مجدد اَلْف ثانی اور مجدد عصر

(بموقع عرسِ اعلیٰ حضرت)

    جس طرح اعلیٰ حضرت کے سالِ ولادت ۱۲۷۲ھ کی تاریخی مناسبت رسولانِ کرام کے اَدوار کے ساتھ ملتی ہے۔ اسی طرح زمرۂ مجددین میں سے حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد فاروقی سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ بھی نہ صرف مقام و منصب میں حیرت انگیز مشابہت اور مماثلت نظر آتی ہے بلکہ اپنے نام اور کام، نسبت اور القاب، ولادت و وفات حتیٰ کہ خدمات و کارنامے اور ان کے اثرات و نتائج تک میں ایک طرح کا تعلق اور رشتہ ایک وحدت و یگانگت محسوس ہوتی ہے۔

    بقول ڈاکٹر محمد مسعود احمد مظہری: اعلیٰ حضرت کے پیغام اور تعلیمات میں دسویں صدی ہجری کی عظیم شخصیت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی کی آواز بازگشت سنی جا سکتی ہے۔

  • دونوں نے عقیدۂ توحید اور عشق و اتباع مصطفی پر زور دیا-
  • دونوں نے سلف صالحین کے عقائد و افکار کی ترویج کی-
  • دونوں نے شریعت و طریقت میں فرق کرنے والوں کا محاسبہ کیا-
  • دونوں نے اہل بدعت اور باطل فرقوں کے خلاف قلمی اور عملی جہاد کیا-
  • دونوں نے گستاخانِ رسول، مدعیانِ نبوت، صحابہ و اہلبیت کے دشمنوں کا تعاقب کیا-
  • دونوں نے دو قومی نظریے کا احیاء کیا (شیخ سرہندی کی کوششوں کے نتیجہ میں اسلام دشمن حکومت کا خاتمہ ہوا اور اسلام دوست حکمراں اورنگ زیب کی صورت میں سامنے آیا جبکہ مجدد بریلی کی کوششوں کا ثمرہ مسلمانوں کو ایک آزاد مملکت کی صورت میں نصیب ہوا۔)
  • دونوں نے عوام و خواص کی اصلاح کا بیڑہ اٹھایا-
  • دونوں کے خلفاء نے ان کے مشن کو آگے بڑھایا اور برصغیر پاک و ہند پر انقلابی اثر ڈالا-
  • دونوں نے ایسی تصانیف یادگار چھوڑیں جو پچھلوں کی سمجھ سے بھی بالاتر ہیں۔

 (ص۔۲۸۳، انتخاب حدائق بخشش، از ڈاکٹر محمد مسعود احمد)

    دونوں شخصیات میں علمی و فکری یک جہتی، دینی و ملی کارناموں میں یک رنگی، اپنی ہمہ گیر خدمات و اثرات میں غیر معمولی یکسانیت کے علاوہ تاریخی اور واقعاتی حوالہ سے ذاتی اور شخصی نوعیت کی مماثلت اور وحدت بھی نظر آتی ہے، مثلاً :دونوں کی ولادت و وفات کے زمانے، کہا جاتا ہے کہ جس دن امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی اسی دن امام شافعی کی ولادت ہوئی ہے۔ (ص۔۵۳۴، سیرالاولیاء) جس سے قدرت کا یہ منشاء معلوم ہوتا ہے کہ ایک مجتہد کا دور ختم ہوتے ہی دوسرا مجتہد دنیا میں آ رہا ہے؛ یا یہ کہ ایک مجتہد کے کام کو آگے بڑھانے کے لئے دوسرا مجتہد جلوہ گر ہو رہا ہے۔

    مجدد سرہندی کی ولادت ۱۴؍ شوال کو ہوئی۔ اعلیٰ حضرت کی ولادت ۱۰؍ شوال کو دونوں کے مہینے ایک ہیں اور ایام بھی قریب قریب ہیں۔

    سال اور سنہ دیکھیں تو مجدد الف ثانی ۹۷۱ھ میں پیدا ہوئے تو اعلیٰ حضرت ۱۲۷۲ھ میں گویا اپنی اپنی صدیوں میں ایک ہی عرصہ اور وقت ہے اسی طرح وقت وفات میں بھی یہی یکسانیت موجود ہے۔

    مجدد سرہندی نے ۲۸؍ صفر کو وصال فرمایا تو اعلیٰ حضرت کا وصال ۲۵؍ صفر کو؛ یہاں بھی وہی چیز ہے۔ دونوں کا مہینہ ایک اور تاریخیں بھی قریباً ایک سی البتہ سنہ و سال میں معمولی فرق ہے کہ مجدد صاحب ۱۰۳۴ھ میں فوت ہوئے تو اعلیٰ حضرت ۱۳۴۰ھ میں۔

    جس طرح زمینی اور مکانی اعتبار سے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ تمام علاقے تھانیسر، گووندوال، نگر کوٹ اور امرتسر ایک دائرہ کی شکل بنتے ہیں جہاں سے ہندوؤں کی احیائی تحریکیں اٹھی تھیں اور جس کے نتیجہ میں دین الٰہی کا فتنہ ظاہر ہوا۔ قدرت نے ٹھیک انہی مقامات کے درمیان سرہند میں آپ کو پیدا فرمایا۔ اسی طرح اعلٰی حضرت کے دور میں وہ تمام مقامات دیوبند، قادیان، سہارنپور، علی گڑھ، ندوہ (لکھنؤ) اور دہلی جہاں سے وہابیت، دیوبندیت، قادیانیت، نیچریت، غیر مقلدیت اور صلح کلیت کے فتنے اٹھے تھے ان تمام علاقوں کے بیچ ایک مرکزی مقام شہر بریلی میں آپ کو پیدا فرمایا تاکہ وہ ہر محاذ پر بیک وقت نبرد آزما ہو سکیں۔

  1. شیخ سرہندی مجدد الف ثانی کا نام نامی شیخ احمد ہے تو مجدد اعظم بریلوی کا اسم گرامی احمد رضا۔
  2. مجدد سرہندی چونکہ بنیادی طور پر عقیدۂ توحید، اسلام کی دوامیت اور قرآن کی صداقتوں کو واشگاف کرنے کے لئے بھیجے گئے تھے؛ اس لئے ان کو جو شیخ طریقت ملا ان کے نام میں نامِ اللہ شامل تھا حضرت خواجہ محمد باقی باللہ…اعلیٰ حضرت چونکہ عقیدۂ رسالت، تحفظِ ختم نبوت اور صاحب ِ قرآن کے مقام و مرتبہ کو اُجاگر کرنے کے لئے بھیجے گئے تھے؛ اس لئے آپ کو جو شیخ ملا ان کے نام میں رسول کا لفظ شامل ہے، بلفظ دیگر توحید کا تحفظ کرنے والے مجدد کو "باقی باللہ" ملے اور رسالت کا تحفظ کرنے والے مجدد کو "آل رسول" ملے۔
  3. یہ کیسا اتفاق ہے کہ عقیدۂ توحید کا تحفظ کرنے والے مجدد نے اپنا لقب "عبدالرحمٰن" اختیار کیا تو عقیدۂ رسالت کا تحفظ کرنے والے مجدد نے اپنا لقب "عبدالمصطفیٰ" پسند کیا۔
  4. مجدد صاحب نے اپنے مکتوبات میں حقیقتِ کعبہ اور تجلیِ کعبہ کے معارف و حقائق بیان کئے؛ جس پر ان سے پہلے شاید کسی نے قلم نہ اٹھایا تھا؛ تو مجدد بریلی افضلیت روضۂ رسول اور شہر پاک مدینہ کا پرچار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ؎

بخدا خدا کا یہی ہے در، نہیں اور کوئی مفر مقر

جو وہاں سے ہو یہیں آ کے ہو، جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں

طیبہ نہ سہی افضل مکہ ہی بڑا زاہد

ہم عشق کے بندے ہیں کیوں بات بڑھائی ہے

حاجیو آؤ شہنشاہ کا روضہ دیکھو

کعبہ تو دیکھ چکے کعبہ کا کعبہ دیکھو

  1. مجدد صاحب کے لئے ان کے شیخ خواجہ محمد باقی باللہ نے فرمایا تھا: میاں شیخ احمد آفتاب است وما ہمچو ستارگان دروے گم اند…تو سید آلِ رسول مارہروی نے احمد رضا کیلئے یہاں تک فرمایا کہ: اگر قیامت میں خدا مجھ سے پوچھے آل رسول! دنیا سے میرے لئے کیا لایا ہے تو میں احمد رضا کو پیش کر دوں گا-
  2. مجدد صاحب کے خلف صادق خواجہ محمد معصوم مجددی سرہندی نے کم از کم ۹؍ لاکھ افراد کو بیعت توبہ کرائی (ص۔۳۴۴، مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر) تو مجدد بریلی کے خلف اصغر مفتی اعظم ہند مصطفٰی رضا خاں بریلوی نے شدھی تحریک کے دوران مرتد ہو جانے والے ۹؍ لاکھ انسانوں کو دوبارہ کلمہ کی دولت عطا فرمائی۔" (دبدبۂ سکندری)

[ماخوذ: امام احمد رضا خدمات و اثرات، مطبوعہ نوری مشن مالیگاؤں/رضا ریسرچ اینڈ پبلشنگ بورڈ مانچسٹر،ص۶ تا ۸]

شذرہ: بزمِ مطالعہ میں ذکرِ اعلیٰ حضرت کی روشنی بکھیرنے کے لیے پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد نقشبندی کی کتاب "اُجالا" ملاحظہ فرمائیں-

ترسیلِ فکر:

نوری مشن

اعلٰی حضرت ریسرچ سینٹر مالیگاؤں

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter