رمضان کا آخری عشرہ اور خصوصی اعمال

رمضان المبارک کا مہینہ کیسے آیا اور کیسے تیزی سے جارہا ہے کچھ پتہ نہیں چل رہا ہے۔ اپنے دامن میں رحمت، مغفرت وبخشش اور آزادی جہنم کا پروانہ لے کر ہمارے درمیان سایہ فگن ہوا اور آج ہائے افسوس جدائی کی گھڑی سر پر کھڑی ہے۔ اس الوداعی لمحات میں ہمیں چاہیے کہ اس آخری عشرے سے بھرپور استفادہ کریں اور بالخصوص اپنی مغفرت وبخشش کا ذریعہ بنائیں۔ رمضان المبارک تو پورا مہینہ انوار وبرکات سے مالامال ہے۔ لیکن رمضان کے آخری عشرے کی فضیلت وعظمت کچھ اور ہی ہے۔ اسی عشرے کے دامن میں شب قدر پنہاں ہے جو ہزار راتوں سے افضل واعلی ہے۔ اسی عشرے میں سوغات ربانی 'اعتکاف' بھی شامل ہے۔ اسی عشرے میں 'صدقۂ فطر' جیسا عظیم ذریعۂ غمخواری موجود ہے۔ بالآخر اسی عشرے میں 'لیلۃ الجائزہ' یعنی انعام کی شب بھی پوشیدہ ہے۔ اس عشرے کی فضیلت وعظمت اور اہمیت کے لیے اور کسی شئے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔

سرکار دوجہاں ﷺ رمضان کی اتنی قدر کرتے تھے کہ تین مہینے پہلے سے روزوں کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ تو اندازہ لگائے کہ رمضان میں امام الانبیاء ﷺ کتنے اہتمام سے عبادت وریاضت میں مگن رہتے تھے۔ بالخصوص آقائے دو جہاں ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں مزید اہتمام کے ساتھ عبادتوں میں محو رہتے تھے جیسے کہ اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ (آخری) عشرہ شروع ہوتا تو حضور نبی اکرم ﷺ کمربستہ ہوجاتے، اس کی راتوں کو زندہ رکھتے (یعنی شب بیداری کرتے اور گھر والوں کو جگایا کرتے۔ اور انہیں عبادت کی ترغیب دیتے‘‘ (متفق علیہ) احادیث نبویہ کے مطابق رمضان کے تین عشرے تین مختلف خصوصیات کے حامل ہیں اور ہر ایک عشرے پر اللہ تعالی کی رحمت کا خصوصی رنگ غالب ہے جیسا کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:’رمضان کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرا عشرہ دوزخ سے آزادی کا ہے(صحیح ابن خزیمہ(

تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ رمضان المبارک کا یہ آخری عشرہ اپنے دامن میں جہنم سے آزادی وخلاصی کا پروانہ لیے حاضر ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ ان دس دن میں ایسے نیک واعمال صالحہ کریں کہ جن کے بدولت اللہ تبارک وتعالی ہمارے حق میں جہنم سے آزادی کا پروانہ لکھ دیں۔ اسی وجہ سے خصوصا ہر تراویح کے بعد ہمارے علاقے میں یہ دعا کی جاتی ہے کہ "اللهم ان لك في كل ليلة من ليالي شهر رمضان عتقاء وطلقاء وخلصاء وامناء من النار فاجعلنا من عتقاءك وطلقاءك وخلصاءك وامناءك من النار" کہ "اے پروردگار عالم رمضان کے ہر شب تو اپنے فضل وکرم بے کراں سے ڈھیر سارے لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے تو میرے مولا مجھ حقیر وفقیر سراپا تقصیر کو بھی ان خوش نصیبوں میں شامل فرما"۔ ائمہ مساجد سے ہماری مخلصانہ اپیل ہے کہ اس مذکورہ بالا دعا کو رمضان المبارک میں اپنا معمول بنالیں۔ ہوسکتا ہے کہ پروردگار عالم ہماری دعا کی وجہ سے ہمیں جہنم کی دہکتی آگ سے محفوظ فرمالیں کیونکہ دعا مومن کا ہتھیار ہے۔

رمضان المبارک کے آخری عشرے میں سرکار دو عالم ﷺ کے معمول کے بارے میں آتا ہے کہ "رسول اکرم ﷺ (رمضان کے) آخری عشرہ میں اتنی کوشش کیا کرتے تھے جتنی دوسرے دنوں میں نہیں کرتے تھے۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1175) رسول اکرم ﷺ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں پہلے دونوں عشروں سے بھی زیادہ پرشوق، تازہ دم اور سرگرم عمل ہو جایا کرتے تھے۔ اس عشرے میں خوب ذوق و شوق سے عبادت و ریاضت، شب بیداری اور ذکرو فکر فرماتے اور آپ ﷺ کی عبادت کے اعمال و اشغال میں نمایاں اضافہ ہوجاتا تھا۔ یہ امام الانبیاء ﷺ کا معمول تھا۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم بھی سرکار دوجہاں ﷺ کو آئیڈیل بناتے ہوئے خوب اہتمام کے ساتھ عبادت وریاضت اور ذکر وفکر الہی میں گم رہیں۔

اب ہم اس عشرے کے چند مخصوص اعمال کا ذکر کرتے چلیں جو اس عشرے کی امتیازی شان بھی ہیں۔ اس عشرے میں خصوصیت کے ساتھ تین اعمال پر پابندی کریں۔

1-اعتکاف

2-شب قدر کی تلاش وجستجو

3-صدقۂ فطر کی ادائیگی۔

مذکورہ بالا اعمال کی تھوڑی بہت تفصیل میں جاتے ہیں۔

اعتکاف : رمضان کے اخیر عشرہ کا اعتکاف کرنا رسول اللہ ﷺ کی مستقل سنت ہے، اوراس کی فضیلت اس سے زیادہ کیا ہوگی کہ نبی کریم ﷺ ہمیشہ اس کا اہتمام فرماتے تھے، امام زہری ؒ فرماتے ہیں : کہ لوگوں پر تعجب ہے کہ انہوں نے اعتکاف کی سنت کو چھوڑ رکھا ہے حالانکہ رسول اللہ ﷺبعض امور کو انجام دیتے تھے اور ان کو ترک بھی کرتے تھے ،اور جب سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے اس وقت سے لے کر وفات تک بلا ناغہ آپ اعتکاف کرتے رہے ،کبھی ترک نہیں کیا ۔ (اور اگر ایک سال اعتکاف نہ کرسکے تو اگلے سال بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔ کما فی الحدیث)۔ حضورِ اکرم ﷺ کا ہمیشگی فرمانا (ترک کرنے والوں پر نکیر کیے بغیر) یہ اس کی سنیت کی دلیل ہے ۔

احادیث مبارکہ میں آپ کی پیاری ادا کو بیان کرتے ہوئے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری دس دنوں کااعتکاف کرتے تھے۔ (بخاری) مزید اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺ رمضان کے آخری دس دنو ں کااعتکاف کیاکرتے تھے، یہاں تک کہ آپ کا وصال ہوا(بخاری)- اعتکاف کی فضیلت بیان کرتے ہوئے امام الانبیاء ﷺ فرماتے ہیں کہ: 'معتکف گناہوں سے محفوظ رہتا ہے اور اس کے لیے نیکیاں اتنی ہی لکھی جاتی ہیں جتنی کہ کرنے والے کے لیے( ابن ماجہ) گم- حضرت حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جو شخص اپنے بھائی کے کسی کام میں چلے پھرے اور کوشش کرے اس کے لیے دس برس کے اعتکاف سے افضل ہے ، اور جو شخص ایک دن کا اعتکاف بھی اللہ کی رضا کے واسطے کرتا ہے تو حق تعالیٰ شانہٗ اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقیں آڑ فرمادیتا ہے جن کی مسافت آسمان اور زمین کی مسافت سے بھی زیادہ چوڑی ہے (معجم للطبرانی)-

جب اعتکاف کی اتنی ساری فضیلتیں ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی مسجدوں  میں خوب اعتکاف کا اہتمام کریں اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دلائیں۔ اعتکاف کے لیے اس سے بڑی عظمت کیا چاہیے کہ امام الانبیاء ﷺ زندگی بھر اعتکاف کیا کرتے تھے۔ اسی سے اس عمل کی اہمیت بھی اجاگر ہوگئی اور عظمت بھی- رب قدیر سے دعا ہے کہ ہمیں خلوص وللہیت کے ساتھ اعتکاف کرنے کی سعادت عطا فرمائے کیونکہ آقائے دو جہاں ﷺ فرماتے ہیں: جس شخص نے ایمان کے ساتھ اور ثواب حاصل کرنے کی نیَّت سے اعتکاف کیا اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔‘‘ (جامعِ صَغِیر) اب ذرا یہ فرمان عالی شان بھی سن لیجیے آقائے دو جہاں ﷺ فرماتے ہیں جس نے رَمَضانُ الْمُبارَک میں دس دن کا اعتکاف کرلیاوہ ایسا ہے جیسے دوحج اوردوعمرے کی‘‘ (شُعَبُ الْاِیمان) - واہ کیا ثواب ہے۔ ہم جیسے غرباء کے لیے اور کیا چاہیے۔ صحیح معنوں میں اعتکاف ادا ہونے کے لیے اعتکاف کی تعریف میں فقہاء فرماتے ہیں کہ ’مسجِد میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رِضا کے لیے بہ نیت اِعتکاف ٹھہرنا اِعتکاف ہے۔‘‘ اس کے لیے مسلمان کا عاقل ہونا اور جَنابت اورحیض ونفاس سے پاک ہوناشرط ہے۔ بلوغ شرط نہیں ، نابالغ بھی جو تمیز رکھتا ہے اگر بہ نیّتِ اعتکاف مسجِد میں ٹھہرے تواُس کا اعتکاف صحیح ہے۔ (عالمگیری ج۱ ص ۲۱۱ ) رب قدیر سے دعا ہے کہ ہمیں نبوی طریقے کے مطابق اعتکاف کرنے کی سعادت نصیب فرمائے۔

شب قدر: اس کے اسرار ورموز سمجھنے کے لیے ہمیں پہلے اس حدیث کو بحسن وخوبی سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ حضرتِ سیدنا مالک بن اَنَس رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو ساری مخلوق کی عمریں دکھائی گئیں، آپ ﷺ نے اپنی اُمت کی عمر سب سے چھوٹی  پائیں تو غمگین ہوئے کہ میرے اُمتی اپنی کم عمری کی وجہ سے  پہلے کی اُمتوں کے جتنے نیک اعمال نہیں کرسکیں گےچنانچہ اللہ پاک نے نبی کریم ﷺ کو شبِِ قدر عطا فرمائی جو دیگر اُمّتوں کے  ہزار مہینوں سے بہتر ہے (تفسیر کبیر)- شب قدر کو شب قدر کیوں کہا جاتا اس کی وضاحت امام زہری رحمۃ اللہ علیہ سے سن لیجیے وہ فرماتے ہیں کہ قدر کا معنی مرتبہ کے ہیں 'چونکہ یہ رات باقی راتوں کے مقابلے میں شرف و مرتبہ کے لحاظ سے بلند ہے‘ اس لیے اسے ’’لیلۃ القدر‘‘ کہا جاتا ہے ( تفسیر قرطبی)- اس شب عبادت کرنے والے کی فضیلت وعظمت سنیے آقا ﷺ فرماتے ہیں: "جو شخص شبِ قدر میں ایمان و اخلاص کے ساتھ عبادت کرے تو اس کے پچھلے گناہ بخش دیے جائیں گے۔ (بخاری)

شب قدر کب ہوگی: اللہ تبارک نے اس مقدس رات کی اپنی مشیت کے تحت ہم سے پوشیدہ رکھا تاکہ ہم کسی ایک رات کو مخصوص کر کے دوسری راتوں کو غفلت میں نہ گزار دیں۔ اور مزید اس کے عدم تعین میں بہت سے رموز ہیں، جو اللہ اور اس کے حبیب پاک ﷺ ہی جانتے ہیں۔ اسی لیےے سرکار دوجہاں ﷺ نے ہمیں حکم فرمایا کہ”شَبِِ قَدْر کو رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخِری عَشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔“ (بخاری) حضرت عبادہ بن صامت شب قدر کی  علامات بیان فرماتے ہیں کہ اُس کی علامات میں سے یہ  ہے کہ وہ مبارَک شب کھلی ہوئی ، روشن اور بالکل صاف وشفاف ہوتی ہے، اِس میں نہ زیادہ گرمی ہوتی ہے نہ زیادہ سردی بلکہ یہ رات معتدل ہوتی ہے، گویا کہ اِس میں چاند کھلا ہوا ہوتا ہے، اِس پوری رات میں شیاطین کو آسمان کے ستارے نہیں مارے جاتے ۔مزید نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اِس رات کے گزرنے کے بعد جو صبح آتی ہے اُس میں سورج بغیر شعاع کے طلوع ہوتا ہے اور وہ ایسا ہوتا ہے گویا کہ چودھویں کا چاند ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اِس دِن طلوعِ آفتاب کے ساتھ شیطان کو نکلنے سے روک دیا ہے۔‘‘ اِس ایک دِن کے علاوہ ہر روز سورج کے ساتھ ساتھ شیطان بھی نکلتا ہے (مسند احمد)-

شب قدر ستائیسویں رات کو غالباً ہوتی ہے اسی لیے بزرگانِ دین ستائیسویں شب کو زیادہ اہتمام کے ساتھ شب بیداری کیا کرتے تھے۔ بزرگانِ دین اور مفسرین و محدّثین رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی اَجْمَعِیْن کا شبِ قدر کے تعین میں اِختلاف ہے، لیکن اکثر علماء وصوفیہ  کی رائے یہی ہے کہ ہر سال ماہِ رَمَضانُ الْمُبارَک کی ستائیسویں شب ہی کو شب قدر ہے۔ حضرتِ سَیِّدُنا اُبَیِّ بْنِ کَعْب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے نزدیک ستائیسویں شبِ رَمضان ہی شب قدر‘‘ ہے۔(مسلم )

حضرت علامہ سراج المحدثین شاہ عبد العزیز محدّث دِہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی بھی فرماتے ہیں کہ شب قدر رَمضان شریف کی ستائیسویں رات ہوتی ہے۔ اپنے بَیان کی تائید کے لیے اُنہوں نے دو دلائل بَیان فرمائے ہیں :{1} ’’لَیْلَۃُ الْقَدْر‘ ‘ میں نو حروف ہیں اور یہ کلمہ سُوْرَۃُ الْقَدْر میں تین مرتبہ ہے، اِس طرح ’’تین ‘‘کو ’’نو‘‘ سے ضرب دینے سے حاصلِ ضرب ’’ستائیس ‘‘ آتا ہے جو کہ اِس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ شبِ قدر ستائیسویں رات ہے۔ {2} اِس سورہ مبارَکہ میں تیس کلمات (یعنی تیس الفاظ) ہیں ۔ ستائیسواں کلمہ ’’ھِیَ‘‘ ہے جس کا مرکز "لَیْلَۃُ الْقَدْر" ہے۔ گویا اللہ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی کی طرف سے نیک لوگوں کے لیے لیہ اِشارہ ہے کہ َرمضان شریف کی ستائیسویں شب، شبِ قَدْر ہوتی ہے۔(تَفسِیر عَزیزی وتفسیر روح البیان)

اگر کسی مسلمان کو بقسمت شب قدر میسر ہو جائیں تو کیا کریں اس سلسلے میں ام المومنین اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے، فرماتی ہیں: میں نے بارگاہِ رسالت ﷺ میں عرض کی : ’’ یارَسُولَ اللہ ﷺ! اگر مجھے شب قدر کا علم ہوجائے تو کیا پڑھوں؟‘‘ فرمایا: اِس طرح دُعا ما نگو: "اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی" ۔ یعنی اےاللہ عَزَّوَجَلَّ! بے شک تو معاف فرمانے والا ہے اور معافی دینا پسند کرتا ہے لہٰذا مجھے مُعاف فرما دے( تِرمذی)- اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم گنہ گاروں کو بھی شب قدر کے انوار وبرکات سے مالامال فرمائے۔

صدقۂ فطر: صَدَقَۂِ فِطْر ان تمام مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے جو ’’صاحب نصاب ‘‘ ہوں اور اُن کا نصاب ’’حاجاتِ اَصلیہ (یعنی ضروریاتِ زندگی مَثَلاً رہنے کا مکان ، خانہ داری کا سامان وغیرہ)‘‘ سے فارِغ ہو(فتاوی عالمگیری) - صدقۂ فطر کی حکمت کے تعلق سے حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر کو فرض فرمایا جو روزہ داروں کی لغویات اور بیہودہ باتوں سے پاکی ہے اور غریبوں کی پرورش کے لیے ہے۔ جس نے نماز عید سے پہلے اسے ادا کیا تو یہ مقبول زکوٰۃ ہے اور جس نے اسے نماز عید کے بعد ادا کیا تو یہ دوسرے صدقات کی طرح ایک صدقہ ہوگا۔

صدقۂ فطر کی مقدار: گیہوں یا اس کا آٹا یا ستو آدھا صاع(یعنی دوکلو میں 80 گرام کم ) (یاان کی قیمت)، کھجور یامُنَـقّٰی یا جو یا اس کا آٹا یا ستو ایک صاع( یعنی چار کلو میں 160 گرام کم) (یاان کی قیمت) یہ ایک صَدَقَۂِ فِطْر کی مقدار ہے (عالمگیری)- ج۱ص۱۹۱،دُرِّمُختارج۳ص۳۷۲) ’’بہار شریعت‘‘ میں ہے : اعلٰی درجہ کی تحقیق اور احتیاط یہ ہے کہ: صاع کا وزن تین سو ا۳۵۱کاون روپے بھر ہے اور نصف صاع ایک۱۷۵ سو پَچھتَّر روپے اَٹھنی بھر اوپر۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۹۳۹ ) صدقۂ فطر کا وقت :صَدَقَۂِ فِطْر ادا کرنے کا اَفضل وَقت تو یِہی ہے کہ عید کو صبح صادِق کے بعد عید کی نمازادا کرنے سے پہلے پہلے ادا کردیا جائے،اگر چاند رات یا رَمَضانُ الْمُبارَک کے کسی بھی دِن بلکہ رَمضان شریف سے پہلے بھی اگر کسی نے ادا کردیا تب بھی فطرہ ادا ہوگیا اور ایسا کرنا بالکل جائز ہے (فتاویٰ عالمگیری)-

اب تک ہم نے صدقۂ فطر سے متعلق بہت ہی ضروری باتوں کو پڑھا ۔ اب ذرا اس صدقۂ فطر کی حکمت بھی سن لیجیے تاکہ صدقۂ فطر ادا کرنے میں کوتاہی نہ برتی جائیں۔ حضور ﷺ نے بھی نے صدقۂ فطر یا فطرانہ کی حکمتوں کو بیان کیا۔ اور صدقۂ فطر کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ آپ اپنے قرب وجوار میں رہنے والے غرباء ومساکین کو بھی عید کی خوشیوں میں شامل کریں۔ اسی وجہ سے تاجدار کائنات ﷺ نے حکم فرمایا کہ صدقۂ فطر عید گاہ جانے سے پہلے پہلے ادا کریں تاکہ غریب ونادار لوگ بھی عید کا سامان خرید کر آپ کی خوشیوں میں شریک ہوں۔ اس سے بڑی ہمدردی وغمخواری کیا ہوسکتی ہے۔ اسی وجہ سے آقائے دوجہاں ﷺنے اس مبارک مہینے کو "شہر المواساۃ" کہا یعنی ہمدردی وغمخواری کا مہینہ۔ لہذا جنتا ہوسکے اس آخری عشرے میں دلجمعی ودلچسپی کے ساتھ عبادتوں ، اعتکاف کا اور تلاش قدر کا اہتمام کریں۔ رب قدیر سے دعا ہے کہ ہم سب کو اس آخری عشرے کی برکتوں ونعمتوں سے بہرہ مند فرمائے اور جہنم کی آگ سے ہماری حفاظت فرمائے۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter