حقوق نسواں: اسلامی اور مغربی ثقافتی تناظر میں ‎

ندیم عالم ہدوی

ہر زمانے میں مفکر ، فلسفی ، مذہبی پیشوا ، عالم دین ، شاعر اور دیگر فنون کے ماہرین گویا ہر کوئی عورت کے بارے میں کچھ نہ کچھ بول گیا ہے۔ کیونکہ عورت یا تانیثیت ہی ایسی چیز ہے جس سے کوئی کبھی اپنے آپ کو دور نہیں کر سکتا ہے۔ سبھوں نے کچھ نہ کچھ ضرور کہا ہے لیکن اپنے اپنے نظریہ کے مطابق۔ کسی نے عورت کو اس کائنات کی سب سے خوبصورت چیز کہا، تو کسی نے دنیا کی خوبصورتی کا دارومدار عورت کو ٹھہرایا ، تو کسی نے خالق کائنات کا عظیم شاہکار سمجھا۔ دوسری طرف بعض یہ بھی بھول گئے کہ عورت صرف حصول تسکین و اطمینان کی چیز  نہیں ہے ، تو کسی نے عورتوں کو سماج اور سوسائٹی کا حصہ ہی نہیں سمجھا۔ تو کسی نے شدید کمزور مخلوق اور فتنہ و فساد کا پوریا قرار دیا۔ الغرض تمام اہل فنون نے عورتوں کو اپنے اپنے نظریے سے دیکھا اور انہیں کسی نہ کسی مقام تک لا چھوڑا۔

ہر زمانے میں ، ہر تہذیب و تمدن میں عورت ایک وسیع لامتناہی بحث کا موضوع رہا۔ دور حاضر میں بھی دنیا کے بیشتر ممالک میں عورت کے موضوع سے متعلق بڑے بڑے پیمانے پر عالمی کانفرنس ، سمینار اور پروگرام کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ لیکن تاہنوز کسی نے آخری نتیجہ تک رسائی  حاصل نہیں کر سکا۔خیریت نسواں ، مساوات حقوق ، تحریک تانیث ، تانیثیت اور حقوق نسواں جیسے نام سے بے شمار تحریکیں چلائی گئیں۔  کبھی "میرا جسم میری مرضی" کے نام پر تحریک چلى تو کبھی "می ٹو"  کا عنوان دے کر عورتوں کو ان کے گھروں سے باہر نکال کر سڑک پر چھوڑ دیا گیا۔ جب ہم کتابوں کا مطالعہ کریں گے تو ایک بات ہمارے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہو کر آتی ہے کہ آج تک عورتوں کے نام پر جتنى بھی تحریکیں چلائی گئی ہیں ان سب کے پیچھے ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے مذہب اسلام کو بد نام كرنا اور لوگوں کے سامنے ایک ظالم مذہب کے شکل میں پیش کرنا۔

دور حاضر میں کچھ لوگ اپنے آپ کو روشن خیال ، دنیا کی ترقی کے ساتھ قدم بہ قدم ملا کر چلنے والے  کہلواتے ہیں۔ اور اس بنا پر وہ چاہتے ہیں کہ عورتوں کو بھی ان کے تمام تر حقوق میں تصرف حاصل ہونا چاہیے۔ اور اسی روشن خیال کے اندھے پن میں جہالت و گمراہی کی اتنی عمیق کھائی میں جا گرے ہیں کہ اب ان سے کتنی برائیاں اور غلط کام نمودار ہوتے ہیں کہ انہیں احساس تک نہیں۔ اسی روشن خیال کو فروغ دینے والوں نے اپنے اپنے ممالک میں آزادی اظہار خیال ، آزادی مذہب ، حریت نسواں اور دیگر مساوات کے قوانین نافذ کیے ہیں اور ان پر عمل پیرا ہیں۔ لیکن یہی قانون اور یہی روشن خیال ان کے چھپے ارادوں کو ظاہر کرتا ہے کہ جب مغربی ممالک اور اپنے ترقی یافتہ ممالک اور تہذیب یافتہ کہنے والے ہر چیز میں آزادی کی بات کرتے ہیں، آزادی مذہب کی باتیں کرتے ہیں کہ جو جس مذہب کو چاہیں اتباع کر سکتے ہیں ، اس مذہب کے احکامات کے مطابق زندگی گزار سکتے ہیں،  اس مذہب کے پیغام کو دوسروں تک پہنچا سکتے ہیں تو پھر انہیں روشن خیال والوں کو حجاب کو دیکھ کر کون سا کانٹا چبھتا ہے کہ پردہ کے مسئلہ پر آتے ہی یہ روشن خیال بالکل تاریک خیال کی طرف چلے جاتا ہے اور مخالفت کرنے کے لئے آمادہ ہو جاتے ہیں۔ اور یہ دعوی کرتے ہیں کہ پردہ اور حجاب میں عورت اپنے حقوق سے محروم رہ جاتی ہیں۔ انہیں ان کا پورا حق نہیں دیا جاتا ہے۔ تابعین روشن خیال جو کہ اصل میں تاریك خیال اور جہالت سے کم نہیں دعویٰ کرتے ہیں کہ حجاب حقوق نسواں کو پامال کرتا ہے ، مساوات بحر بین الرجل و المرأۃ کو چکناچور کرتا ہے۔ لیکن انہیں معلوم نہیں کہ یہی خیال ان کے قوانین اور روشن خیال کے بالکل متضاد کھڑا ہوتا ہے۔ میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ جب آپ ہی آزادی مذہب کے قانون بنائے ہیں تو پھر پردہ اور حجاب میں رہنے والوں کو کیوں دوسری نظر سے دیکھا جاتا ہے؟  کیا یہ آزادی مذہب کو پامال نہیں کرتا؟ جب مذہب کی آزادی ہے اور کسی مذہب میں حجاب میں رہنا قانون ہے تو اس سے منحرف کیوں، اس سے منہ کیوں پھیرتے ہیں؟

دراصل ان کی اسلام کا عورتوں کو دیا ہوا ایک  ایک حق سے مصیبت بڑھ جاتی ہے۔ کیونکہ اسلام نے عورتوں کو وہ حقوق دیا ہے جو کہ آج تک کسی مذہب اور کسی سماج نے نہیں دی ہے۔ اسلام ہمیشہ سے عورتوں کے حقوق مساوی کا قائل ہے۔ اسلام کبھی بھی عورت سے اس کا حق نہیں چھینا ہے بلکہ ان کا حق جو دوسروں نے دبا رکھا تھا ان سے چھین کر دیا ہے۔ اسلامی معاشرے میں عورت اور مسلمانوں کی زندگی کے اصلی بہاؤ میں مسلمان عورت کی خاص حرمت ووقار ہے اور اس کا مظہر حجاب ہے ۔ جو خاتون حجاب میں ملبوس رہتی ہیں ان کا احترام کیا جاتا ہے۔ قدیم زمانے میں بھی وہ عورتیں زیادہ معزز اور قابل احترام ہوتی تھیں جو باحجاب رہتی تھيں۔ حجاب وقار کی علامت ہے۔ حجاب پہننے والی خواتین کا خاص احترام کیا جاتا ہے ، اسلام تمام عورتوں کے لئے اسی حرمت و عزت کا خواہاں ہے۔

اسلام نے زندگی کے ہر موڑ پر عورتوں کو ان کا اصل مقام کا تعارف کرایا ہے ، اگر ماں جیسے عظیم مقام پر فائز ہیں تو اسلام نے ان کے قدموں کے نیچے جنت لا کر رکھ دیا، اگر وہ بیٹی جیسی عزت کا عظیم سرمایہ کے مقام پر ہیں تو اسلام نے ان کو رحمت و برکت کا سبب قرار دیا ہے ، اگر وہ بیوی جیسے عظیم مقام پر ہیں تو اسلام نے ان کو الفت و محبت کی رانی ، محافظ عزت اور گھر کی ملکہ کا نام دیا ہے ، اور اگر بہن جیسے رشتہ پر فائز ہیں تو اسلام نے ان کو محبت ، الفت ، عزت اور بھائی کی کامیابی کا راز بتایا ہے۔ گویا اسلام نے عورتوں کو ہر مقام پر، زندگی کی ہر موڑ پر چاہے وہ نجی زندگی سے متعلق ہو یا سماجی زندگی سے متعلق ہو ان کا اصل مقام اور ان کا حق دیا ہے۔ اور ہمیشہ ان کو  بالا رکھا ہے۔ قرآن و احادیث میں عورتوں سے متعلق بے شمار آیات  واقوال رسول صلی اللہ علیہ وسلم وارد ہوئی ہیں۔ ان کے متعلق احکامات آئے ہیں جو کہ ہمیں پڑھنا اور سمجھنا چاہیے تاکہ ہم ہماری عزت و آبرو کی حفاظت کر سکیں۔

آزادی ، وحریت نسواں ، آزادی رائے اور جمہوریت مغرب کی اقدار اور بنیادی ہیں تو مسلمان عورتوں کو حجاب سے منع کرنا آخر انسانی حقوق کو چھیننا نہیں تو کیا ہے۔۔؟ کیا کسی انسان کو زبردستی اس کی مرضی کے خلاف لباس پہننے پر مجبور کرنا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ آئین سازی کے ذریعہ سے مسلمان خواتین سے یہ حق چھیننے والے کیا وہ دنیا کے ٹھیکیدار کہلانے کے قابل ہیں؟ نہیں ہرگز نہیں ، ان کا ارادہ تو صرف اتنا ہے کہ ان عورتوں کو کسی بھی طریقے سے آزادی کے نام پر منظر عام پر ، سڑک اور گھر کے باہر لایا جاسکے۔

عورت تو شرم وحیا کا پیکر ہے۔  اور ڈھکی چھپی ہوئی چیز ہے۔ بازاروں میں بکنے والی نہیں ہے۔  دین اسلام جہاں  حقوق کا تحفظ کرتا ہے وہیں عورت کے عزت و آبرو کے بچاؤ اور رب العزت کی رضا مندی کے حصول کے لئے حدود و قیود بھی متعین کرتا ہے۔ اگر آج ہم بھی کفار کی مشابہت اختیار کرکے ان کے نقش قدم پر چلیں گے تو ہم بھی رب العزت کی رحمت سے دور ہو جائیں گے۔ دور حاضر میں عورتوں کے نام پر جتنی بھی تحریکیں چلائی جا رہی ہیں،  سارے کے سارے فریب اور دھوکہ ہیں۔ اسلام نے عورتوں کو جو مقام اور جو حقوق دیا ہے وہ مقام وعزت دنیا میں آج تک کوئی دوسرا مذہب،سماج اور کسی ملک نے نہیں دیا ہے۔

 

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter