حدیث حب الوطن من الایمان ایک تحقیقی جائزہ ( قسط اول)
وطن اس مکان یا جگہ کا نام ہے جہاں انسان اقامت پذیر ہوتا ہے ، انسان جب اس جگہ پر اپنی قیمتی زندگی کا کچھ اہم حصہ گزار لیتا ہے تو اسے اس جگہ اور وہاں کی عمارتوں اوراس کے گردو نواح رہنے والے افراد سے فطری طور پر کافی انسیت اور محبت پیدا ہو جاتی ہے ،اسی لئے جب کوئی انسان کسی ضرورت کے پیش نظر وطن سے دور ہوتا ہے تو اس کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ جلد سے جلد اپنے وطن عزیز کو واپس ہوجائے،اور اس محبت میں کوئی قباحت بھی نہیں کیو نکہ اس کا ثبوت صحیح حدیث نبوی سے ملتا ہے جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام نے اپنے پیرو کاروں کو وطن سے محبت کرنے کا حق دیاہے ۔ وطن سے محبت کرنے کے بارے میں جو حدیثیں وارد ہوئیں ہیں ان میں سے ایک حدیث مشہور ’’حب الوطن من الایمان ‘‘ بھی ہے ،جس کا معنی ہے ’’وطن سے محبت ایمان کی علامت ہے‘‘ بعض علمائے کرام آج بھی اسے اپنے مقالوں یا تقریروں میں وطن سے محبت کرنے کے تعلق سے دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں، میں علمائے حدیث کے اقوال زریں کی روشنی میں اس حدیث کا حکم واضح کرنے کی کوشش کروں گا۔آیا حدیث صحیح ہے یا حسن ؟ضعیف ہے یا موضوع؟ تا کہ ان پر ظاہر و باہر ہو جائے کہ اس حدیث کو اپنے موقف کے لئے دلیل بنانا کہاں تک صحیح ہے اور کہاںتک غلط ۔ انشاء اللہ آنے والی سطروں میں پہلے اس حدیث کے بارے میںجرح کرنے والے محدثین کے اقوال ادنی سے اعلیٰ کی طرف ارتقاء کرتے ہوئے ترتیب کے ساتھ پیش کرونگا۔پھر ان علمائے محدثین کے اقوال ذکر کرونگا جنہوں نے اس حدیث کی کسی ناحئے سے توثیق کی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ان کی اصطلاحات مثلا ’’لا أصل لہ‘‘ وغیرہ کے معانی صاف الفاظ میں بیان کروں گا تا کہ قارئین کرام کو آسانی کے ساتھ بحث سمجھ میں آجائے ۔ فارجو اللہ تعالی ان یھدینا الی سواء الطریق بجاہ سیدنا محمد ﷺ ۔آمین۔
مگر حدیث مذکور کے بارے میں علمائے حدیث کے اقوال ذکر کرنے سے پہلے مناسب سمجھتاہوں کہ حدیث مشہور کا حکم بیان کر دوں ، کیونکہ بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ جب وہ حدیث کے ساتھ مشہور کا لفظ سنتے ہیں تو اپنی نادانی کی وجہ سے ان کا ذہن یہی کہتا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے حالانکہ حقیقت اس کے بر خلاف ہے کیونکہ حدیث کے مشہور ہونے کو صحت لازم نہیں ۔ مندرجہ ذیل میں حدیث مشہور کی تعریف اور اس کے اقسام مثال کے ساتھ سہل انداز میں بیان کرتا ہوں:
حدیث مشہور کی تعریف : امام المحدثین ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ھوالحدیث الذی روی بطرق محصورۃ باکثر من اثنین ولم یبلغ حدالتواتر ۔ترجمہ: حدیث مشہور وہ حدیث ہے جس کے راوی معین اور محدود ہوں اس طور سے کہ ہر طبقہ میں دو سے زیادہ راوی ہوں اور ان راویوں کی تعداد حد تواتر تک نہ پہنچی ہو۔(۱)
حدیث مشہور کی دو قسمیں ہیں : پہلی قسم: جس کے طرق دو سے زائد ہوں ۔اس قسم کی مثالیں مندرجہ ذیل ہیں :
(الف) حدیث صحیح : عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنھما کی حدیث ہے وہ مرفوعا روایت کرتے ہیں : ان اللہ لا یقبض العلم انتزاعاینتزعہ من العباد، ولکن یقبض العلم بقبض العلماء حتی اذا لم یبق عالما اتخذ الناس رؤوساجھا لا ، فسئلو ا فافتوا بغیر علم فضلو وأضلوا۔أخرجہ البخاری ومسلم وغیرہما۔
(ب) حدیث حسن: : حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا:ـ طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم۔أخرجہ ابن ماجہ فی سننہ۔
(ج) حدیث ضعیف: اطلبوا العلم ولو بالصین۔ أخرجہ البخاری فی تاریخہ وغیرہ ۔(۲)
دکتورمصطفی محمد ابو عمارۃ استاذ الحدیث جامعۃ الازہر الشریف کی تحقیق کے مطابق اگر چہ یہ حدیث ضعیف ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ حدیث حسن ہے جیسا کہ امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب (النکت البدیعات) میں فرمایا ہے۔ کیونکہ اس کے متعدد ضعیف طرق ہیں جس کی و جہ سے ہ حدیث درجہء ضعف سے ارتقاء کر کے حسن تک پہونچ جاتی ہے۔
دوسری قسم: وہ حدیث جو لوگوں کی زبان زد ہو خواہ اس کی ایک سند ہو یا ایک سے زائد بلکہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ حدیث مشہور تو ہوتی ہے مگر اس کی کوئی سند ہی نہیں ہوتی ۔ (۳)
اس قسم کی بعض مثالیں مندرجہ ذیل ہیں :
(الف) حدیث صحیح : المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ ، والمھاجر من ھجر ما نفی اللہ عنہ۔ اخرجہ البخاری ومسلم رحمھما للہ تعالیٰ ۔
(ب) حدیث حسن : المستششار مؤتمن ۔ اخرجہ الترمذی و حسنہ ۔
(ج) حدیث ضعیف : نیۃ المؤمن خیر من عملہ۔ اخرجہ الطبرانی و غیرہ۔
(د) حدیث موضوع : الباذ نجان لما أکل لہ ۔ امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ اس جیسی اور دوسری حدیثو ں کو مثال میں پیش کرنے کے بعد فرماتے ہیں : کلھا باطلۃ لا أصل لہ۔یعنی یہ ساری حدیثیں باطل موضوع ہیں ان کی کووئی اصل نہین۔ (۴)
امام سخاوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : و قد یشتھر بین الناس احادیث ھی موضوعۃ بالکلیۃ و ذلک کثیر جد ا۔ ترجمہ : اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بہت سی حدیثیں لوگوں کے درمیان مشہور ہوتی ہیں جو موضوع ہوتی ہیں اور یہ کثرت سے پائی جاتی ہیں(۵)
مذکورہ بالا بیان سے روز روشن کی طرح عیاں ہو گیا کہ حدیث مشہور صرف صحیح نہیں ہوتی بلکہ حسن ضعیف اور موضوع بھی ہوتی ہے ۔ اب اصل موضوع کی طرف آتے ہیں :
حدیث : حب الوطن من الایمان ، کے بارے میں علمائے محدثین کے مختلف اقوال ملتے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں :
(۱) ان علمائے محدثین کے اقوال جنھوں نے حدیث مذکور کے بارے میں ’’لم اقف علیہ ‘‘ یا اس کے ہم معنی قول کیا ہے:
(الف) امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : حدیث :حب الوطن من الایمان ۔ لم أقف علیہ (۶)
(ب) امام بدر الدین زرکشی رحمہ اللہ تعالی بھی اس کے قائل ہیں چنانچہ ابو المحاسن محمد بن خلیل القاوقجی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: حدیث : حب الوطن من الایمان۔ قال الزرکشی کا لسخاوی: لم اقف علیہ (۷)
(ج) علامہ مرعی بن یوسف کرمی مقدسی ازہری حنبلی فرماتے ہیں: حدیث ’’حب الوطن من الایمان ، قال بعضھم :لم أقف علیہ (۸)
(د) امیر المالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: حب الوطن من الایمان ۔ لم یعرف ۔ (۹)
(ہ)علامہ نور الدین ابوالحسن سمہودی رحمہ اللہ فرماتے ہین: حدیث : حب الوطن من الایمان۔قال الحافظ ابن حجر : لم أقف علیہ(۱۰)
(و) امام زرقانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: حب الوطن من الایمان ۔ لا أعرفہ۔(۱۱)
علماء محدثین کے نزدیک ’’لم اقف علیہ‘‘ کا معنی و مفھوم:
’’لم اقف علیہ‘‘ اور اس کے مثل دوسرے الفاظ مثلا’’لا أعرفہ ‘‘ ’’لم أجد لہ أصلا‘‘ ’’لایعرف‘‘ وغیرہ اگر کسی مشہور و معروف ناقد سے کسی حدیث کے بارے میں صادر ہوا ہو اور اس پر کسی نے تعقب نہ کیاہو تووہ حدیث موضوع قرار دی جائے گی ۔امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : قال الحافظ ابن حجر رحمہ اللہ : اذا قال الحافظ المطلع الناقد فی حدیث : لا أعرفہ، اعتمد ذلک فی نفیہ ، ترجمہ: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فر ماتے ہیں : جب کوئی حافظ حدیث ناقد جس کی حدیثوں پر نظر ہو کسی حدیث کے بارے میں کہے ’’لا اعرفہ ‘‘ تو اس ناقد کے قول پر اعتماد کر کے اس حدیث کی نفی کر دی جائے گی۔ یعنی وہ حدیث موضوع قرار دی جائے گی کیونکہ اس حدیث کی حضور ﷺ سے کوئی اصل نہیں ۔
امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ امام المحدثین ابن حجر رحمہ اللہ کا قول ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: لأنہ بعد تدوین الأخبار والرجوع الی الکتب المصنفۃ ، یبعد عدم الاطلاع من الحفاظ الجھبذۃ علی ما یوردہ غیرہ ، فالظاھر عدمہ۔تر جمہ: کیونکہ احادیث کی تدوین ہو چکی ا، اور علماء نے اسے اپنی مصنفات میں محفوظ کر دیا، تو اب فن حدیث کے عالم و ناقد سے بہت بعید ہے کہ حدیث کی اصل ہو اور وہ اس پہ مطلع نہ ہو سکے ۔ لہذا کسی ناقد کا حدیث پر مطلع نہ ہونا ظاہر طور پر اس بات پر دلیل ہے کہ اس حدیث کا وجود نہیں ۔ (۱۲)
دوسری جگہ امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وفی جمع الجوامع ‘‘ لابن السبکی أخذ امن المحصول وغیرہ : من المقطوع بکذ بہ ما نقب من الأخبار ولم یوجد عند أھلہ من صدور الرواۃ و بطون الکتب ، وکذا قال صاحب المعتمد۔ قال العز بن جماعۃ : و ھذ اقد ینازع فی افضائہ الی القطع ، وانما غایتہ غلبۃ الظن ۔ ترجمہ: جس حدیث کے بارے میں تحقیق و تدقیق کی گئی اور وہ اہل فن کے پاس جنھوں نے اپنے سینوں میں حدیثیں محفوظ کر رکھی ہیں اور مصنفات میں نہ مل سکیں تو اس حدیث کا موضوع ہونا قطعی ہے ۔ ایسا ہی صاحب ’’ المعتمد ‘‘ نے بھی فرمایا ہے ، امام عز بن جماعۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ایسی صورت میں یہ کہنا کہ حدیث قطعی طور پر موضوع ہے قابل قبول نہیں ، ہاں ظن غالب ضرور ہے کہ وہ حدیث موضوع ہے (۱۳)
اسی کے قائل امام ابن عراق الکتانی اور حافظ علائی رحمہماا للہ بھی ہیں ۔اس باب میں جن علمائے حدیث ونقاد کے اقوال پر اعتماد کیا جائے گا ان میں سے بعض کے اسماء ذکر کئے جاتے ہیں۔ بعض متقدمین کے اسماء یہ ہیں : امام احمد بن حنبل ، علی بن المدینی ، یحیی بن معین وغیرہم ۔ عبد الفتاح ابو غدۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ان متقد مین کی طرح بعض متأخر ین بھی ہیں جن کے اقوال پر اعتماد کیا جائے گا مثلا: حافظ ضیاء المقدسی ، ابن الصلاح ، ابن حجر ، سخاوی ، سیوطی وغیرھم رحمھم اللہ تعالیٰ (۱۴)
(۲) ان علمائے محدثین کے اقوال جنھوں نے حدیث مذکور کے بارے میں ’’لا اصل لہ ‘‘ کا قول کیا ہے:
(الف) علامہ علی القاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : حدیث: حب الوطن من الایمان ، لا أصل لہ عند الحفاظ ۔ (۱۵)
(ب) عبد العزیز بن محمد فرماتے ہیں : قال (ای الصغانی ) ومنھا (ای من الاحادیث الموضوعۃ) قولہم: حب الوطن من الایمان۔ قلت لاأصل لہ۔(۱۶)
محدثین کرام کی نزدیک’’لا اصل لہ ‘‘ کا معنی و مفھوم :
اس کے مختلف اطلاقات ہیں اختصار کے ساتھ یہاں پر ذکر کرتا ہوں ۔ (الف) علمائے محدثین کبھی کہتے ہیں : ’’ھذاالحدیث لا اصل لہ ‘‘ لا أصل لہ بھذا اللفظ ‘‘ لیس لہ اصل ‘‘ وغیرہ ، اس سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ جس حدیث پر ان الفاظ کے ساتھ کلام کیا گیا ہے اس کی کوئی سند نہیں ۔
امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : قولھم : ’’ھذاالحدیث لیس لہ أصل أو لا أصل لہ ، قال ابن تیمیۃ : معناہ لیس لہ اسناد ۔ انتھی ۔ ترجمہ: محدثین کرام کا یہ کہنا : ھذاالحدیث لیس لہ أصل ‘‘ یا یہ کہنا : ’’لا أصل لہ ‘‘ ابن تیمیہ نے کہا :اس کا معنی یہ ہے کہ اس حدیث کی کوئی سند نہیں (۱۷)
عبد الفتاح ابو غدۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : واذا کان الحدیث لا اسناد لہ ، فلا قیمۃ لہ ولا یلتفت الیہ اذ الاعتماد فی نقل کلام سیدنا رسول اللہ ﷺ الینا ، انما ھو علی الاسناد الصحیح الثابت أو ما یقع موقعہ ۔ وما لیس کذلک فلا قیمۃ لہ ۔
ترجمہ: جس حدیث کی کوئی اسناد نہ ہو اس حدیث کی کوئی قیمت نہیں،اس کا کوئی اعتبار نہیں ، کیونکہ حضور نبی کریم ﷺ کے اقوال و افعال نقل کرنے میں صحیح اسنادیا جو اس کے قائم مقام ہو پر ہی اعتمادہے، اور جو اس حد سے خارج ہو اس کی کوئی قیمت نہیں ۔(۱۸)
(ب) اور کبھی علمائے محدثین مسند حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں : ھذاالحدیث لاأصل لہ ‘‘ یعنون بہ أنہ موضوع مکذوب علی رسول اللہ ﷺ او علی الصحابی ، أو علی التابعی ، الذی أسند قولہ الیہ ، وذلک بان یکون للحدیث سند مذکور، ولکن فی سندہ کذاب أو وضاع أو دلالۃ صریحۃ ، أو قرنیۃ ناطقۃ بکذب المنقول بہ ، فقولھم فیہ حینئذ: لا أصل لہ ، یعنون بہ : کذب الحدیث ، لا نفی وجود اسناد لہ ۔
ترجمہ: اور کبھی ان کے قول ’’ھذاالحدیث لا أصل لہ ‘‘ سے مراد یہ ہوتاہے کہ یہ حدیث موضوع ہے جو حضور ﷺ یا صحابی یا تابعی پر گڑھی ہوئی ہے اگر چہ اس حدیث کی سند بھی ہو ، کیونکہ اس کی سند میں کوئی وضاع یا کذاب ہوتا ہے یا صراحۃ کوئی قرینہ اس کے موضوع ہونے پر دلالت کرتا ہے تو اس وقت ان کی مراد ’’لا اصل لہ ‘‘سے حدیث کا جھوٹی ہونا ہے نہ یہ کہ اس حدیث کی کوئی سند نہیں۔(۱۹)
اس اطلاق کی مثال ہشام بن عمار الدمشقی ہے جس کے بارے میں ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : قال ابو داؤد: حدث ھشام بأربع مأۃ حدیث مسند لیس لھا أصل ۔ انتھی ۔ ونحوہ فی میزان الاعتدال ۔
ترجمہ: ابو داؤد رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ہشام نے ۴۰۰حدیثیں اسناد کے ساتھ بیان کی ہیں جن کی کوئی اصل نہیں ہے (۲۰)
(ج) اور کبھی علمائے محدثین بولتے ہیں : ھذاالحدیث لا اصل لہ فی الکتاب ولا فی السنۃ الصحیحۃ و الضعیفۃ ‘‘ یعنون بذلک ان معناہ ومضمونہ غریب عن نصوص الشریعۃ کل الغرابۃ ، لیس فیھا ما یشھد لمعناہ فی الجملۃ ۔ ترجمہ: ان کے اس قول’’ ھذاالحدیث لا اصل لہ فی الکتاب ولا فی السنۃ الصحیحۃ و الضعیفۃ ‘‘سے مراد یہ ہوتی ہے کہ حدیث کا معنی و مضمون نصوص شرعیہ میں غریب ہے، اس میںکچھ ایسا نہیں جس سے حدیث بعینہ نہ سہی کم سے کم اس کا معنی ہی درست و ثابت ہو۔
(د) اور کبھی جہابذئہ حدیث فرماتے ہیں : ’’لا أصل لہ فی الکتاب ولا فی السنۃ الصحیحۃ ‘‘ یعنون ان معناہ و ما یتضمنہ لفظہ ، لم یرد فی القرآن الکریم ولا فی الحدیث الصحیح الثابت عن رسول اللہ ﷺ فالنفی منھم فی ھذا متوجہ الی نفی ثبوت مضمون الحدیث فی نصوص الشرعیۃ الثابتۃ ، لا الضعیفۃ ۔ ترجمہ: ان کے اس قول ’’لا أصل لہ فی الکتاب ولا فی السنۃ الصحیحۃ ‘سے مراد یہ ہوتی ہے کہ حدیث کا معنی قرآن اور صحیح حدیث میں وارد نہیں ہے، لہذا یہاں حدیث کے معنی و مضمون کی نفی قرآن کریم اور احادیث صحیحہ سے ہے، احادیث ضعیفہ سے اس حدیث کے وجود کی نفی ہے(۲۱)
(۳) ’’موضوع‘‘ یا’’لیس بحدیث ‘‘کا قول کرنے والے علمائے کرام کے اقوال :
(الف) ابو الفضائل الحسن بن محمد الصاغانی رحمہ اللہ نے ’’حب الوطن من الایمان ‘‘کو موضوعات سے شما رکیا ہے، فرماتے ہیں : ومنھا قولھم (ای من الاحادیث الموضوعۃ ): حب الوطن من الایمان (۲۲)
(ب)علامہ علی القاری رحمہ اللہ فرماتے ہین : واما ’’حدیث حب الوطن من الایمان‘‘ فموضوع ۔(۲۳)
(ج) الحوت محمد بن درویش بن محمد فرماتے ہیں : حدیث:’’ حب الوطن من الایمان‘‘ حدیث موضوع (۲۴)
(د) العامری احمد بن عبد الکریم الغزی فرماتے ہیں : ’’حب الوطن من الایمان‘‘ لیس بحدیث (۲۵)
(ہ)امام ملا علی القاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وقیل انہ من کلام بعض السلف۔(۲۶)
’’موضوع‘‘ و’’لیس بحدیث‘‘ کا معنی و مفہوم: موضوع: سے مراد یہ ہے کہ حدیث گڑھی ہوئی ہے، حضور نبی کریم ﷺ سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ، اور لیس بحدیث: سے مرادیہ ہے کہ حدیث نہیںبلکہ کسی کا قول ہے۔
(۴) ان علمائے حدیث کے اقوال جنھوں نے ’’حب الوطن من الایمان ‘‘کے بارے میں فرمایا : لم أقف علیہ و معناہ صحیح:
(ألف)امام شمس الدین سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ لم اقف علیہ و معناہ صحیح ‘‘(۲۷)
(ب)علامہ عبد الرحمن بن علی شیبانی شافعی أثری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: حب الوطن من الایمان قال: شیخنا (أی السخاوی): ’’لم أقف علیہ ومعناہ صحیح‘‘ ۔ظاہر ہے انہون نے اس قول میں اپنے استاذ مکرم کی اتباع کی ہے۔(۲۸)
(ج)علامہ محمد طاہر فتنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ لم أقف علیہ ومعناہ صحیح‘‘۔ (۲۹) شاید انہوں نے بھی اس قول میں اما م سخاوی رحمہ اللہ کی اتباع کی ہے ۔
’’لم اقف علیہ و معناہ صحیح ‘‘ کا معنی و مفہوم:جب کوئی محدث یہ اصطلاح استعمال کرے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ اس محدث کو نہیں ملی، البتہ اس کے نزدیک شریعت اسلامیہ میں اس کی اصل موجود ہے۔
علمائے حدیث کا ’’حب الوطن من الایمان‘‘ کے معنی کو صحیح کہنے والے بعض علماء پر رد: علمائے حدیث نے حدیث کا معنی صحیح کہنے والوں کے قول کورد کر دیا اور آیت کریمۃ سے ثابت کیا کہ اس حدیث کا معنی بھی صحیح نہیں ہے۔ رد کرنے والوں کے اقوال مندرجہ ذیل ہیں :
(۱)امام ملا علی قاری رحمہ اللہ اس قول کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں: یہ تو عجیب قول ہے اس حدیث کا معنی کیسے صحیح ہو سکتا ہے جبکہ حب وطن اور ایمان کے درمیان کوئی تلازم نہیں، کیونکہ ایسا ہو سکتا ہے کہ حب وطن پایا جائے مگر ایمان مفقود ہو جیسا کہ کفار وطن سے محبت کرتے ہیں مگر ان کا دل ایمان کی رمق سے خالی و عاری ہوتا ہے ۔ اور اس پر کھلی ہوئی دلیل اللہ جل شانہ کا فرمان عالی شان ہے :’’ ولو انا کتبنا علیھم ان اقتلو ا انفسکم او اخرجوا من دیارکم ما فعلوہ الاقلیل منھم‘‘ ترجمہ:( اور اگر ہم ان پر فرض کرتے کہ اپنے آپ کو قتل کر دو یا اپنے گھر بار چھوڑ کر نکل جاؤ ، تو ان میں تھوڑے ہی ایسا کرتے)( ۳۰)یہ آیت واضح طور پر اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ منافقین کو وطن سے محبت تھی اگر چہ ان کے پاس ایمان کا خزانہ نہیں تھا۔ بعض لوگوں نے امام سخاوی رحمہ اللہ کی تائید کی اور فرمایا: ان کے قول سے مراد یہ نہیں ہے کہ وطن سے صرف مومن ہی محبت کرے گا بلکہ مراد یہ ہے کہ وطن سے محبت ایمان کے منافی نہیں ۔
مگر امام ملا علی قاری رحمہ اللہ اس تاویل کے ضعف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ظاہر ہے حدیث کا معنی یہی ہے کہ وطن سے محبت ایمان کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے ، اوور حب وطن علامت اسی وقت بن سکتا ہے جبکہ وہ مومن کے ساتھ خاص ہو ، اگر اس کے اندر بھی یہ خصوصیت پائی جائے اور کفار کے اندر بھی توحب وطن علامت ایمان نہیں بن سکتا ۔ اور اگرامام سخاوی رحمہ اللہ کا قول اس آیت کی طرف نظر کرتے ہوئے ہے جس میں اللہ تعالیٰ مومنوں کے قول کی حکایت کرتے ہوئے فرماتا ہے : وما لنا الا نقاتل فی سبیل اللہ وقد اخرجنا من دیارنا ۔ ترجمہ: (بولے ہمیں کیا ہوا کہ ہم اللہ کی راہ میں نہ لڑیں حالانکہ ہم نکالے گئے ہیں اپنے وطن سے) (۳۱)تو اس کے معارض یہ آیت موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ولو انا کتبنا علیھم ان اقتلوا ۔ الاٰیۃ ۔
پھر آگے فرماتے ہیں : اگر اس حدیث کے معنی کو صحیح مان لیا جائے تو اظہر یہ ہے کہ اس سے مراد جنت ہے ، یا مکہ شریف یا اللہ کی طرف رجوع، یا وطن متعارف مگر اس شرط کے ساتھ کہ محبت کا سبب صلہ رحمی ہو(۳۲)
(۲) علامہ منوفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ما ادعاہ من صحۃ معناہ عجیب: اذ لا ملازمۃ بین حب الوطن وبین الایمان ویردہ قولہ تعالی: ولو انا کتبنا علیہم ان اقتلوا انفسکم ۔۔۔۔۔۔۔ترجمہ: حافظ سخاوی رحمہ اللہ تعالی کا یہ دعوی کرنا کہ حدیث:حب الوطن۔۔۔۔۔کا معنی صحیح ہے بڑا عجیب وغریب ہے کیو نکہ وطن کی محبت اور ایمان کے درمیان کوئی تلازم نہیں، ان کے قول کو رد کرنے کے لئے اللہ جل شانہ کا یہ فرمان عالی شان کافی ہے:(ولو انا کتبنا علیہم ان اقتلوا انفسکم او اخرجوا من دیارکم ما فعلوہ الا قلیل منہم) (۳۳)
(۳)عالم جلیل عبد العزیز بن محمد امام سخاوی رحمہ اللہ کے قول پر تعقب کرتے ہوئے فرماتے ہیں : وقول السخاوی فی المقاصد معناہ : صحیح ۔ باطل لا یلتفت الیہ ۔ ترجمہ : اما سخاوی رحمہ اللہ کا یہ فرمانا کہ ’’حب الوطن من الایمان ‘‘ کا معنی صحیح ہے ،قابل التفات نہیں(۳۴)
شیخ محمد جمال الدین قاسمی دمشقی نے ایک عالم کا قول نقل کیا جو خطباء کے درمیان احادیث مکذوبۃ کے ذکر کرنے کا کیسا رواج ہے بیان کر نے کے بعد فرماتے ہیں:( و ذلک کحدیث’’حب الوطن من الایمان‘‘ الذی لا یفھم منہ بعد التاویل والتحلیل الا الحث علی تفرق الجامعۃ الاسلامیۃ ۔ التی تنشد ضالتھا الآن۔ فانہ یقضي بتفضیل مسلمی مصر مثلا علی من سواھم وان من فی الشام یفضل اخوتہ ھناک علی غیرھم ، وھکذا وھو الا نحلال بعینہ والتفرق المنھی عنہ ، واللہ یقول: ’’انما المومنون اخوۃ‘‘ ولم یقید الاخوۃ بمکان ، ویقول : ’’ویؤثرون علی انفسھم ولو کان بہم خصاصۃ‘‘ وأقل ما فیہ تفویت فضیلۃ الایثار) اس کی واضح مثال حدیث: حب الوطن۔۔۔۔۔۔ ہے جس کی تاویل وتوجیہ کرنے کے بعد بھی یہی سمجھ میں آتا ہے کہ یہ امت مسلمہ کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں، کیونکہ یہ ایک ملک کے مسلمان کو دوسرے ملک کے مسلمانون پر فضیلت دینا ہے اور یہی تشتت اور افتراق ہے جس کی اسلام میں ممانعت ہے ۔نیز اللہ جل شانہ فرماتا ہے :مومنین کہیں بھی ہوں بھائی بھائی ہیں۔ دوسری جگہ فرماتا ہے: ’’اور اپنی جانوں پر دوسرں کو ترجیح دیتے ہیں اگر چہ انہیں شدید محتاجی ہو‘‘ اوراگر کچھ نہیں تو کم سے کم اس حدیث کے معنی کو صحیح ماننے کی صورت میںایثار و قربانی کے جذبہ کو فوت کرنا ضرور ہے (۳۵)