امام احمد رضا اور عصری تعلیم
ازقلم: شیر مہا راشٹرتاج العلماء مفتی محمد علاؤالدین قادری رضوی
صدرشعبہ افتاء: محکمہ شر عیہ سنی دارالافتاء والقضاء ، میرا روڈ ممبئی
حصول تعلیم کی اہمیت و ضرورت اس آیت کر یمہ کی روشنی میں بخو بی محسوس کیا جا سکتا ہے ، ارشاد ربا نی ہے ۔ تر جمہ :تو ائے لو گو علم والوں سے پو چھو اگر تمہیں علم نہ ہو ۔ [انبیاء، پارہ ،۱۷،آیت ،۷]
اس آیت کر یمہ کا پس منظر تو یہ ہے کہ کفارو مشر کین نبی کر یم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو ہم مثل دیکھ کر کہتے تھے کہ اگر آپ نبی ہیں تو ہما ری ہی طر ح کیو ں ہیں ، کفا ر و مشر کین کے اسی شبہ کا ازالہ کیا جا رہا ہے کہ ہما ری سنت ہی یہی ہے کہ آج تک اس عالم رنگ و بو میں بنی نو ع انسا ن کی طر ف جتنے انبیا ء کر ام علیہم السلام مبعوث کئے گئے وہ سب کے سب انہی کے ہم جنس تھے کیو نکہ انسا ن کی نشو نما ، تعلیم و تر بیت ، سیر ت و کر دار، امور خا نہ داری ، دستو ر حیا ت اور افہا م و تفہیم کے مقصد کی تکمیل صورت بشریہ ہی میں ممکن تھا ، یہی وجہ ہے کہ انسا نو ں کی ہدا یت کے لیئے کسی انسان کو ہی نبی بنا کر معبو ث کیا جا تا رہا ہے ۔ ہا ں ! اب بھی کو ئی تردد ہے تو اہل ذکر سے پو چھ لو ؟ دیکھئے ! یہا ں ’’اہل ذکر ‘‘سے کتب سا بقہ کے علما ء مراد ہیں یا اس سے اہل اللہ اور عا رفین ہیں اور یہ سب عا لم ہیں ۔
حضرت سید نا علی کر م اللہ وجہ الکریم فر ما تے ہیں ۔’’یعنی ہم اہل ذکر ہیں ہم سے پو چھو ہم تمہیں حقا ئق و معارف سے با خبر کر یں گے ۔‘‘ [ضیاء القرآن،ج۳،ص۱۵۵]
ڈاکٹر مجید اللہ قا دری اپنے تئیں ’’اہل ذکر ‘‘کے چھ اقسا م بیا ن کر تے ہیں :[۱]وہ لو گ یا وہ حضرات جو ایک مخصوص شعبئہ علم کے کچھ حصے کو جا نتے ہیں ، اس کے علا وہ دیگر علوم کو نہیں جا نتے مثلاً ، ایک نیو ر وسر جن دما غ کے علا وہ کسی اور اعضا ء کا آپر یشن نہیں کر سکتا اور دینی علوم سے بھی نا بلد ہو تا ہے ۔[۲]بعض حضرات ایک مخصوص علم پر بھی پو ری دسترس رکھتے ہیں مگر دیگر علوم کو وہ سر سری جا نتے ہیں ، مثلاً ، علم کیمیاکا بھر پور ما ہر ہے مگر با یو لو جیکل سا ئنس جا نتاہے اور علوم دینی سے با لکل غا فل ہوتاہے۔[۳]چند مختلف علوم میں اچھی دسترس رکھتے ہیں ۔ [۴]دینی علوم سے بعض میں دسترس ہو تی ہے اور دنیا وی علوم سے با لکل نا واقفیت ۔ [۵]اکثر دینی علوم پر دسترس اور دنیا وی علوم سے بھی اچھی آگا ہی ۔ [۶]اکثر دینی علوم پر دسترس اوردنیا وی علوم سے بھی اچھی آگا ہی ۔آگے لکھتے ہیں : ہر شخص اپنی اپنی استعداد کے مطا بق ’’اہل الذکر ‘‘میں شامل کیا جا سکتا ہے ۔ اور لو گ اپنی حا جت روائی کے لیئے مخصوص لو گو ں کے پا س جا کر اپنے مسائل کا حل حا صل کر سکتے ہیں ، مگر ایسے اشخا ص دنیا میں بہت کم ملتے ہیں جو اس آیت کر یمہ کی مکمل اور جا مع تفسیر بن جا ئیں ۔ ایسی خصو صیا ت بشرطیکہ ہر زما نے میں انبیا ء کرام علہیم السلام کوحاصل رہیں کہ ہر نبی اپنے زما نے اور وقت میں ’’اہل الذکر ‘‘ہو تا ہے کہ اس زما نے کے جو لو گ جس قسم کی معلومات چا ہتے وہ نبی ان کو اللہ کی عطا سے اس کو دیتا ہے ۔ ہر زما نے میں نبی کو امتیو ں کے مقا بلے میں مکمل علم اور اس زما نے کے تمام علوم کا حا مل بنا یا جا تا ہے ۔ یہا ں تک کہ نبی الا نبیا علیہ السلام کو کل کا ئنا ت کا علم اس لئے عطا ہوا کہ آپ کل کا ئنا ت کے نبی تھے اور ہیں لہٰذا جس نے جو سوال کیا نبی کر یم صلی اللہ علیہ سلم نے اس کا جواب عطا فر ما یا ۔ [معارف رضا، سلورجبلی سالنامہ نمبر ۲۰۰۵ء]
یہ کس قدر اعجا ز کی با ت ہے امت محمد یہ علیھا السلام والتسلیم کے لئے کہ اللہ عزوجل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تما بنی نو ع انس و جن کی طرف تو مبعوث کیا ہی یہا ں تک کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم حیوانا ت و نبا تا ت و جما دا ت کے بھی نبی ورسول ہیں لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہاں انس و جن کی زبان و بیان سے واقف ہیں وہیں چر ند و پر ند اور حیوانا ت و بہا ئم کی زبان کا بھی بخوبی علم رکھتے ہیں ، انہیں تمام ترو جو ہا ت کی بنیا د پر رب العزت والعلیٰ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم’’معلم اول ‘‘کے خطاب سے ملقب ہیں اور وسعت علمی کا حال تو یہ ہے کہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں جا نتے تھے وہ سب بتا ،سکھا دیا ۔ارشاد با ری ہے:ترجمہ:اور تمہیں سکھا دیا جو کچھ تم نہ جا نتے تھے اور اللہ کا تم پربڑا فضل ہے [نساء ،آیت،۱۱۳]
غر ض نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم خو بیو ں اور علوم و فنون میں جملہ انبیا کر ام علیہم السلام سے ممتا ز ہیں ۔ بعد از خدا بز رگ تو ئی قصہ مختصر
اس تمہید سے یہ تو معلوم ہوچلا کہ ’’اہل الذکر‘‘سے علماء مراد ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نا ئب کی حیثیت سے دینی ودنیا وی ضرروتوں کی تکمیل قر آن و احا دیث واجما ع امت کی روشنی میں کر تے ہیں اور یہ عظیم منصب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے فیض و کرم کا عطیہ ہے ۔ گو ہر ایک کو یہ منصب و مقام نہیں ملتا مگر اس منصب و مقام سے کوئی عہد خا لی بھی نہیں ہو تا ۔ اللہ عز وجل ہر دور کے لحاظ سے جب دین حنیف پر کو ئی حملہ آور ہو نے کی نا پا ک کو شش کر تا ہے تو اس کے رد بلیغ کے لئے نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کے صد قے ایک عالم بحر بیکراں کا انتخاب کر تا ہے جو علمی بو قلمونیوں اور خدا داد صلا حیتو ں سے ’’فسألو اهل الذکر‘‘ کی تفسیر بن کر عالم رنگ وبو میں اپنے علم و تحقیق کا جلو ہ بیکھیر تا نظر آتا ہے۔۱۳۲۳ھ ؍کے اوائل میں بھی کچھ اسی طر ح کا ما حول پیدا ہوا جس کے سد باب کے لئے اللہ عزوجل نے امام ’’احمد رضا خا ںفاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ ‘‘کا انتخاب کیا آپ اپنے بچپن سے لے کر بڑھاپے تک آیت مذکور کی تفسیر بنے رہے۔ بچپن میں جو نہیں جا نتے وہ والدہ یا والد گرامی سے پو چھ لیتے اور جو جا نتے وہ دوسرے بچو ں کو بتا دیا کر تے تھے اور علم کی دولتو ں سے بہرہ ور ہو نے کے بعد مسلسل و قت نز ع تک علوم و فنون کے متلا شیو ں کو اپنے علوم و فنو ن کے ذریعہ دلائل و برا ہین کی رو شنی میں تفصیلاً تو کبھی مختصر اً مگر جا مع جوابا ت سے لو گو ں کو مطمئن کر تے رہے ۔ خواہ سائل دینی معلو ما ت کا متقا ضی ہو یا دنیا وی ، تبحر علمی کا حا ل تو یہ تھا کہ جہا ں دینی علوم و فنون کا تسلی بخش حوالہ جات سے مبرہن جواب دیتے وہیں عصری علوم کے بھی منقولی ومعقولی جوابا ت قلمبند فر ما دیا کر تے تھے ۔ معلوما ت کے لئے آپ کے مجمو عہ فتا ویٰ [فتاویٰ رضویہ ] جو تیس ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے] کا مطا لعہ نہا یت مفید ہے ۔ ڈاکٹر مجید اللہ قادری لکھتے ہیں : امام احمد رضا پچھلی صد یو ں کے ایک ایسے ہی نا مو ر مفکر و مد بر ہیں جنہو ں نے اللہ تعالیٰ کے اس عطیہ علم نا فع کے جو ہر دکھا ئے اور ہر علم وفن میں مستند تحر یر قلمبند فر ما ئی ۔ جس کی مثا ل بر صغیر پا ک و ہند میں ناپید ہے ۔ بر صغیر میں علو م دینیہ کے بے شما ر علماء ہر زما نے میں مو جو د رہے مگر اکثر یت علوم دنیا وی میں دستر س نہیں رکھتی تھی ۔ مگر اللہ نے امام ’’احمد رضافاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ ‘‘کو دونو ں علوم پر کا مل دستر س دی تھی ۔ [معارف رضا، شمارہ ۲۵؍۲۰۰۵ء ]
ڈاکٹر صاحب کی تحر یر مذکور سے اب یہ مسئلہ لا نیحل نہیں رہا کہ آیا علوم دینی کے علاوہ عصری علوم کا پڑ ھنا ، پڑ ھا نا ، سیکھنا ، سیکھانا شر عی نقطئہ نظر سے جا ئز ہے یا ناجا ئز ۔ ہا ں یہ ضرور محل نظر ہے کہ آیا دونو ں کے اغراض و مقا صد الگ ہو ں یا ایک ، تو امام احمد رضاکی آنے والی تحریر سے آپ خو دہی نتیجہ اخذ کر لیں گے کہ اگر عصری علوم کے حصول کا مقصد رضا ئے الہٰی و رسول اور دین و ملت کی تر ویج واشا عت ہے تو عصری علوم میں جملہ علوم و بیا ن سیکھا جا سکتا ہے ور نہ دنیا و حصول معا ش کے لئے جا ئز نہیں ۔ اور یہ ہی اجما ع ہے کہ علوم و فنون اللہ عزوجل و رسول گرا می صلی اللہ علیہ وسلم کو را ضی کر نے کے لئے ہی حا صل کیا جا ئے ۔
افا دیت اور مقصدیت کے نقطئہ نظر سے امام احمد رضا فاضل بر یلوی رحمتہ اللہ علیہ تمام علوم جد ید ہ قد یمہ خواہ عقلی ہو یانقلی کی تعلیم کو جا ئز قراردیتے ہیں ۔
اسی طر ح ذی علم مسلما ن اگر بہ نیت رد نصاریٰ انگریزی پڑ ھے تو ضرور اجر پا ئے گا ، دنیا وی زند گی کے لئے کسی زبان کے سیکھنے ، حساب ، اقلید س ، جغرا فیہ یا کسی جا ئز علم کے پڑ ھنے میں کو ئی حر ج نہیں ، طب ، سا ئنس اور دیگر علوم جدیدہ کا ہر وہ حصہ جو تعلیما ت اسلا میہ کے تا بع ہو قابل قبول ہے . [پیغام رضا،خصوصی شمارہ ، جنوری ،۲۰۰۵ء ؍ص۵]
امام احمد رضا خا ں مذ مو م علوم کے حصول سے منع کر تے ہیں کیو نکہ اس میں مخلوق کے نقصان کا پہلو غا لب ہو تاہے ،یہی وجہ ہے کہ امام احمد رضا خا ں انہی تین ذرائع علم کے قا ئل ہیں :[۱] قرآن [۲]حد یث [۳]اجما ع ،لکھتے ہیں :’’نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: کہ علم تین ہیں ، قرآن یا حد یث یا وہ چیز جو وجوب علم میں ان کی ہمسر ہے ۔ ان کے سوا سب فضول ہے ۔ [ایضاً]حضرت شیخ عبدالحق محد ث دہلو ی کا نظر یہ بھی یہی تھا جو امام احمد رضا خا ں کا نظر یہ تعلیم ہے ۔ آپ فر ما تے ہیں :قال اللہ و قال الر سول کے علا وہ جو کچھ ہے وہ سب فضلہ ہے ۔ حضرت امام شا فعی کا نظر یہ بظا ہر سخت ہے مگر حقیقت پر مبنی ہے آپ امام احمد رضا خا ں علم دین کے حصول کو ترکۂ مصطفیٰ سمجھتے ہیں ۔ اور خا لصاً اپنی ذات کو علم منطق و فلسفہ ، سا ئنس و جغر افیہ اور علم نجوم و حساب زائد از ضرورت منہمک و مشغول کر لینے کو یو نا ن کا پس خوردہ قراردیتے ہیں ۔آپ فر ما تے ہیں :’’علم وہ ہے جو مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا تر کہ ہے نہ وہ جو کہ کفار یو نا ن کا پس خوردہ ‘‘۔مز ید فر ما تے ہیں ’’وہ ہئیت جس میں انکا ر و وجو د آسمان و تکذیب گر دش سیا را ت و غیرہ کفر یا ت وامو ر مخا لفت شر ع تعلیم کئے جا ئیں وہ بھی مثل نجو م حرام و ملو م اور ضرو ر یا ت سے زائد حساب یا جغرا فیہ و غیر ہ ہما دا خل فضولیا ت ہیں ۔‘‘ [معارف رضاکراچی دارالعلوم منظر اسلام بریلی نمبر ،۲۰۰۱ء ؍۳۷]
ڈاکٹر مجید اللہ قادری امام احمد ر ضا خا ں کی تصنیفا ت و تا لیفات کے حوالے سے رقمطراز ہیں :’’امام احمد ر ضا خا ں چا ہتے ہیں کہ قوم کے نوجو ان اللہ عز وجل اور اس کے رسول مکر م صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا جو ئی کی خا طر [ اس نیت سے ] وہ تمام علوم جدیدو قدیم حا صل کر یں جن سے اسلا م اور عالم انسا نیت کا فا ئد ہ ہو ۔‘‘ڈا کٹر صا حب اس پیرا گرا ف پر کچھ یوں تبصرہ کر تے ہیں :’’امام احمد رضا خا ں کے نز دیک جد ید و قد یم علوم کی تحصیل حا لا ت ز ما نہ کی مجبو ریو ں کے پیش نظر بہت ہی ضروری ہے ۔ ‘‘ [ایضاًص،۲۷۷]
امام احمد ر ضا خا ں یہ چا ہتے تھے کہ قوم مسلم کے اندر ہر میدان میں متحر ک فعال شخصیت مو جو د ہو ں اور جو جس کا م کے ما ہر ہو ں انہیں اس کا م پر کا ر بند کیا جا ئے بعض کو فی سبیل اللہ [ اگر صا حب حیثیت ہو ] اور چند کووظائف و امداد کے ذریعہ ۔ آپ کے اس فکر کی تصدیق اور عصری علوم کے تقا ضے اور اس کی ضر ورتو ں کی تا ئید آپ کے دس نکا تی و دعوتی پرو گرام سے بھی لگا یا جا سکتا ہے ۔ آپ فر ما تے ہیں ۔’’عظیم الشان مدارس کھولے جا ئیں ، با قاعد ہ تعلیمیں ہو ں ‘‘ آپ کا وسعت و فکر سے یہ مملو قول ہمیں اس با ت کی دعوت دیتا ہے کہ جہا ں دینی فنون کی کتب پڑھا ئے جا ئیں جسے پڑ ھ کر ایک طا لب علم حا فظ قرآن ، عالم دین ، شیخ الاسلام و المسلمین ، مفتی اور قا ضی ، پھر رو حا نیت و قلب سے لیث ہو کر کسی اہل اللہ کی بر کتو ں ، شفقتو ں اور صحبتو ں سے مستفیض ہو کر زہد و تقویٰ ، صبر و استقا مت اور تو کل علی اللہ کے عظیم منصب پر فا ئز ہو تے ہیں ۔اور یہ سب فضل الہٰی پر منحصر ہیں ۔ ور نہ یہ بھی سناودیکھا گیا ہے کہ لا کھ دینی کتب پڑھ لیں مگر تز کیۂ قلب و نفس اور عمل صالح کے بغیر یہ سا رے مناصب و مراتب پھوٹی کوڑی کے عو ض بھی نہیں ۔لہٰذا اس با ت کی اشد ضرورت ہے کہ دینی ضرورتوں کے پیش نظر حسا ب ، انگلش اور سا ئنس و غیرہ کی تعلیم بھی بچو ں کو دی جا ئے تا کہ وہ ہر زبا ن و بیا ن میں دیگر تمام مکا تب فکر و نظر اور قوم و مذہب کے در میان اپنی دینی ، مسلکی اور شر عی تبلیغی سر گر میو ں کو خا لصاً لو جہ اللہ جا ری رکھ سکیں ۔ ورنہ یہی ہو گا ۔’’زر نیست عشق ٹیں ٹیں ‘‘
ایک جگہ لکھتے ہیں :’’مطلقاً علوم عقلیہ کی تعلیم و تعلم کو نا جا ئزبتا نا یہا ں تک کہ بعض مسا ئل صحیحہ مفید ہ عقلیہ پر اشتمال کے با عث تو ضیح و تلو یح جیسے کتب جلیلہ عظمیہ دینیہ کے پڑ ھا نے سے منع کر نا سخت جہا لت شدید ہ و سفا ہت بعید ہ ہے ۔‘‘ [ایضاًص ۲۷۷]
ایک اور مقام پر فر ما تے ہیں :’’اگر جملہ مفا سد سے پا ک ہو تو علوم آلیہ مثلاً ریا ضی ، ہندسہ و جبر و مقا بلہ و جغر افیہ و امثال ذالک ضروریا ت دینیہ سیکھنے کے بعد کی کو ئی مما نعت نہیں کسی زبان میں اور نفس زبان کا سیکھنا کو ئی حر ج رکھتا ہی نہیں ۔‘‘ [فتاویٰ رضویہ مترجم ،جلد ۲۳؍ص۶۴۸]
ایک اور جگہ انگر یز ی پڑ ھنے سے متعلق جس کے پڑ ھنے سے عقیدہ متزلزل ہو ، خواہ کو ئی اور زبا ن ہو ، فر ض کر لیں ! کتاب عر بی زبان میں تحر یر ہے مگر صا حب کتا ب نے بیہو دہ ، لغو یا ت و خرافا ت با تو ں کو نقل کیا ہے تو ایسی عر بی زبان کی کتب کا پڑ ھنا حرام ہو گا ۔
آپ ایک سوال کے جواب میں تحر یر فر ما تے ہیں :’’ایسی انگریزی پڑ ھنا جس سے عقا ئد فا سد ہو ں اور علماء دین کی تو ہین دل میں آئے ، انگر یز ی ہو خواہ کچھ ہو ایسی چیز پڑ ھنا حرام ہے ‘‘ [ایضاً،ج ۲۳؍ص۶۴۸]
انگر یز ی زبا ن کے جا ئز ونا جا ئز کے با رے میں آپ نے ایک فتویٰ ارشاد فر ما یا ہے : ’’ذی علم مسلمان اگر بہ نیت رد نصاریٰ انگر یزی پڑ ھا اجر پا ئے گا اور دنیا کے لئے صر ف زبان سیکھنے یا حساب اقلید س جغرافیہ جا ئز علم پڑ ھنے میں حر ج نہیں بشر طیکہ ہمہ تن اس میں مصروف ہو کر اپنے دین علم سے غا فل نہ ہو جا ئے ورنہ جو چیز اپنا دین وعلم سیکھنے میں بقدر فر ض ما نع آئے حرام ہے ، اسی طر ح وہ کتا بیں جن میں نصاریٰ کے عقا ئد با طلہ مثلاً انکا ر وو جو د آسمان و غیرہ درج ہیں ان کا پڑ ھنا بھی روانہیں ۔ [ایضاً، ج ۴ ص ۲۴]
آپ کا لج میں تعلیم و تعلم کی اجا زت تو دیتے ہیں مگر راہ شر یعت کے مطا بق ۔ آپ رقم طراز ہیں :’’کا لج اور اس کی تعلیم میں جس قدر بات خلا ف شریعت ہے اس سے بچنا ہمیشہ فر ض تھا اور ہے جہا ں تک مخا لف شر ع نہ ہو اس سے بچنا کبھی بھی فر ض نہیں ‘‘ [فتاوی رضویہ قدیم ج ۴،ص ۲۴]
امام احمد رضا خا ں کی علمی ، فنی ، دینی اور دنیو ی افکا ر و نظر یا ت کی وسعتو ں کا انداز کر نا ہے تو ڈاکٹر محمد ما لک کے مضمون کا یہ اقتباس ملا حظہ ہو:علوم و فنون کا یہ خو رشید تا با ں بیک وقت متر جم ، مفسر ، محد ث ، فقیہ ، مصلح ، شیخ طر یقت ، منفرد لغت گو شا عر ، عظیم ادیب ، سیا ستداں ، سائنسداں ، ما ہر اقتصادیا ت ، ما ہر نفسیا ت ، ما ہر تعلیم ، عظیم فلا سفر الحا ل صل! اسلامی تا ریخ کا ایک در خشاں باب ہے ۔ آپ نے ایک سو سے زائد علوم و فنون میں ایک ہزار سے زائدکتا بیں لکھیں ۔ [معارف رضا کرا چی ،۲۰۰۱ء ؍ص ۳۸]
امام احمد رضا خا ں نے دینی کتب کے علا وہ عصری مو ضو عا ت پر متعد دکتب تحر یر کیں جو مندرجہ ذیل ہیں ۔
[۱] فو ز مبین در رد حر کت زمین ۱۹۱۹ء [۲]الکلمتہ الملہمہ فی الحکمتہ المحکمہ ۱۹۱۹ء [۳]معین مبین بہ دررد شمس و سکون زمین ۱۹۱۹ء [۴]نزول آیت فرقان بسکون زمین و آسمان ۱۹۱۹ء [۵] حا شیہ اصول طبعی [۶] حا شیہ شمس با زعہ ۔ غر ض حصول علم کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ انسان خو د ستا ئی سے بچنے کی تد بیر کو جا ن لیں ، اعما ل صالحہ کر یں ، کما حقہ اللہ عز وجل پر ہی بھر وسہ رکھیں ، مجلس میں آداب و اخلا ق کے ساتھ بیٹھیں ،ہر کسی کے ساتھ [ اپنے اور بیگا نے ] نر م گو ئی و نر م خو ئی سے پیش آئیں ، مخلو ق خدا کی مد د کر یں ، بخل سے بچیں ، ہر اس کام سے با ز رہیں جس کا حکم ہم دوسرو ں کو دیتے ہیں اور خو د نہیں کر تے، خو شی میں شکر اور مصیبت و پر یشا نی میں صبر سے کا م لیں ، اپنی اور دوسرے کی اولا د کو حسن تر بیت کا سبق دیں، خود بھی با اخلا ق بنیں اور دوسروں کو بھی بنا ئیں اور بلا ضرورت ما ل کی ذخیرہ اند و زی سے اجتنا ب کر یں ۔ راقم الحروف مضمون کے اختتام پر امام احمد رضااور عصری تعلیم کے اغراض و مقا صد کے ضمن میں جنا ب ’’غلام مصطفیٰ رضوی مالیگ ‘‘کے مضمون ’’امام احمدرضا خا ں کاتصور تعلیم ‘‘سے ایک اقتباس نقل کر نا چا ہے گا جس سے امام احمد رضا خا ں کے نز دیک عصری تعلیم کے اغراض ومقاصد کیا ہیں وہ بخو بی واضح ہو جا ئیں ۔ ملا حظہ ہو۔
مو لا نا احمد رضا خا ں بر یلو ی نے اپنے تعلیمی تصورات کومقصدیت سے جو ڑ کر تعمیر شخصیت کا روشن اصول مقرر فر ما یا وہ یہ کہ علم جدید ہہو یا دیگر علوم وہ اسلامی فکر و خیال کو پروان چڑ ھا تے ہو ں اور حق شنا سی کا جو ہر عطاکر تے ہو ں تو ان کا حصول بلا شبہ کیا جا نا چا ہیئے ۔ [معارف رضا سالنامہ ،۲۰۰۶ء ص۱۰۸]
ترسیل فکر : صاحبزادہ محمد مستجاب رضا قادری رضوی عفی عنہ
رکن اعلیٰ :شیر مہاراشٹر تعلیمی فاؤنڈیشن میرا روڈ ممبئی۔