مطلع حجاز پر آفتابِ رسالت ﷺ کی جلوہ گری
ربیع النور اپنی جملہ تابانیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوچکا ہے۔ اسی ماہِ مقدس کی ۱۲؍ تاریخ کو مطلعِ فاران پر وہ آفتاب ِ رسالت جلوہ فگن ہوا تھا؛ جس نے اس ظلمت کدۂ عالَم کو روشن و منوّر فرما دیا۔ جس نے اوہام و خرافات کی تاریکیوں کو ایمان و یقین کے نور سے بدل دیا، جس نے عالَمِ انسانی کو عدل و انصاف کا حقیقی شعور عطا فرمایا اور انسانوں کو انسانیت کے احترام کی تعلیم دی۔ اسی ماہِ مقدس کی بدولت انسان ان تمام اقدارِ حیات سے مشرف ہوا جنہیں اختیار کرکے وہ اس سرزمین پر نیابتِ الٰہی کا فریضہ انجام دے سکتا ہے۔ رحمتِ عالَم صلی اللہ علیہ وسلم نے غافل اور گم کردہ راہ انسانوں کو ان کی منزل کا پتا بتایا، انہیں لَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِی اٰدَمَ کے تاجِ عظمت سے نوازا اور انہیں احسنِ تقویم کی خلعتِ زیبا سے سرفراز فرمایا، انہیں اسفل السافلین کی پستیوں سے نکال کر خلافتِ ارضی کی رفعتوں پر پہنچایا، انہیں وحشت کے ماحول سے نکال کر عدل و انصاف کی زندگی عطا فرمائی۔
سیّدنا مسیح علیہ السّلام کے رفعِ آسمانی کے بعد سے سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری تک ۵۷۰؍ سال کا زمانہ، تاریک ترین زمانہ تھا۔ اس طویل عرصے میں انسان اپنی اخلاقی پستیوں کی بدترین سطح پر پہنچ چکا تھا۔ اس پورے عرصے میں دُنیا میں کوئی نبی یا رسول جلوہ گر نہ ہوا، جو لوگوں کی اخلاقی اور روحانی رہنمائی کرتا۔ دُنیا میں کوئی ایسی حکومت قائم نہ ہوئی جو عدل و انصاف کی علَم بردار ہوتی، اور نہ کوئی ایسا معاشرہ قائم ہوا جو انسانی قدروں کا آئینہ دار ہوتا۔ اس تاریک ترین دور میں ہر طرف ظلم و جور کی حکمرانی تھی۔ دُنیا کی متمدن قومیں مِٹ چکی تھیں۔ انسانوں کے خود ساختہ قوانین نے کم زوروں سے زندگی کے تمام حقوق سلب کرلیے تھے۔ یونان اور روم میں صرف طاقتور کو زندہ رہنے کا حق دیا جاتا تھا۔ برِ صغیر میں زندہ انسانوں کو ظلم کی چِتاؤں پر جلایا جاتا تھا، اور یورپ کے بہت سے علاقوں میں تڑپتی ہوئی لاشوں کو رقصِ بسمل کے نام سے پیش کیا جاتا تھا۔ مصر میں دریاے نیل کے کنارے نیل پرستی کے نام پر گلستانِ حیات کے نوشگفتہ پھولوں کو مَسل دیا جاتا تھا، اور حجاز میں زندہ بچیوں کو دَرگور کردیا جاتا تھا۔ پوری دُنیا مظالم سے بھری ہوئی تھی، مگر ان مظالم کے خلاف ایک بھی انسان کوئی مؤثر صداے احتجاج بلند کرتا ہوا نظر نہیں آرہا تھا۔ ان حالات میں کائنات کا اجتماعی ضمیر خلاقِ کائنات کی بارگاہ میں التجا کر رہا تھا کہ: اے رب قدوس! اس زمین پر ایک ایسی ہستی کو مبعوث فرما؛ جو اسے ظلم و ستم، جور و وحشت، شرک اور جہالت کی نجاستوں سے پاک فرماکر اسے معمورۂ امن و سکون بنا دے۔ خداے قدوس نے یہ التجا سُن لی، اور ۱۲؍ربیع الاوّل کو دوشنبہ کے دن صبحِ صادق کے وقت رسالت کے اس آفتابِ عالَم تاب کو جلوہ گر فرمایا، جو حقیقی طورپر کائنات کا نجات دہندہ اور امنِ عالَم کا ضامن ہے۔ خداے قدیر نے اس نورِ کامل کی تشریف آوری کا اعلان ان لفظوں میں فرمایا:
قَدْ جَآءَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیْن۔[المآئدۃ:آیت۱۵]
بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب۔
اِنَّآ اَرْسَلْنٰـکَ شَاھِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیرًا وَّ دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَسِرَاجًا مّنِیْرًا۔[الاحزاب:آیت۴۵۔۴۶]
بے شک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوش خبری دیتا اور ڈر سناتا اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا اور چمکا دینے والا آفتاب۔
وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ۔[الانبیاء:آیت۱۰۷]
اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے۔
پورا عالَمِ اسلام اللہ رب العزت کے انہیں فرامینِ مقدسہ کو دُہرانے کے لیے ماہِ ربیع الاوّل میں- جشنِ میلادُالنبی- منعقد کرتا ہے۔ مصر و شام، عراق و ایران، ہند و پاک، ترکی و قبرص، نائجیریا و لیبیا، سوڈان و یوگوسلاویہ؛ الغرض جہاں جہاں بھی مسلمان بستے ہیں، جشنِ عید میلادُالنبی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ میلادالنبی کی ان محافل میں قرآنِ عظیم کی آیات پڑھی جاتی ہیں، نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پیش کی جاتی ہے، سیرتِ رسول بیان کی جاتی ہے اور صلوٰۃ و سلام ہوتا ہے۔ صدیوں سے دُنیا کے بیش تر ملکوں میں سیرتِ رسول اور پیغامِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر خاص و عام تک پہنچانے کا یہ ایک منظم اور باضابطہ طریقہ ہے۔ آپ اگر برِصغیر ہند و پاک کے اُن علاقوں میں تشریف لے جائیں جہاں ہنوز علم کی روشنی نہیں پہنچی ہے تو وہاں بھی عید میلادُالنبی کی برکات کا مشاہدہ کرسکیں گے۔ مسلمانوں کے اندر شریعت سے وابستگی، عشقِ رسول اور دینِ اسلام سے فِدا کاری کی حدتک تعلق، سب کچھ عید میلاد النبی کی برکتوں کا ظہور ہے۔
جشن میلادُالنبی کے سلسلے میں حکومتِ سعودیہ عربیہ کا منفی کردار: جہاں ایک طرف پوری دُنیا میں جشن میلادُالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اہتمام کیا جاتا ہے وہیں دُنیا کی ایک محسوس اور واضح اقلیت کے نمائندے میلادُالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس تقریب کے خلاف متحدہ محاذ بناکر دُنیا کو ان محافل سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں، اور ان تقاریب پر -شرک اور بدعت- کا فتویٰ صادر کرکے مسلمانوں کے ذہن کو پراگندہ اور ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور جب بھی عیدمیلادُالنبی کا زمانہ آتا ہے تو مسلمانوں کے گھروں میں ایسے کتابچے پہنچائے جاتے ہیں جن میں غیر علمی اور غیر منطقی مواد موجود ہوتا ہے۔ مگر اس کو علم و دانش کا نام دے کر مسلمانوں کو فریب دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ چنانچہ گذشتہ چند سالوں میں مفتیِ وہابیت ابنِ باز کے فتاویٰ تقسیم کیے جاتے ہیں، اور اب اس سال ابوبکر جابر الجزائری کا کتابچہ گھر گھر تقسیم کیا جارہا ہے۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ حجازِ مقدس سے آنے والے حجاجِ کرام کو یہ کتابچہ سعودیہ عربیہ کی جانب سے تحفے میں دیا جاتا ہے اور گنبدِ خضریٰ کے انوار سے فیض یاب ہوکر آنے والے حجاج کو رسول دُشمنی کی یہ جیتی جاگتی دستاویز بطورِ تبرک پیش کی جاتی ہے۔ سُنّی دُنیا میں ان کتابچوں کا شدید ردِعمل ہوتا ہے اور محافلِ میلاد و جلسہ ہاے سیرت میں ان کی تردید کی جاتی ہے اور لوگوں کو اس کے فریب سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ نتیجتاً مسلمانوں کی جو توانائیاں کفر و شرک، الحاد و مغربیت کے خلاف صرف ہونی چاہئیں وہ تردیدِ وہابیت کی نذر ہوجاتی ہیں۔ سعودی حکومت نے پوری دُنیا کے اسلامی لٹریچر کے لیے اپنی نام نہاد حکومت کے دروازے بند کر رکھے ہیں، مگر وہابیت کے گمراہ کُن لٹریچر کو عام کرنے کے لیے حج پاک کے موقع پر زائرینِ حرم کی سادہ لوحی کو شکار کیا جاتاہے۔ وہ آبِ شفا زم زم کے ساتھ بدعقیدگی کا یہ زہر بھی ساتھ لاتے ہیں۔ یہ ہماری وسعتِ ظرفی کہ ہم اس طرح کے لٹریچر کے خلاف کوئی متحدہ آواز نہیں بلند کر رہے ہیں، اس لیے کہ سعودی عرب کے ایوانِ اقتدار سے جس اَمر کی مخالفت کی جائے گی مسلمانانِ عالَم اُسے ضرور کریں گے۔
کاش! سعودی عرب کے اندر بھی یہ اخلاقی جرأت ہوتی اور اہلِ سنت کے ۱۴؍ سو سالہ مذہبی لٹریچر کو اپنی حدودِ مملکت میں درآمد کی اجازت دیتا تو سعودی عوام کے سامنے تصویر کے دونوں رُخ ہوتے، اور حق و باطل کا فیصلہ کرنے میں آسانی ہوتی۔ آج برطانیہ کی نوجوان نسل مغربیت، الحاد، بے دینی، اِرتداد اور اسلامی اقدار سے انحراف کے راستے پر گام زَن ہے۔ کیا حکومتِ سعودیہ عربیہ کو کبھی توفیق ہوئی کہ وہ ان برائیوں کے خلاف لٹریچر تیار کرواکے تقسیم کرتی؟ کیا ان تمام مفاسد کے مقابلے میں اُسے صرف محافلِ میلاد ہی ایسا مفسدہ نظر آتی ہیں جس کے خلاف وہ پٹرو ڈالر کے تمام وسائل استعمال کر رہی ہے؟
حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ ماہِ ستمبر میں میلادُالنبی کے خلاف لٹریچر تقسیم کیا جارہا ہے، اور اسی ماہ میں سعودی حکومت کا جشنِ تاسیس انتہائی دُھوم دھام سے منایا جارہا ہے۔ میلادُالنبی- جشنِ تاسیسِ اسلام- ہے مگر اس کی مخالفت کرنے والے اُس حکومت کا جشنِ تاسیس مناتے ہیں، جس نے خلافتِ عثمانیہ کو پارہ پارہ کردیا اور حکومتِ ترکی کے خلاف بغاوت کرکے ایک ایسی حکومت کی داغ بیل ڈالی جس کے عنانِ اقتدار سنبھالتے ہی حجازِ مقدس میں مسلمانوں کا قتلِ عام کیا گیا، مزاراتِ مقدسہ کا انہدام عمل میں لایا گیا اور مآثرِ شرعیہ و شعائرِ اسلامیہ کی توہین کی گئی۔ جس کے حکم رانوں نے اپنی ہوسِ اقتدار پرستی میں ڈوب کر سر زمینِ حجاز کو اقوامِ مغرب کا باج گذار بنادیا۔ جنھوں نے اسلام کے تصورِ خلافت سے انحراف کرکے ملوکیت کو زندہ کیا اور اسلام و عالَمِ اسلام کی مقدس امانت کو اپنی جاگیر قرار دے دیا۔ ایسی حکومت اور اس کے مفتیانِ شرع کے نزدیک عیدمیلادُالنبی تو شرک و بدعت ہے مگر سعودی عرب کا جشنِ تاسیس عین شریعت ہے ع بریں عقل ودانش بباید گر یست ٭٭٭
[ماخوذ: مقالاتِ خطیب اعظم، مرتب غلام مصطفیٰ رضوی، مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی]
ترسیل : نوری مشن مالیگاؤں