دوسروں کے ساتھ بھلائی دوسروں کی نہیں، اپنی ضرورت ہے
میں اپنی گاڑی کسی کو نہیں دیتا، لیکن آپ کی بات ہے تو منع نہیں کروں گا، میں کسی کو قرض نہیں دیتا، لیکن آپ کہہ رہے ہیں تو دے دیتا ہوں، اس قسم کے جملے ہم عام طور پر سنتے رہتے ہیں، جو اس بات کا ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ ہمارے نزدیک دوسروں کے ساتھ حسن سلوک اپنی نہیں، دوسروں کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم کسی کے کام آجاتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ ہم نے دوسروں پر بہت بڑا احسان کردیا، حالاں کہ معاملہ اس کے بر عکس ہے، کیوں کہ ہم دوسروں کے ساتھ جو بھی بھلائی کرتے ہیں اس کا اجر وثواب ہمارے ہی اعمال نامے میں درج ہوتا ہے، لہذا اگر ہمیں کوئی خدمت کا موقع دے بلفظ دیگر کوئی ہم سے کام لے لے تو ہمیں سب سے پہلے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہمارے ذریعے اپنے بندے کی ضرورت پوری کرادی، اور ہمیں نیکی کمانے کا موقع دیا، پھر اس بندے کا احسان ماننا چاہیے کہ اس نے ہمارے لیے نیکی کی راہ ہموار کی، اور ثواب کمانے کا آسان ذریعہ بن گیا۔
یاد رہے کہ دوسروں کے ساتھ بھلائی ہماری اپنی ضرورت ہے، ہم سے دوسروں کا بھلا ہو تو ہمیں بے حساب اجر وثواب مل سکتا ہے، متعدد روایات کے مطابق کوئی ہمارے گھر دو لقمے کھالے تو ہمیں احب الاعمال پر عمل کرنے کا ثواب ملے گا۔
کوئی ہمارے ہاتھ سے پانی پی کر اپنا حلق تر کرلے تو ہماری گردن نار دوزخ سے آزاد ہوجائے گی۔
ہم کسی کے راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹادیں تو ہمارے ایمان کی ایک شاخ کا تقاضا پورا ہوجائے گا۔
ہماری خندہ روئی اور شیریں گفتگو سے کسی کا دل خوش ہوجائے تو ہمیں صدقہ یا ایمان کے بعد سب سے بہترین عمل کا ثواب ملے گا۔
ہم چند قدم چل کر کسی بیمار کی عیادت کرلیں تو ہمارا آنا جانا باغ جنت میں سیر کرنے کے مترادف ہوگا۔
مختصر یہ کہ ہم کسی بھی بندے کے ساتھ حسن سلوک کریں ثواب تو ہمیں کو ملنا ہے۔ حد تو یہ ہے اگر ہم جانوروں کے ساتھ ہمدردی کریں تب بھی ثواب ہمیں کو ملے گا، لہذا ہمیں اپنی اس سوچ کو بدلنا ہوگا کہ دوسروں کے ساتھ بھلائی دوسروں کی ضرورت ہے، دوسروں کے ساتھ بھلائی دوسروں کی نہیں، اپنی ضرورت ہے، کیوں کہ بھلا کسی کا ہو ثواب تو بالآخر ہمارے ہی اعمال نامے کی زینت بنے گا۔
اس کی واضح مثال یہ ہے کہ ایک کسان دانا زمین میں دباتا ہے، ہر روز اسے عمدہ پانی سے سیراب کرتا ہے، پودے کی شکل نمودار ہونے کے بعد اسے بڑی جتن سے پروان چڑھاتا ہے، تیار ہونے کے بعد اسے کاٹتا اور صاف کرتا ہے، پھر اسے گردن پر اٹھاتا ہے، بڑے اہتمام سے گھر لے جاکر محفوظ کردیتا ہے، بظاہر کسان کی ساری محنت ایک دانے کے لیے ہے، لیکن یہ دانا اسی کسان کی روزی ہے، لہذا اس دانے کے ساتھ حفاظت و نگہداشت کسان کی اپنی ضرورت ہے، کچھ یہی حال ہمارے ان اعمال کا بھی ہے جو ہم دوسروں کے لیے کرتے ہیں، اسی لیے حکم ہے کہ ہمیشہ دوسروں کے ساتھ بھلائی کی جائے، ارشاد باری ہے:
وَأَحۡسِن كَمَاۤ أَحۡسَنَ ٱللَّهُ إِلَیۡكَۖ. [القصص ٧٧]
دوسروں کے ساتھ بھلائی کرو، جیسے اللہ نے تمھارے ساتھ بھلائی کی۔ مزید فرمایا:
إِنۡ أَحۡسَنتُمۡ أَحۡسَنتُمۡ لِأَنفُسِكُمۡۖ وَإِنۡ أَسَأۡتُمۡ فَلَهَاۚ [الإسراء ٧].
اگر تم اچھے کام کرو تو اس کا فائدہ تمھیں کو ہوگا، اور اگر برے کام کرو اس کا نقصان بھی تمھیں کو اٹھانا ہوگا۔