آخرت پر دنیا کو ترجیح دینا منکرینِ قدرتِ خداوندی و حشر و نشر کا شیوہ

احکام شریعت کا نفاذ انہی اشخاص پر ہوتا ہے جو عاقل ، بالغ اور مسلمان ہوتے ہیں جبکہ مرفوع القلم یعنی بے محاسبہ (مجنون) ، نابالغ اور کافر احکام شرعیہ کا مکلف نہیں ہوتا۔ اب مسلمانوں کو فہم و شعور سے کام لیتے ہوئے غور کرنا چاہیے کہ ہم نہ پاگل ہیں، نہ ہی نابالغ اور نہ ہی کافر پھر ہم کس لیے اسلامی تعلیمات سے روگردانی کررہے ہیںجبکہ حقیقی مومن وہ ہوتا ہے جو اپنے تمام اغراض و مقاصد اور جذبات کو وحی الٰہی کے تابع کردیتا ہے۔ جب ہماری زندگی کا تقریباً ہر گوشہ اسلامی تعلیمات سے عاری نظر آتا ہے تو ہم کس حیثیت سے اپنے آپ کو عاقل، بالغ اور مسلمان تصور کرتے ہیں؟ اس جانب توجہ کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

ہم نے اسلامی تعلیمات کو ایمانیات و عبادات تک محدود کر کے رکھ دیا ہے جبکہ اس کا وسیع دائرہ انسان کے معاملات اور اخلاقیات کا بھی احاطہ کرتا ہے۔ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ انسان کو ایمانیات اور عبادات سے متعلق جو احکامات دیئے گئے ہیں اس کا مقصد بھی یہی کہ انسان کے معاملات اور اخلاق درست ہوجائیں ۔ اگر انسان کے معاملات اور اخلاق میں ایمان کا دعوی کرنے اور عبادات بجالانے کے باوجود کوئی سدھار نہ آئے تو ایسا دعوی ایمان اور عبادات اس کے حق میں بے فیض ثابت ہوں گے۔ تمام والدین کا مذہبی فریضہ ہے کہ وہ بلالحاظ جنس اپنی اولاد کو سن بلوغ سے پہلے طہارت، نجاست، عقائد ، عبادات جیسے بنیادی تعلیماتِ اسلامی سے واقف کروائیں تاکہ بلوغت کے بعد ان پر عمل کرنا ان کے لیے آسان ہوجائے۔

 بچہ تین یا چار سال کا ہوجاتا ہے تو والدین کو فکر لاحق ہوجاتی ہے کہ اس کو اچھے سے اچھے اور اعلی سے اعلی اسکول میں داخل کروادیں تاکہ اس کا مستقبل روشن ہوجائے ،اسے مستقبل میں بہتر روزگار مل جائے اور وہ دنیا کے مصائب و کلفتوں سے محفوظ و مامون ہوجائے جو کہ عارضی نوعیت کے ہوتے ہیں جبکہ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ آخرت کے نعائم کو دوام و خلود ہے جس کا بنیادی تقاضہ یہی تھا کہ ہر مسلمان اپنے اعتقاد و عمل سے دنیا کو بتاتا کہ وہ حیاتِ دنیا کو پسند کرنے کے بجائے فکرِ آخرت کو ترجیح و فوقیت دیتا ہے لیکن افسوس صد افسوس ہم مسلمانوں نے بھی حق و صداقت کو فراموش کرکے ظن و تخمین کے گھوڑے دوڑانے والے، نظریاتِ باطلہ کے حامل اور شعور و ادراک کی صلاحیت سے محروم منکرین قدرت خدا وندی و حشر و نشر کی طرح آخرت پر دنیا کو ترجیح دینے لگے ہیںاور دنیوی نعمتوں کے حصول کے لیے اپنی خداداد صلاحیتوں کو ضائع کررہے ہیں جس کا لازمی نتیجہ شقاوت و بدبختی، ذلت و رسوائی اور دونوں جہانوں میں بے یاری و مددگاری ہے۔

حق شناسی کے لیے قرآن مجید کے بیان کردہ براہین قاطعہ اور دلائل ساطعہ کافی و شافی ہیں لیکن قرآنی حقائق و معارف، حکمت و موعظت ، تخویف و تہدید اور سخت وعیدوں کا منکرین حشر و نشر پر کوئی اثر نہ ہوااور ان کی سیاہ بختی نے انہیں کسی طرح اخلاقی زندگی پر آمادہ ہونے نہ دیا بلکہ وہ ہمیشہ یہی کہتے رہے نہیں(کوئی دوسری) زندگی بجز ہماری دنیا کی زندگی کے (یہیں) ہم نے مرنا اور زندہ رہنا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ مسلم معاشرے میں بھی یہی احساس غیر محسوس انداز میں سرایت کرگیا ہے اور مسلمانوں میں جوابدہی کے احساس کی کمی کے سبب ایک ناخواندہ آدمی تو کجا اعلی عہدوں پر فائز تعلیم یافتہ لوگ بھی اپنے منصب و رتبہ کے لحاظ سے برائیوں کا ارتکاب کررہے ہیں جو عام آدمی کے گناہو ںسے زیادہ بدترین ہے چونکہ عام آدمی کے گناہوں کا دائرہ بہت محدود اور مختصر ہوتا ہے لیکن جب ایک تعلیم یافتہ شخص کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کے منفی اثرات نسلوں میں سرایت کرجاتے ہیں۔ ہم یہ سب نادانی یا غیر ارادی طور پر نہیں کررہے ہیں بلکہ ہمیں اس بات کا بخوبی علم ہے کہ رب کائنات کے فرستادہ اور محبوب نبی کی اطاعت و اتباع سے گریز کرنا کفر ہے۔ کسی صاحب ایمان کو یہ حق ہی پہنچتا کہ وہ کسی ایسی روش کو اختیار کرے جو کتاب و سنت سے متصادم ہو اس کے باوجود ہمارے تقریباً اعمال غیر اسلامی ہوچکے ہیں۔

 اسلامی تعلیمات سے دوری نے ہمارے کردار کو اس قدر مسخ اور نچلی سطح پر پہنچا دیاکہ آج ہم خالص دینی امور کا استعمال بھی دنیاوی مفادات کے حصول کے لیے کررہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب عابد و زاہد اور متقی و پرہیزگار پیر و مرشد اپنے مریدین کی بیباکی کے ساتھ اصلاح کیا کرتے تھے، کسی کی لعن طعن اور خفگی و تنقیدکی پرواہ کیے بغیر مریدین کے کردار کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے تھے اور مریدین بھی مرشد کامل کے دست حق پرست کو اس لیے تھامتے تھے تاکہ ان کے باطنی امراض کا علاج ہوسکے لیکن آج چونکہ ہماری زندگی کا مقصد اولین دنیا کا حصول ہوگیا ہے لہٰذا آج پیر و مرشد خود اپنے مریدین کے احکامات کے پابند ہوگیے ہیں اور اسلامی تعلیمات کو اپنے مریدین کی خواہشات و تمنائوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کررہے ہیںجو مسلم معاشرہ کی تباہی اور مسلمانوں کی ذلت و رسوائی کی ایک اہم وجہ ہے۔ ہماری انہی بداعمالیوں کا نتیجہ ہے کہ مسلم معاشرہ جبر و بربریت، لوٹ کھسوٹ ،ظلم و زیادتی ، قتل و غارت گری، چوری و قبضہ گیری وغیرہ جیسی برائیوں سے شدید متاثر ہے۔ ہم سب اس حقیقت سے بھی اچھی طرح واقف ہیں کہ فلاح و سعادت دارین کا حصول خوف و خشیت الٰہی ،انابت الی اللہ اور فکر آخرت پر منحصر ہے اس کے باوجود کتنے والدین ایسے ہیں جو اسلامی نہج پر اپنی اولاد کی تربیت کرتے ہیں اور اپنی اولاد کو بہتر مسلمان بنانے، انہیں اور اپنے آپ کو جہنم کا ایندھن بننے سے بچانے کی غرض سے اسلامی تعلیمات کے مطابق ان کے رفتار و گفتار،عادات و اطوار اور کردار کو سنوارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہماری اسی غفلت کی وجہ سے آج ہمارے تعلیم یافتہ طبقہ میں بہت ہی کم لوگ ایسے ملتے ہیں جن میں مومنانہ کردار پایا جاتا ہو۔ مسلم معاشرے میں بہت سارے ایسے لوگ بہ آسانی سے مل جاتے ہیں جو اعلی تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ان کا کردار عجز و انکساری، تقوی و پرہیزگاری، سخاوت و فیاضی، جذبہ ہمدردی و مہربانی ، ملنساری و بھائی چارگی اور انسانی اقدار سے خالی اور ہر قسم کی ظاہری، باطنی ، حسی، معنوی گندگیوں اور نجاستوں سے مملو نظر آتا ہے جبکہ انسانیت کا دار و مدار اخلاقی اقدار پر ہے۔

ہمارے تخیل کی پرواز کی انتہاء دنیاوی معاملات میں خوب سے خوب تر کی تلاش تک محدود ہوکر رہ گئی ہے جبکہ قرآن مجید بتاتا ہے کہ دنیاو و عقبی کی حقیقی فلاح و سعادت مندی ہر آن و لمحہ رب کردگار کی عبادت و بندگی میں مضمر ہے۔ قرآن مجید اس بات کی بھی صراحت کرتا ہے کہ آخرت کی راحتیں اور مسرتیں بہتر اور زیادہ باقی رہنے والی ہیں لیکن ہم قرآن مجید کے ہر ہر حرف پر ایمان ہونے کا دعوی کرنے کے باوجود حبِ دنیا، نفسانی خواہشات، اور حیات فانی کی عارضی لذتوں کو اخروی حیات پر ترجیح و فوقیت دے رہے ہیں۔ ہماری اسی غلط روش کے باعث ہم میں سے بیشتر اشخاص کے دامنِ عمل فسق و فجور ،نافرمانی و سرکشی اور صفات قبیحہ سے آلودہ ہوچکے ہیں۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اصحابِ خیر و شر اور ان کے ٹھکانوں کا تفصیلی ذکر فرمایا تاکہ ہم فرمانبرداروں اور نیک بختوں کی شرافت و طہارت والی زندگی اپنائیں اور نافرمانوں اور بدبحتوں کی خباثتوں اور بے حیائیوںسے اجتناب کریں۔ لیکن مسلمانوں اکثریت قرآن مجید جو دستور حیات ہے ،کو بڑھنے کے بجائے بابرکت اور مقدس کتاب سمجھ کو اونچے مقامات پر رکھ کر دنیاوی مشاغل میں منہمک اور آخرت سے غافل و لاپرواہ ہوچکی ہے۔ اگر کوئی تلاوت کرتا بھی ہے تو مخصوص اوقات و مواقع پر ہی کرتا ہے اور ان میں بھی اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو رب کے اس معجزانہ کلام کو سمجھنے اور دوسروں کو سمجھانے کی کوشش نہیں کرتے یہی وجہ ہے کہ ناخواندہ فرد سے لیکر تعلیم یافتہ اشخاص تک، ذاتی کاروبار کرنے والے سے لیکر اعلی عہدوں پر فائز سرکاری افسران تک ، غریب سے لیکر اہل دولت و ثروت تک تقریباً ہر مسلمان آخرت سے غافل اور دنیا کو سنوارنے میں مصروف نظر آتا ہے اور طرفہ تماشہ یہ کہ ہماری دلی خواہش ہے کہ اغیار دامن اسلام سے وابستہ ہوجائیں ۔

مسلمانوں کو چاہیے کہ ایسی خام خیالی کے بجائے دنیا کے سامنے عملی طور اپنے آپ کو مسلمان بناکر پیش کریں دنیا ہمارے کردار میں اسلامی تعلیمات کے محاسن کو عملی طور پر دیکھ کر متاثر ہوجائیں گے اور دائرہ اسلام از خود میں داخل ہوجائیں گے۔آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفی اس ماہ ِمبارک میں تمام مسلمانوں کو اپنی رحمت، مغفرت سے سرفراز فرمائے اور دوزخ سے نجات عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter