے اچھائی اوربرائی کی تمیز سکھائی جائے، بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر شفقت کی تعلیم دی جائے۔حدیث پاک میں آیا ہے کہ ’’بچے جب سات برس کے ہو جائیں تو نماز کا حکم دو اور جب  دس برس کے ہو جائیں تو ان کو (ہلکی )مار مارکرنماز پڑھاو،اور  ان کا بستر الگ کر دو‘‘(سنن ابو داؤد، حدیث 495)

سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس فرمان پر گھر کے ہر ذمے دار کو غور کرنا چاہیے کہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نما زکے ساتھ بستر الگ کرنے کا حکم کیوں دیا، کیوں کہ یہی ایسی نازک عمر ہوتی ہے جس میں بچے بڑے ہونے اور اچھی بری عادتیں اپنانے لگتے ہیں، اگر اسی وقت ان کی نگہداشت کی گئی، ان کو اسلامی اخلاق و تعلیمات سے روشناس کرایا گیا، اور اسلامی تاریخی واقعات سنائے گئے اور ان کے اندر بلند ہمتی، شجاعت و بہادری اور قوم کا درد پیدا کیا گیا تو یہ بچے دوسروں کے بہترین مثال بنیں گے اور اپنی قوم کے بہتر قائد بن کر سامنے آئیں گے اور اگر یہی بچے غلط روی کا شکار ہوگئے اور بری سنگت نے انھیں بگاڑ دیا، عیاشی اور مکاری کے عادی ہوگئے توان کے ذریعے قوم کا مستقبل تاریک ہو جاتا ہے۔ معاشرے میں فحاشی، بےحیائی، عریانیت اور بد کرداری عام ہو جاتی ہے۔ پھر ایسے فسادات رونما ہوتے ہیں جن کا سد باب بہت مشکل ہوتا ہے، ایسی ہی بےحیائی اور فحاشی کا ایک واقعہ جنوبی دہلی میں اسکولی طلبہ کے درمیان رونما ہوا۔یہ خبر کچھ پرانی ہے لیکن اس میں ذمہ دار افراد کے لیے بہت سے سوال ہیں جو ان کی تربیت پر اٹھتے ہیں ۔

بوائز لاکر روم کی حقیقت:

انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق جنوبی دہلی کے چند اسکولوں کے اسٹوڈنٹس کے ذریعے ایک انسٹاگرام گروپ بنام ’’بوائز لاکر روم ‘‘بنایا گیا جس میں گیارہویں، بارہویں جماعت کے 16 سے 18 سال کے 22 سے 27 لڑکے لڑکیاں شامل تھے۔ اس گروپ میں شامل لڑکے اپنے سے کم عمر لڑکیوں کے متعلق فحش گفتگو اور عریاں تصاویر شیئر کرتے تھے۔مخرب اخلاق انداز گفتگو اپناتے، اور بےحیائی کا بازار گرم کرتے تھے۔ ان میں سے ایک شریف لڑکی نے ان کی اس فحش گفتگو کی اسکرین شاٹ دوسرے لڑکوں کو بھیجی تاکہ ان کے خلاف کاروائی کی جا سکے۔جب ان طلبہ کو اس کی خبر لگی تو شریر طلبہ نے ایک دوسرا گروپ بنا لیا تاکہ جن لڑکیوں نے ان کا پردہ فاش کیا ہے ان کو مزہ چکھائیں اور ان سے بدلہ لیں۔ اس لیے ان کی عریاں تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل کرنے اور زنا بالجبر کی دھمکی بھی دی۔بالآخر ان کے خلاف دہلی پولیس میں ایف آئی آر درج کرائی گئی۔

اب آپ اندازہ لگائیں یہ مہنگے مہنگے اور مشہور اسکولوں میں پڑھنے والے بچے کس سمت جا رہے ہیں؟ جدید ٹیکنالوجی کا کیسا استعمال کر رہے ہیں؟ سوشل میڈیا کا کیسا غلط استعمال کر رہے ہیں؟ اس سے دوسرے نوعمر لڑکے لڑکیوں کے جذبات سے کھلواڑ کر رہے ہیں۔ دوسروں کے لیے فحاشی اور بےحیائی کے نت نئے طریقے ایجاد کر رہے ہیں۔تعلیم کے نام پر گھر خاندان والوں کو دھوکا دے رہے ہیں۔ تعلیم کے نام پر ہوس پرست درندے بن رہے ہیں۔اخلاق و کردار کا گلا گھونٹ رہے ہیں۔ والدین کی عزت و آبرو کو سربازار نیلام کر رہے ہیں۔ اگر بچپن ہی سے ان کی نگہداشت کی جاتی۔ان کی تربیت  اسلامی خطوط پر کی جاتی، تو یہ دن نہیں دیکھنے پڑتے۔

خاص طور پر جب بچے ہاسٹل میں رہ کر تعلیم حاصل کر رہے ہوں تو والدین کی ذمے داریاں اور بڑھ جاتی ہیں، کیوں کہ ہاسٹل میں رہنے والے طلبہ مختلف جگہوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہر عمر کے ہوتے ہیں۔ مختلف ماحول سے ہو کر آتے ہیں تو ایسے حالات میں  ان کی عادتوں کے بگڑنے کے خطرات اورزیادہ رہتے ہیں۔اس لیے ابتداہی  سےان کی صحیح تربیت کریں اور ان کو اچھے اخلاق وکردار سکھائیں اور تعلیم کے حصول میں ان کی بہتر رہنمائی کریں اوران کے مقاصد کو ذہن نشین کرا ئیں،ان کوتلاش منزل کی راہ میں آنے والے نشیب و فراز سے آگاہ کر کے ان کو ان کی منزل دکھا دیں توکامیابی کی  راہیں ہموار ہو جائیں گی۔یہ تو ایک مثال ہے،ایسی بہت ساری مثالیں موجود ہیں ،طالب علمی والی زندگی کو تباہ کردیتی ہیں اس کے نتیجے میں زندگی کے دوسرے مرحلے دشوار گزار ہو جاتے ہیں۔

مذکورہ بےراہ روی کی ایک بڑی وجہ بری صحبت کا اثر بھی ہے۔حدیث پاک میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں ’’آدمی اپنے دوست کے طریقے پر ہوتا ہے،اس لیے تم میں سے ہر کوئی یہ دیکھ لے کہ کس سے دوستی کر رہا ہے۔‘‘(ترمذی شریف،حدیث2378)

        بری صحبت اور  گندی ذہنیت رکھنے والوں کی دوستی زندگی پرہمیشہ غلظ اثر ڈالتی ہے،اس لیے دوستی کرنے میں بہت احتیاط کرنا چاہیے۔ ویسے بھی اسٹوڈنٹ لائف میں بےجا دوستی بہت نقصان دہ ہے۔اوپر جس واقعے کا ذکر کیا گیا اس کی سب سے بڑی وجہ بری سنگت ہے۔

مذہب اسلام نے ہر موڑ پر انسانوں کی رہنمائی کی ہے، چاہے زندگی کے تینوں ادوار(بچپن، جوانی، بڑھاپا) ہوں یا دیگر شعبہ ہائے حیات، کہیں بھی انھیں تشنہ نہیں چھوڑا ہے۔ حدیث پاک میں دس برس کی عمر میں بچوں کا بستر الگ کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے اس میں بڑی حکمتیں ہیں، بظاہر یہ ایک حکم ہے کہ ان کا بستر الگ کر دو،اس کے ضمن میں بےشمار حکمتیں اور احکامات پوشیدہ ہیں کہ اب ان کی نگہداشت میں اضافہ کردیں، ان کی صحیح رہنمائی کریں۔ان سے دوستانہ تعلق رکھیں ،ان کو اپنی بات کہنے کا موقع دیں، تاکہ وہ والدین سے اپنے ذاتی معاملات بیان کرکے بہتر رہنمائی حاصل کر سکیں، والدین اور گھر کے ذمےدار حضرات بھی ان کے جذبات کا خیال رکھیں۔ اپنے بچوں کو حیا کی تعلیم دیں۔ان کے دلوں میں اللہ کا خوف پیدا کریں۔ان کو بتائیں کہ اللہ عزوجل ہر بندہ مومن کے اعمال کو دیکھتا ہے، چاہے کہیں چھپ کر کیے جائیں یا اعلانیہ طور پر، اس لیے ہمیں ہر جگہ اللہ کا خوف رکھنا چاہیے۔

معاشرے میں جب اخلاقی خرابیاں، فحاشی، بے حیائی اور طرح طرح کی برائیاں پھیل کر نوجوان پر اثر انداز ہوتی ہیں تو اس میں بچوں کے ساتھ ان کے والدین بھی قصور وار ہوتے ہیں، وہ بچوں کی نقل و حرکت پر نظر نہیں رکھتے،اپنی ذمہ داریوں سے بھاگتے ہیں ، وہ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ بچہ کن لوگوں کی سنگت میں بیٹھتا ہے،سنگت کا بھی بہت اثر پڑتا ہے، بسا اوقات چھوٹے بچےاپنی عمر سےبڑے لوگوں کی محفلوں میں بیٹھتے ہیں اور انجانے میں کی گئی کوئی غلط بات ان پر اثر انداز ہوجاتی ہے جس سے اچھا بھلا انسان اچھائی کی راہ سے بھٹک جاتا ہے، جس کا خمیازہ تاعمر بھگتنا پڑتا ہے، اس لیے بچوں کی اچھی پرورش کے ساتھ ساتھ ان کی اعلیٰ تربیت بھی ضروری ہے۔

اگر بچے  غلطی کر جائیں تو ان کی غلطی پر تنہائی میں ان کی اصلاح کی جائے، ان کو اخلاقی معاشرتی نقصانات سے آگاہ کیا جائے، تاکہ وہ سنبھل جائیں، اگر لوگوں کے سامنے ان کو ڈانٹا گیا، ان کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچائی گئی تو اور زیادہ بگاڑ پیدا ہونےکا امکان ہے۔ بچے من کے سچےاورکچے ہوتے ہیں انھیں بڑوں کی رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے ان کی بہتر رہنمائی کے ساتھ ساتھ ان کے بہتر مستقبل کے لیے دعائیں بھی کرنی چاہیے۔

 

از: محمد عارف رضا نعمانی مصباحی
ایڈیٹر:  پیام برکات، علی گڑھ
7860561136

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter