تحفہ!ایک انمول جذبہ - قسط 3
تحفہ کس موقع پر دیا جائے؟
تحفہ دینے کیلئے ضروری نہیں ہے کہ کوئی خاص موقع کا انتظار کیا جائے بلکہ ایک دوسرے کو وقتاً فوقتاً تحائف دیتے رہنا چاہئے تا کہ محبت او رجذبات کا اظہار کھل کراور ابھر کرسامنے آئے جو اس بات کی علامت ہو کہ آپ کے درمیان صرف رسمی تعلق ہی قائم نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں میں ایک دوسرے کیلئے بھر پور محبت اور خلوص بھی موجود ہے۔جس کا گزرتے وقت کے ساتھ احساس دلانا انتہائی ضروری ہے۔ ویسے تو تحفہ دینے کے کئی مواقع ہوتے ہیں،جیسے والدین کے جنم دن یا تو شادی کی سالگرہ کے موقع پر،بھائی بہن یا دوست کے جنم دن کے موقع پر،استاذوں کے ٹیچرس ڈے (Teacher's day) پر،بچوں کے چلڈرنس ڈے (Children's day)پر یا کسی کے پڑھائی میں اعلیٰ کامیابی حاصل کرنے پر تحفے دیئے جاتے ہیں۔
اور اسی طرح سفر سے لوٹ آنے کے بعد بھی تحفہ دیا جاسکتا ہے۔آپ جس ملک یا جگہ میں گئے تھے وہاں سے کوئی چیز آپکو اچھی لگی تو وہاں سے وہ چیز یں آپ اپنے اہل خانہ،دوست و احباب کیلئے لاتے ہیں گویاآپ نے انہیں سفر میں بھی یاد رکھا۔آپ کا کوئی دوست کسی امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کیا یا توکسی اچھے عہدہ پر فائز ہوگیا تو اس موقع پر بھی آپ اسے تحفہ دے سکتے ہیں۔اسکا مطلب یہ ہوا کہ آپ نے اسکی خو شی میں شرکت کی۔ عام موقعوں کے علاوہ بھی تحفہ دینے کیلئے بعض اور موقعے ہو سکتے ہیں،مثلاً آپ نے کوئی کتاب پڑھی،آپکو وہ کتاب بہت پسند آئی،آپ کا دل چاہا کہ آپ کا دوست بھی یہ کتاب پڑھے وہ دوست کسی دوسرے شہر میں رہتا ہے تو آپ نے کتاب کاغذ میں لپیٹی،بنڈل بنایا اور ڈاک ٹکٹ لگا کر ڈاک خانہ میں ڈال آئے اس طرح آپ نے دوست کو تحفہ بھی بھیجا اور علم بھی بھیجا۔کیونکہ کتابیں کائنات کا پوشیدہ راز ہوتی ہیں اورکتابوں سے زیادہ فائدہ مند تحفہ کچھ دوسرا نہیں۔اگر آپ کا دوست آپ کے علاقہ میں ہی رہتا ہے تو آپ خود اس کے گھر جاکر دے دیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ تحفے تحائف دینے کیلئے کوئی موقع خاص نہیں ہے۔مگر امروز و فرداکے سماج کا کیا کہنا اب تو لوگوں نے تحفہ دینے کیلئے دن خاص کر رکھے ہیں۔کوئی برتھ ڈےBirthdayیا Children's dayپر گفٹ دے رہا ہے تو کوئی ٹیچرس ڈےTeacher's day پر گفٹ دے رہاہے، کوئی مدرس ڈےMother's day پر گفٹ دے رہاہے تو کوئی فادرس ڈے Father's dayپر گفٹ دے رہاہے اور پتہ نہیں ایسے کتنے Daysاور ہیں کہ ان سب دنوں پر ہی گفٹ دیتے ہیں۔آج کل تو شوہر وں کا بھی یہ شیوہ ہوگیاہے کہ اپنی بیویوں کو خاص ویلنٹائن ڈے Valentine dayپر ہی گفٹ دیتے ہیں۔اور ایسے موقع پر گفٹ دینے کیلئے زیادہ سے زیادہ قیمت خرچ کر کے قیمتی سے قیمتی تحفہ دینے کی کوشش کرتے ہیں جو کہ ان کی حیثیت کے مخالف ہے ا ور دین اسلام میں مذموم ومردود ہے۔آج کل کے مسلم نوجوان تو خاص طور پر عید الفطر اور عید الاضحی یا تودوسرے تہواروں پرہی تحفہ دیتے ہیں جو کہ اسلام میں رائج نہیں اور کہیں بھی ان باتوں کے کرنے کا حکم بھی نہیں دیاگیا ہے۔
اسلام ایسے کسی خاص موقعہ پر تحفہ دینے کا حکم نہیں دیتا۔اسلام اور اسلامی تعلیمات گواہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی بھی کسی خاص موقعہ پر تحفہ نہیں دیا نہ ہی دینے کا حکم صادر فرمایا۔بلکہ یہ سب آج کل کے پیداشدہ خرافات سے ہیں۔اگر ایک شخص اپنے والدین یا اپنے بھائی،بہن،دوست و احباب کو خوش کرنا چاہتا ہے تو وہ کسی بھی وقت انکے لئے انکی پسند کے موافق گفٹ لاکر دے سکتا ہے کیونکہ ان تعلقات کو برقرار رکھنے کیلئے یا تحائف دیکر ان رشتوں کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کیلئے کوئی خاص وقت یا کوئی خاص ڈےDay کی ضرورت نہیں ہے۔اگر آپ اپنی بیوی کو خوش کرناچاہتے ہیں یااپنی محبت و شفقت دکھانا چاہتے ہیں تو اس کیلئے ضروری نہیں کہ ویلنٹائن ڈے Valentine dayپر ہی تحفہ دے بلکہ وہ چاہے تو ہر ڈےDay کوویلنٹائن ڈے Valentine day میں تبدیل کرسکتا ہے۔اسلام ہمیں تعلیم دیتاہے کہ ہم کسی بھی دن کسی بھی جگہ تحفہ دے سکتے ہیں کیو نکہ تعلق، رشتہ محبت کو قائم ودائم رکھنے کیلئے، دوستی و بھائی بندی کو برقرار رکھنے کیلئے اسلامی کیلنڈر میں کوئی دن خاص نہیں بلکہ آپ چاہے تو ہر دن کو خوشنما و پر بہار دن بنا سکتے ہے۔
تحفہ دینے کا بہترین وقت رمضان بھی ہے جسمیں ایک نیکی کا ثواب (70) گنا زیادہ نیکی کرنے کے ثواب کے برابر ہوتا ہے۔گویا کہ اس مبارک ماہ میں تم کسی کو کوئی تحفہ دے رہے ہوجو کہ (70) روپیہ کا ہوتواس مہینے کی برکت سے تم اسے (4900) روپیے کا تحفہ دے رہے ہو۔تو پھرکیوں نہ اس ماہ مبارک میں زیادہ سے زیادہ تحفہ دیا جائے اورزیادہ سے زیادہ نیکیوں کو سمیٹاجائے۔تحفہ سے مرادصرف کوئی چیز بطور تحفہ دینا نہیں بلکہ دعوت دینا بھی ایک قسم کا تحفہ ہے،پھر چاہے وہ دعوت اسحار ہو،دعوت افطار ہو یا دعوت طعام۔
تحفہ کیسے دیں؟
تحفہ دیتے وقت رشتے کی نوعیت کا خاص خیال رکھیں۔آپ جسکو تحفہ دے رہے ہیں اس کے ساتھ تعلقات عارضی نوعیت کے ہیں یا مستقل۔آپ ان تعلقات میں مزید اضافے کے خواہشمند ہیں یا صرف رسمی طور پر رشتہ نبھا رہے ہیں۔ان سب باتوں کو سامنے رکھ کر فیصلہ کریں کہ آیا آپکا انھیں تحفہ دینے کا حق بنتا بھی ہے یا نہیں۔تحفہ کا انتخاب کرتے وقت ہر رشتے کی اہمیت کو مد نظر رکھیں۔تحفہ خریدتے وقت اپنی حیثیت اور دوسروں کی پسند کا خیال رکھیں۔ضروری نہیں کہ آپ بہت ہی قیمتی تحفہ خر یدیں۔اپنی تخلیقی صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے آپ اپنے ہاتھ سے خوبصورت پھول اور کارڈز بھی بنا سکتے ہیں اور بطور تحفہ پیش کر سکتے ہیں جو نہ صرف آپ کی محبت اور خلوص کے ترجمان ہونگے بلکہ اس سے آپ کی پوشیدہ صلاحیتیں بھی نکھر کر سامنے آئینگی۔
تحفہ ہمیشہ خوداپنے ہاتھ سے پیش کریں،کسی دوسرے کو یہ موقعہ فراہم نہ کریں کیونکہ اس سے تحفے کی اہمیت کم ہوجاتی ہیں۔موقع کی مناسبت سے تحفہ دینے میں اتنی دیر مت لگائیں کہ خوشی کا موقع ہاتھ سے نکل جائے، بعد میں دیئے جانے والے تحائف اپنی اہمیت کھو دیتے ہیں۔تحفہ اس وقت دیں جب خوشی کا سماں ہواو ر خوشی اپنے عروج پر ہو۔تحفہ اور خوشی لازم وملزوم ہیں۔تحفہ تقاریب کے نوعیت کے مطابق دیں۔سالگرہ،شادی بیاہ،امتحان میں کامیابی وغیرہ کے مواقع پر تحائف انکی مناسبت سے ہی دیں۔مثال کے طور پر بچوں کو سالگرہ کے موقع پر یا امتحان میں کامیابی پرکامکسComics کی کتابیں،کھلونے،گیمز دینا تو ٹھیک مگر یہی تحائف شادی کی تقاریب میں دینا کسی بھی لحاظ سے موزوں نہیں ہوگا۔
تحفہ خریدنا ہی اہم کام نہیں بلکہ اسکی اپنے طورسے سجاوٹ بھی ایک فن ہے۔تحفہ خوبصورتی سے سجانا اور پیش کرنا ایک آرٹ ہے۔بازار میں رنگ برنگے،چمکیلے،شفاف اور مواقع کی مناسبت سے خوبصورت گفٹ ریپرز Wrapers Gift دستیاب ہیں۔تحفہ کیلئے ضروری نہیں کہ خوشی کے موقع ہو تو ہی دیا جائے۔آپ کبھی بھی کسی کو سرپرائز گفٹ بھی دے سکتے ہیں جس کی خوشی کچھ اورہی ہوتی ہے۔
مشرکین کا ہدیہ!
مشرکین کا ہدیہ جہاں قبول کیا جاسکتا ہے، وہیں انہیں بطور ہدیہ کچھ دیا بھی جاسکتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے ایک خلّہ (کپڑوں کا جوڑا)بطور ہدیہ اپنے مشرک بھائی کو مکّہ بھیجا تھا۔اسی طرح حضرت اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہانے اپنی مشرکہ ماں کو کچھ دینے کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے دریافت فرمایا تو آپ ﷺنے اسکی اجازت دی(صحیح البخاری)۔ ایک دوسری جگہ روایت ہے کہ ”اھدی رسول اللہ ﷺ الی ابی سفیان عجوۃ واستھداہ او فاھداہ ابو سفیان وھو علی شرکہ“ ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے ابو سفیان کو مدینہ منورہ کی بہترین کھجور عجوۃ ہدیہ میں بھیجی اور اس سے مصالحہ یعنی نان خوراک ہدیہ طلب فرمایا ابو سفیان نے مصالحہ بھیجا حالانکہ وہ اس وقت تک مشرک تھے (روض الانف)۔ اور اسی طرح مقوقس شاہ اسکندریہ نے رسول اللہ ﷺ کیلئے بجواب فرمان نبوی ﷺ ایک خط بھیجا تھا اورساتھ میں کچھ کپڑا،ایک سفیدبغلہ جس پررسول اکر م ﷺ ہی سوارہواور دو جاریہ تحفہ بھیجا تھا۔جسے آپ نے قبول فرمایا،بغلہ سفید دیارعرب میں نایاب تھااس کا نام آپ نے دلدل رکھا۔جاریہ میں سے ایک کا نام ماریہ تھاجن کے بطن سے سیدنا ابراہیم ابن رسول اللہ ﷺ پیدا ہوئے اوردوسری کا نام شیرین تھا (روض الانف)۔اسی طرح بادشاہ روم ہرقل نے بھی آپ کے فرمان کے جواب کے ساتھ کچھ تحفہ بھیجا تھا جسے آپ ﷺنے قبول فرمایا۔ان تمام باتوں سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مشرکین کا ہدیہ قبول کرنا جائز ہے بشرطیکہ اسکا تعلق ذبیحہ سے نہ ہوویسے ہی مشرکین کو بطور ہدیہ کچھ دینا بھی جائز ہے۔البتہ یہ ہدیہ ایسا نہیں ہونا چاہئے جس سے ان کے کفر وشرک میں معاونت ہویا ان کے مذہبی شعائر کا احترام جھلکتا ہو۔
ازقلم: عبید انصاری ذیشانؔ ؔابن حافظ عبدالرحمن انصاری
عمارہ منزل، غوری پاڑہ، ضلع تھانہ، مہاراشٹرا۔
zubainansari309@gmail.com