تعمیر خانہ کعبہ: ایک تاریخی پس منظر

کعبہ شریف ہر زمانے میں ایک معظم و محترم عمارت بن کر قائم رہا ہے۔ کسی بھی زمانے میں چاہے وہ زمانہ اسلام سے قبل کا ہو یا اسلام کے بعد کا ہو ، کعبہ شریف کی عزت ، عظمت اور احترام میں کبھی بھی کسی طرح کی کمی نہیں آئی۔ البتہ جن کے ہاتھ میں اس بیت معظم کا باگ وڈور گیا ہے انہوں نے بہت ہی احترام اور عزت کے ساتھ اس ذی عظمت عمارت کو سنبھالا ہے۔ ہاں بعض وقت مخالفین و معاندین کی جانب سے کعبہ شریف کی حرمت و عزت پامال کرنے کی کوشش ضرور کی گئی ہے۔  لیکن ان کا چال و فریب ان کے ہی منہ گرا ہے۔ کیونکہ اس مکان طاہر کو اللہ تبارک و تعالی نے تمام عبادت گاہوں اور مساجد میں سب سے افضل قرار دیا ہے۔ اس جگہ پر عبادات کو دوسری جگہوں پر عبادات سے ہزار گنا افضل بنایا ہے ، اور اس کے اجر و ثواب میں بھی کئی گنا زیادہ مقرر کیا ہے۔

زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ تعمیر کعبہ میں تبدیلیاں ضرور آئی ہیں۔ اور چند وجوہات ضروریہ کی بنا پر کعبہ شریف کو کئی مرتبہ تعمیر نو بھی کیا گیا ہے۔ اس موضوع میں ہم تعمیر کعبہ کے مختلف مراحل مع زمانہ تاریخی پس منظر سے روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ ہم جب تاریخ کی کتابوں کا مطالعہ کریں گے تو ایک بات ہمارے سامنے بالکل عیاں ہو کر آتی ہے کہ تعمیر کعبہ شریف کو دو مرحلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا مرحلہ اسلام سے پہلے کا ہے جبکہ دوسرا مرحلہ اسلام کے بعد کا ہے۔

تعمیر کا پہلا مرحلہ ! تعمیر کعبہ قبل اسلام

پہلےمرحلہ میں کعبہ شریف کو کتنی مرتبہ تعمیر کیا گیا ہے اس میں علماء اور مؤرخین کا شدید اختلاف ہے۔ امام الفاسی اپنی کتاب "شفاء الغرام بأخبار البلد الحرام"  کی جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 175 میں لکھتے ہیں کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کعبہ شریف کو عدید مرتبہ تعمیر کیا گیا ہے۔ لیکن عدد معین مین علماء ومؤرخین کا زمانہ اول سے ہی اختلاف رہا ہے۔ البتہ ان اختلافات سے جو متوسط عدد ہمیں ملتا ہے وہ یہ کہ کعبہ شریف کو کل دس مرتبہ تعمیر کیا گیا ہے۔ ان میں سے آٹھ مرتبہ اسلام کے عروج سے پہلے تعمیر کیا گیا ہے۔ اور زمانہ اسلام میں دو مرتبہ بیت اللہ کا تعمیر ہوا ہے۔ تعمیر کعبہ شریف کا سلسلہ کچھ اس طرح ہے۔ پہلی مرتبہ ملائکہ علیہم الصلوۃ والسلام نے کعبہ کو تعمیر کیا ، دوسری مرتبہ ان کے بعد حضرت آدم علیہ السلام  نے تعمیر کیا ، تیسری مرتبہ ان کے بعد ان کی اولاد نے کعبہ کو تعمیر کیا ، چوتھی مرتبہ خلیل اللہ ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ شریف کو تعمیر کیا ، پانچویں مرتبہ قبیلہ عمالقہ نے کیا ، چھٹی مرتبہ قبیلہ جرہم نے کیا ، ساتویں مرتبہ قریش نے کیا ، آٹھویں مرتبہ عبداللہ بن زبیر بن عوام رضی اللہ عنہما نے  تعمیرنو کیا ، نویں مرتبہ حجاج بن یوسف  ثقفی ، اور دسویں مرتبہ سلطان مراد خان نے کعبہ شریف کی تعمیر نو کیا۔ (شفاء الغرام باخبار البلد الحرام 1/175)

امام علی بن عبدالقادر طبری کا قول الأرج المسکی  فی التاریخ المکی میں منقول ہے۔  فرماتے ہیں کہ کعبہ شریف کو کل دس مرتبہ تعمیر کیا گیا ہے۔ انہوں نے اولاد آدم کو والد کے ساتھ ہی شمار کیا ہے۔ اور آخر میں عثمانی خلافت کے سلطان مراد خان کو گنتے ہیں کہ انہوں نے بھی کعبہ شریف کی تعمیر کی ہیں۔ (الأرج المسکی فی التاریخ المکی. 55)۔

قول راجح کے مطابق کعبہ شریف کو اسلام سے قبل کل چار مرتبہ تعمیر کیا گیا ہے۔ اول حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر فرمایا۔ آور اس کا ذکر ہمیں قرآن وحدیث میں بھی ملتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے خدا تبارک و تعالی کے حکم سے کعبہ شریف کی تعمیر کیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب کعبہ کو تعمیر کیا تھا تو انہوں نے کعبہ کو 9 گز (4.5 میٹر) اونچا رکھا۔ مشرق کی جانب سے بیت اللہ کی لمبائی کو 32 گز یعنی 16 میٹر رکھا ، مغرب جانب سے 31 گز یعنی 15.5 میٹر ، شمال کی جانب سے 20 گز یعنی 10 میٹر اور جنوب کی جانب سے 23 گز یعنی 11 میٹر کی لمبائی رکھا۔ انہوں نے تعمیر کعبہ کے وقت کعبہ کے اوپر چھت نہیں بنائی بلکہ دو دروازے بنا دیے جو کہ زمین سے بالکل متصل تھا۔ ( الأرج المسکی فی التاریخ المکی۔ 70-75)

دوسری اور تیسری مرتبہ کعبہ شریف کی تعمیر کی ذمداری بنو عمالقہ اور بنو جرہم نے  بالترتیب لیا۔ اور کعبہ شریف کو تعمیر نو کی تشکیل دیا۔ امام علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تعمیر کعبہ کے بہت زمانے بعد کعبہ معظمہ کی دیوار کمزور پڑ گئی تو بنوا عمالقہ نے کعبہ کی تعمیر نو کیا پھر ان کے بعد بنو جرہم نے تعمیر کیا پھر جب کعبہ کی عمارت میں کمزوریاں اور خرابیاں لاحق ہوئیں تو اس کو قریش نے تعمیر کیا۔ (أخبار مکہ۔ 1/62).

چوتھی مرتبہ بنو جرہم کے تعمیر کعبہ کے کچھ زمانے بعد جب عمارت کعبہ معظمہ میں پھر سے خرابیاں لاحق ہوئیں تو قریش نے تعمیر کعبہ کا بیڑا لیا اور کعبہ کو تعمیر کیا۔ تاریخ کی کتابوں میں قریش کی تعمیر کعبہ کی وجہ آتی ہے کہ قبیلہ قریش سے ایک عورت کعبہ کو روشن کرنے کی غرض سے روشن دان میں کچھ چنگاریاں لے کر جاتی ہے اور اچانک سے اس میں سے کچھ چنگاریاں اڑ کر غلاف کعبہ کو لگ جاتی ہيں اور آگ پکڑ لیتی ہے۔ جس کی وجہ سے جدار کعبہ کو کافی خرابیاں لاحق ہوتی ہے تو یہ دیکھ کر قریش کے اندر یہ دہشت پھیل جاتا ہے کہ اگر وہ کعبہ کی تعمیر نہیں کیے تو ان پر عذاب الہی کا قہر آئے گا۔  اور اسی بنا پر قریش آگے بڑھ کر کعبہ کی تعمیر نو پر اکٹھا ہوتے ہیں اور اس کے لیے صرف حلال مال جمع کرتے ہیں۔ حلال مال اتنے وافر میں جمع نہیں ہوتا ہے کہ کعبہ کو مکمل بناء ابراہیمی کی شکل دے سکے۔  اسی لیے انہوں نے حجر اسود کی جانب سے 6 گز اور ایک شبر ( 3.23 میٹر) کم کر دیتے ہیں۔ اور ایک چھوٹی سی دیوار سے گھیر دیتے ہیں کہ لوگ طواف کے وقت اس کے اندر نہ آسکیں۔ اہل قریش نے تعمیر کعبہ کے وقت کچھ تبدیلیاں بھی لائی ہیں ، جیسے کہ انہوں نے کعبہ کی اونچائی کو 9 گز  (4.5 میٹر) سے 18 گز یعنی کل 9 میٹر تک بڑھایا۔ اور ساتھ ہی کعبہ کے اوپر چھت بھی بڑھا دیا گیا ، باب غریبی کو بند کر دیا گیا جبکہ باب شرقی کی اونچائی بھی کچھ زیادہ بڑھا دی گئی۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ قریش کا کعبہ کی اس تعمیر نو میں ہمارے پیارے آقا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل تھے۔

جب تعمیر کعبہ کا کام تکمیل کو پہنچا تو قریشی قبائل کے بیچ ایک مسلہ متنازعہ بن کر آیا کہ حجر اسود کو کعبہ کے جانب میں رکھنے کا شرف کس کو حاصل ہوگا؟ قریشی قبائل کے تمام سردار دعوی کرنے لگے کہ یہ شرف ہمارے قبیلہ کو ملنا چاہیے تو ہمارے قبیلہ کو ملنی چاہیے۔ اور اسی طرح متنازعہ میں تشدد پکڑتا گیا۔ یہ آپسی متنازعہ قریش کی خانہ جنگی کا روپ لے لیتا کہ آخر میں سب نے اس بات پر متفق کیا کہ کل صبح جو سب سے پہلے بیت اللہ کی طرف آئے گا، اسی کو اس کا شرف حاصل ہوگا۔ اگلے دن کیا دیکھا جاتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صبح سویرے بیت اللہ کی طرف بڑھے جا رہے ہیں۔ اور سب سے پہلے آپ ہی کعبہ کے اندر داخل ہوتے ہیں۔  یہ دیکھ کر تمام اہل قریش کو اطمینان ہوا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم صادق و امین ہیں۔  سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرتے ہیں۔ اور بالآخر حجر اسود کو اٹھا کر کعبہ شریف کی جانب میں رکھنے کا شرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوا۔ قربان جائیے  پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے اصلاحی اقدام پر۔ آپ نے ایک چادر منگوایا پھر آپ نے حجر اسود کو اٹھا کر اس چادر پر رکھا اور  قریش کے  تمام سردار کو بلایا اور ان سے فرمایا کہ آئیں اور اس چادر کا ایک ایک کونہ پکڑ لیں۔ اور اس طرح پیارے آقا نے خانہ جنگی کو آپسی محبت و الفت میں تبدیل کر دیا۔ قریش کا یہ تعمیر کعبہ شریف کا واقعہ اعلان نبوت سے پانچ سال پہلے ہوا۔

تعمیر کا دوسرا مرحلہ! تعمیر کعبہ بعد اسلام: تعمیر کعبہ شریف کے دوسرے مرحلہ میں کل تین دور ہیں۔

پہلا دور: عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ۔

جب اموی خلافت کا تخت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد ان کے بیٹے یزید کو ملا تو اس نے  سن 64ھ  میں حسین بن نمیر کی قیادت میں حجاز میں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا تختہ پلٹنے کے لیے ایک بڑی فوج کو بھیجا۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا تختہ پلٹ کر پورے حجاز کو خلافت اموی کے تحت شامل کرنے کے لئے یزید کی فوج مکہ کا محاصرہ کیا۔ اور یہ محاصرہ کئی دنوں تک جاری رہا۔ محاصرہ کے دوران حسین بن نمیر نے منجنیق اور توپ کے ذریعہ مکہ پر حملہ آور ہوا جس کی وجہ سے خانہ کعبہ پر کافی اثر پڑا تھا اور خانہ کعبہ کی دیواریں بالکل کمزور ہو گئی تھی۔ محاصرہ کے 17 دن کے بعد یزید بن معاویہ کا انتقال ہو جاتا ہے تو اس کی فوج حصار مکہ کو ختم کرکے شام کی طرف لوٹ جاتی ہے۔ اس کے بعد حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہما نے خانہ کعبہ کو تعمیر نو کیا۔ اور بالکل اسی طرح تعمیر کیا جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر فرمایا تھا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے تعمیر کعبہ کے وقت اس کی اونچائی کو 27 گز 13.5 میٹر بڑھایا۔  قریش نے  مال وافر نہیں ہونے کی وجہ سے جس جگہ کو خانہ کعبہ سے منفرد کیا تھا ان کو دوبارہ خانہ کعبہ میں ملا دیا۔ 

دوسرا دور: حجاج بن یوسف ثقفی

یزید بن معاویہ کے بعد عبدالملک بن مروان خلافت امویہ کا خلیفہ مقرر ہوتا ہے۔ عبدالملک بن مروان حجاج بن یوسف ثقفی کی قیادت میں ایک بڑی فوج کو تشکیل دیتا ہے اور انہیں مکہ مکرمہ کی طرف روانہ کرتا ہے تاکہ  عبداللہ بن زبیر  کے تخت کو پلٹ سکیں۔ جب حجاج اپنے فوج کے ساتھ مکہ پہنچتا ہے تو اس نے جو عبدالملک بن مروان کے خلاف گیا اور اس کی بیعت نہیں کیا ان کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ اور اسی جنگ میں حجاج نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کا سر قلم کیا اور پھر انکے سر کے ساتھ پورے مکہ مکرمہ میں چکر لگایا۔ اور پھر 74 ھجری میں حجاج نے خانہ کعبہ کی تعمیر کو دہرایا اور نئے انداز میں خانہ کعبہ کی تعمیر کروایا۔ اس نے خانہ کعبہ کے مغربی دروازے کو بند کروا دیا جبکہ مشرقی دروازے کی اونچائی کو اور زیادہ بڑھا دی گئیں۔  شمالی دیوار کو منہدم کردیا گیا اور خانہ کعبہ سے چھ گز اور ایک شبر زمین کو الگ کر دیا گیا۔ 

تیسرا دور:  سلطان مراد خان

سلطان مراد خان خلافت عثمانیہ کے سلطان ہیں۔ سلطان محمد فاتح جنہوں نے قسطنطنیہ فتح کیا ان کے ہی فرزند ہیں۔ سلطان مراد خان کا دور خلافت سن 1032ھ  سے 1050ھ تک ہے۔ سن 1039ھ میں مکہ مکرمہ میں جب شدید بارش کی وجہ سے سیلاب آیا تھا۔ اور یہ سیلاب خانہ کعبہ اور مسجد الحرام تک پہنچ کر کافی خرابیاں لایا۔  اسی سیلاب میں خانہ کعبہ کی شامی دیوار گر گئی اور مغربی اور مشرقی دیواروں کا بعض حصہ بھی گھر گیا تھا۔  تو سلطان مراد خان نے خانہ کعبہ کے مغربی اور شمالی دیواروں کو گراکر خانہ کعبہ کی تعمیر از سرے نو کروایا۔ بہت ہی خوبصورت انداز میں کعبہ شریف کی تعمیر ہوئی۔ اور دور حاضر تک وہی تعمیر شدہ کعبہ شریف باقی ہے۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter